چاچا بخشا ابھی تک اس بات پر قائم ہے کہ جو سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب نے کرپشن نہیں کی وہ معصوم ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ ان کو سزا کرپشن پر ملی ہے وہ معصوم تر ہیں.
ہم نے تفصیلی فیصلہ نہیں پڑھا لیکن فیس بک پر دو کمنٹس کی اپنی دانست میں قانونی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔
دو الزامات کو کنفیوز کیا جا رہا ہے۔
ایک الزام کرپشن کا ہے جو شاید ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس کا بار ثبوت الزام لگانے والے پر تھا۔ یعنی رشوت یا کمیشن وغیرہ لینے کا ثبوت۔
دوسرا الزام عوامی یا سرکاری عہدے پر ہوتے ہوئے اپنے معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے کا ہے۔ اس میں الزام لگانے والے نے محض یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس جائیداد یے۔ یہاں بار ثبوت الٹ جاتا ہے۔ ملزم کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جائیداد جائز ذرائع سے بنائی گئی تھی۔ ورنہ قانون کرپشن یا عہدے کا ناجائز استعمال فرض کرلیتا ہے۔ میاں صاحب جائیداد بنانے کے جائز ذرائع ثابت نہیں کرسکے۔
اس میں ایک دفاع یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ جائیداد میاں صاحب کے نام نہیں۔ نہ ہی پناما میں ان کا نام ہے۔ لیکن اس دفاع کے لیے ضروری ہے کہ صاحب جائیداد سے ان کا کوئی مالی تعلق نہ ہو یا صاحب جائیداد اس کے جائز ذرائع ثابت کرسکے۔ لیکن چونکہ میاں صاحب کے مالی معاملات بچوں سے الگ نہیں۔ وہ بچوں سے کروڑوں روپے نقد اور کروڑوں کی مالیت کے تحفے لیتے رہے ہیں۔ اور بچے بھی جائیداد کے جائز مالی ذرائع ثابت نