قارئین گزشتہ کالم میں ہم نے بتایا تھاکہ کس طرح چچا نے چھتری کی تلاش میں گھر سر پر اٹھا لیا تھا ، ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا کیونکہ انہیں بارش میں بھیگنے جانا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بر وقت چچی کو خیال آیا کہ لاک ڈاون کے چلتے چچا چھتری لے کر کہاں جا رہے ہیں ؟ اور پھر جب چچی پھنکاریں ’’ بارش میں بھیگنا ہے ، تو جائیے بھیگ جائیے ، اس کے لیے چھتری کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘ بہر حال چچا گھر سے نکلے بھیگنے کے خیال سے ، تو اپنی گھڑی ، موبائل اور جیب میں کچھ رقم تھی اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی تھا سب گھر میں رکھوا دیا ۔ رقم ، موبائل اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر چچا بڑی خوشی سے بارش میں بھیگنے کے خیال سے گھر سے نکلے ۔ ابھی وہ اپنی بلڈنگ سے باہر نکلے تھے اور جے جے ہسپتال کے گیٹ نمبر ۱۲؍ کے سامنے ٹہل رہے تھے ۔ کالے کالے بادل گھر کے آ رہے تھے ، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، سڑکوں پرگاڑیاں اس قدر تیزی سے دوڑ رہی تھیں ، گویا سب کو گھر پہنچنے کی جلدی ہو ۔ رفتہ رفتہ بوندا باندی شروع ہو گئی ، چچا کی خوشی کا ٹھکا نہ نہیں رہا ۔ سرو پر دوپلی ، کندھے پر انگوچھا اورکرتا پاجامہ زیب تن کیے ، چچا ممبئی کی سڑکوں پر کسی ٹینی مرغ کی طرح پھدک رہے تھے ۔ ایک عدد چھڑی بھی ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے ، جسے وہ تلوار کی طرح ایسے ہوا میں لہرا رہے تھے کہ ابھی کشتوں کے پشتے لگا دیں گے ۔
چچا اپنی بےہنگم سی چال اور رفتار سے آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔ بوندا باندی تیز بارش میں تبدیل ہو گئی ۔ چچا کو بڑا لطف آ رہا تھا ، وہ بڑے جوش کے ساتھ آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔ جے جے ہسپتال کے گیٹ نمبر ۱۲؍ سے وہ ناک کی سیدھ میں چل رہے تھے ، ایسے ہی چلتے چلتے بھنڈی بازار تک پہنچے گئے ، بارش نے بھی خوب زور پکڑا ۔ لوگ تیزی سے اپنے گھروں کی جانب روانہ تھے ، مگر چچا بارش کی ترنگ میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے ۔ پھر اچانک ہی انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ کافی ٹھنڈ لگ رہی ہے ، سوچا کہیں ٹھہر کر چائے پی لی جائے ، سامنے ہی ایک ہوٹل پر نظر پڑی چچا بارش کے پانی میں شرابور ہوٹل میں پہنچے اور ایک چائے کا آرڈر دیا ، ہوٹل میں بیٹھتے ہی ، پکوان کی مہک سے چچا کی اشتہا بڑھ گئی ، انہوںنے بیرے کو آواز دی کہ کچھ آرڈر کریں ، اسی وقت انہیں خیال آیا کہ جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے ۔ اب کیا کریں ؟ چچا نے بیرے سے کچھ اور لانے کے لیے کہا اور خاموشی سے ہوٹل سے باہر نکل گئے ۔ سوچا کہ کسی کو فون کر کے بلوا لیتے ہیں ، جیب میں فون بھی نہیں ۔چچا کو کافی ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی ،آگے بڑھے ، تو دیکھا ایک چھوٹی سی دوکان میں پکوڑے تلے جا رہے تھے اور چائے بھی بن رہی تھی ، لوگ وہاں بارش سے بچنے کے لیے کھڑے تھے ، کچھ لوگ چائے پی رہے تھے ۔ چچا بول بچن کی بڑی خواہش تھی کہ گرما گرم پکوڑے کھا کر گرم چائے پی جائے ، مگر جیب میں بٹوا نہیںتھا۔ وہ ان ہی خیالات میں آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک چھتری بکف خاتون سے ٹکرا گئے ، ٹکر ایسی ہوئی کہ دونوں فٹ پاتھ پر گر گئے ، محترمہ اپنی چھتری سنبھالتے ہوئی اٹھیں اور چچا کے لتے لے ڈالے ، چچا اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہے تھے معافی معذرت کر رہے تھے ، مگر وہ خاتون آپے سے باہر تھیں ، وہاں موجود لڑکوں نے فقرہ کسا ۔’’ ہم تو ڈوبے ہیں ، صنم ، تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘‘ اس فقرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ، وہ خاتون خوب چلا رہی تھیں اور چچا کا بول بچن بارش میں بھیگ کر جم گیا تھا ۔ ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ جب کوئی چچا سے دو سُر اونچا بولے ، تو یہ ایسے خاموش ہو کر دبک جاتے ہیں ، جیسے کسی اصیل مرغ کے سامنے کوئی ٹینی مرغ دبک جاتا ہے یا دم دبا کر بھاگ جاتا ہے ۔ اب چچا کانپنے بھی لگ گئے ، مگر یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ غصے سے کانپ رہے ہیں یا ، بارش کی ٹھنڈ سے ؟ چچا نے گھر واپسی کا رخ کر لیا تھا ، مگر پاؤں جواب دے رہے تھے ، چلنے کی سکت نہیں تھی ،اب انہیں گھرکا آرام یاد آ رہا تھا ۔ گرم لحاف اور گرما گرم چائے یا د آ رہی تھی ۔ اس وقت وہ یہ ہی سوچتے چلے جا رہے تھے کہ پھر راستے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑے اور پھر انہیں ہوش نہ رہا ۔ جہاں چچا گرے تھے وہاں سے ان کے جاننے والے دو افرادگزر رہے تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ چچا کی چھڑی ایک طرف پڑی ہے اور چچا چاروں خانے چت ، تو فوراً ایک ٹیکسی رکوائی اور انہیں ان کے گھر لے جانے کا انتظام کیا ساتھ ہی ان کے گھر پر فون کر کے صورت حال سے آگاہ کیا ۔ گھر پر یہ اطلاع پہنچتے ہی سب پریشا ن ہو گئے ، بیٹے بلڈنگ سے باہر ہی چھتریاں ہاتھ میں لیے کھڑے ہوگئے ۔ ٹیکسی آ گئی ، چچا کو اتار کر ان کی کھاٹ پر لٹا دیا گیا ۔ ان کے گھر پہنچنے سے قبل ہی غسل خانے میں گرم پانی رکھوا دیا گیا تھا ۔ چچا کے بیٹوں نے انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی ۔ چچا نے آنکھیں کھول دیں اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس وقت وہ اپنے گھرپہنچ چکے ہیں ۔ بڑے بیٹے نے فوراً چچا کے کپڑے بدلوا دیے ، بستر پر لٹا کر کمبل اوڑھا دیا اور چچی نے گرم گرم چائے کی پیالی چچا کو پیش کی ۔ جب چچا نے چائے پی ، تو ان کے ہوش ٹھکانے آئے ، اس وقت وہ گھر کے آرام دہ بستر ، گرم کمبل اور گرم چائے کے لیے اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا ، جو انہیں گھر تک لے آئے تھے ۔چچا کے لیے ڈاکٹر کو بلوایا گیا تھا ۔ ڈاکٹر نے آ کر چچا کی اچھی طرح جانچ کی اور کچھ دوائیں لکھ دیں ، ڈاکٹر نے یہ بتایا کہ چچا کو ٹھنڈ لگ جانے سے نمونیہ کا خطرہ ہے ، اس لیے علاج شروع کر دیا ہے ۔ یہ سنتے ہی چچا بڑ بڑائے ۔ ’’ گئے تھے گھموریوں سے نجات پانے ، الٹے نمونیہ گلے پڑ گیا ۔ ‘‘ ان کے اس جملے پر سب زیر لب مسکرا دیے ۔