٭ چچا بول بچن کا جوتوں کا کارخانہ بند تھا کیونکہ جب سے غیر ملکی مال مارکٹ میں آ رہا تھا ، چچا کو جوتے چپل کے آرڈر کم مل رہے تھے یا پھر نہیں مل رہے تھے ، پھر گزشتہ دیڑھ سال سے لاک ڈاؤن نے اور بھی مشکل کھڑی کر دی تھی ۔ کاروبار ٹھپ تھا ۔ چچا چونکہ بےروزگار ہو گئے تھے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں تھا ، تو چچالیڈر بن گئے، مگر مفت کی لیڈری کرتے کرتے تنگ آ چکے تھے ۔ ایک دن انہوں نے اپنا کاروبار دو بارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا اور انہیں غیبی مدد بھی حاصل ہو گئی۔ایک بہت بڑے جوتوں کے ڈیلر اور ایکسپورٹر نے چچا کو پانچ لاکھ جوتوں کا آرڈر دیا تھا ۔ ہر مہینے پانچ ہزار جوتے تیار کرنے تھے ۔ یہ ایک بہت بڑا آرڈر تھا ، جو زبانی طے ہوا تھااور بہت جلد تحریری معاہدے کے بعد چچا کو ایک بڑی رقم پیشگی ملنے والی تھی تاکہ وہ اپنا کام شروع کر سکیں ۔چچا نے بند پڑے کارخانے کی مرمت کروائی اور سارے اوزار بھی ٹھیک ٹھاک کروا لیے ۔ کیونکہ یہ آرڈر ایک ایکسپوٹر کا تھا ، لہٰذا یہ جوتے اپنے ملک کے علاوہ بیرون ممالک بھی جانے والے تھے۔
چچا اپنی ہمہ جہت کوششوں کی وجہ سے کافی مصروف رہا کرتے تھے اور شہرت تو ان کے گھر کی باندی تھی ۔ کچھ تو ان کے جوتوں نے شہرت بخشی اور کچھ ان کی اول جلول حرکتوں نے ۔
ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ساتھ افطار پارٹیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا ، مگر احتیاط کے ساتھ کیونکہ ملک میں چل رہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک ہی جگہ بھیڑ اکٹھا کرنے کی ممانعت تھی ۔ گزشتہ سال تو تراویح اور عید کی نماز کے لیے بھی لوگ اکٹھا نہیں ہو پائے ، مگر اس سال لاک ڈاؤن میں تھوڑی نرمی تھی ۔ ماسک لازم ہے ، باجماعت نماز میں بھی مناسب فاصلہ لازم ۔ شادی کی تقریب کے لیے بھی پچاس افراد تک کی اجازت مل رہی تھی ۔ اسی لیے شہر کے جوتوں کے بڑے ایکسپورٹر نے پچاس افراد کو افطار پارٹی پر بھی مدعو کر لیا ، جن میں زیادہ تر سیاسی لیڈران شامل تھے۔افطار پارٹی میں کوئی برائی نہیں ہے ، یہ کارِ خیر ہے ا س سے آپسی تعلقات اور محبت بڑھتی ہے ۔ مگر آج کل افطار پارٹی فیشن اور کاروباری ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ ہو کر رہ گئی ہیں ، تو کہیں سیاسی افطار پارٹیاں ہوتی ہیں ، جہاں افطار کے نام پر شاندار دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور زخم خوردہ مسلمانوں کے زخموں پر افطار کا مرہم لگایا جاتا ہے تاکہ حکومتِ وقت کا شکریہ ادا کریں اور اس کے لیے پھر سے سہل الحصول ووٹ بنک بن جائیں … اور بس افطار کے بعد لوگ حکومتِ وقت کی ثنا کرتے ہیں … اور ایسے میں مغرب کی نماز ؟ …وہ تو قضا ہو ہی جاتی ہے ۔
چچا بول بچن اس قسم کی سیاسی افطار پارٹیوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور اس کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ انہوں نے ایسی کئی سرکاری افطار پارٹیوں کا بائکاٹ کیا ۔ نہ خود گئے اور نہ ہی اپنی پبلک کو شریک ہونے دیا ۔ کئی بار تو ان کی پبلک نے سیاسی افطار پارٹیوں کے خلاف مظاہرے بھی کیے ۔
رمضان کے آخری روزے چل رہے تھے ۔ چچا عصر کی نماز پڑھ کر کھاٹ پر سستانے بیٹھے ہی تھے کہ ایک صاحب دعوت نامہ لے کر چچا کے پاس آئے اور انہیں افطار پاٹی میں شریک ہونے کے لیے کہہ کرچلے گئے ۔ چچا نے دعوت نامہ پڑھا ، تو خوش ہوئے کیونکہ یہ دعوت نامہ وہیں سے آیا تھا ، جہاں سے انہیں ، پانچ لاکھ جوتوں کا آرڈر مل رہا تھا ۔ چچا نے سوچا ، ہم اس دعوت میں ضرور جائیں گے ، کیونکہ یہ کوئی سرکاری افطارپارٹی نہیں ہے ، یہ ایک تاجر کی افطار پارٹی ہے ، جس کی دعوت انہیں ملی ہے۔ یہاں کوئی سرکاری پارٹی والا چکر نہیں ہوگا ۔ حسب عادت چچا خوب بن سنور کر افطار پارٹی میں شریک ہونے پہنچ گئے ۔
وہاں انہوں نے دیکھا کہ بڑی زبر دست تیاری تھی ۔ میز کرسیاں لگی تھیں اور با وردی ملازم ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے ۔ چچا کی نظر ایک ایسی میز پر پڑی ، جہاں گلاب کے پھولوں کی پنکھڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ چچا حیران ہوئے ’’ بھلا یہاں پھولوں کی پنکھڑیوں کا کیا کام ؟ اے میاں یہ میز پر جہاں پھولوں کی پنکھڑیاں بچھی ہیں کیا اسی سے افطار کیا جائے گا؟ چچا کے سوال پر لوگوں نے پھولوں سے سجی میز کی طرف دیکھا اور زیرِ لب مسکرائے ، مگر ایک شخص نے وضاحت کر دی ۔ ’’ چچا یہاں مہمان خصوصی کو بٹھایا جائے گا ۔ ‘ ‘ چچا نے حیرت کا اظہار کیا ’’ مہمانِ خصوصی ؟ بھلا یہ کیا ہوتا ہے ؟ ‘ ملازم نے دھیرے سے چچا کی معلومات میں اضافہ کیا ۔’’چچا کچھ سیاسی لیڈر کارپوریٹر ، ایم ایل اے اور منسٹر وغیرہ ہوں گے ۔ یہ خصوصی انتطام انہی لوگوں کے لیے کیا گیاہے ۔ ‘‘ چچا نے ہنکار بھری ’’ ہوں … تو گویا یہ بھی سیاسی افطار پارٹی ہے ۔ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے کہ کوئی انسان چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور نہ کوئی خاص نہ عام ہوتا ہے ۔ افطار پارٹی اور وہاں بھی خاص و عام کی تخصیص ، یہ بھول گئے آپ لوگ’ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘ ؟ ۔‘‘ ایک صاحب نے چچا کے بول بچن پر بریک لگانے کی کوشش کی ’’ چچا ، بات دراصل یہ ہے کہ افطار تو نیک کام ہے ، مگر اس نیک کام کے ساتھ ساتھ کچھ کاروباری فائدہ بھی ہو جائے تو برا کیا ہے ؟ اب دیکھیے جوتوں کے ایکسپورٹ کے لیے لائسنس کی ضرورت ہے ، تو سرکاری لوگوں سے راہ و رسم تو بڑھانا ہی ہوگا نا ؟ ابھی لاک ڈاؤن بھی ہے ، ایسے ہی کیا جوتوں کا ایکسپورٹ شروع ہو جائے گا؟ اس کے لیے با اثر لوگوں سے تعلقات بنانے ہوتے ہیں اور افطار پارٹی ہی ابھی ایک ایسا موقع فراہم کر سکتی ہے۔آپ نے سنا ہوگا۔’ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے‘۔ ‘‘
یہ سنتے ہی چچا کے چہرے پر ایک رنگ آ کر رہ گیا ۔ انہوں نے غصے پر قابو پانے کی پوری کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غصہ حرام ہے اور پھر چچا روزے سے تھے ، مگر ان کے بول بچن پر ان کا اختیار نہ تھا۔ ’’ تو ، اس افطار پارٹی کا انتظام بھی کسی نہ کسی فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ؟ مطلب یہ بھی سیاسی یا کاروباری پارٹی ہے ، جسے افطار کا نام دیا گیا ہے ۔‘‘
افطار کا وقت ہو گیا ۔ چچا کو ہوش آیا ، انہوں نے اپنی جیب سے کھجور کا پیکٹ نکالا افطار کیا اور وہیں اذان دینا شروع کر دی کیونکہ وہاں قریب کوئی مسجد نہیں تھی ۔ تمام لوگ حیرت سے چچا کو گھو ر رہے تھے ، جیسے وہ کوئی احمقانہ حرکت کر رہے ہوں ۔ اذان دیتے ہی چچا نے سب سے پوچھا ’’ نماز کہاں پڑھی جائے ؟‘‘ کوئی جواب نہیں ملا ، چچا نے اپنا انگوچھا بچھایا اور تکبیر پکارنے لگے ۔ ان کے پیچھے کچھ ملازم اور بیرے کھڑے ہو گئے ، ساتھ ہی کچھ پنج وقتہ نمازیوں نے بھی صف بنا لی ۔ اسی وقت وی آئی پی لاؤنج سے آواز آئی ’’ بڑے میاں کی کھسک گئی ہے کیا ؟ صاحب ِ خانہ چچا کی حرکتوں پر سبکی محسوس کر تے ہوئے وضاحت کی ’’ ڈونٹ مائنڈ سر ، چچا دراصل بنیاد پرست ہیں ۔‘‘
چچا نے نماز پڑھی اور داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ، ’’ اچھا میاں چلتا ہوں اب تراویح بھی پڑھنی ہے ، میں چونکہ بنیاد پرست ہوں اور میری بنیاد ہے کلمۂ توحید ، کم سے کم میری بنیاد تو ہے ؟ ‘‘
ایک ہفتے بعد چچا پانچ لاکھ جوتوں کے معاہدے پر دستخط کرنے گئے ، تو منیجر نے انہیں باہر ہی اطلا ع دے دی۔ ’’ چچا خبر اچھی نہیں ہے ، جوتوں کاکنٹریکٹ دوسری فیکٹری کو دے دیا گیا۔ ‘‘ یہ سن کر چچا نے کہا ’’ میں تم سے کوئی وجہ نہیں پوچھوں گا ، منیجر صاحب کیونکہ میں جانتا ہوں ، کہ جو لوگ خدا سے کیے گئے وعدے پر قایم نہیں رہ سکتے ، وہ بھلا مجھ جیسے انسان سے کیے گئے وعدے کو کہاں تک ڈھو سکتے تھے ؟ شکر یہ …۔ ٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...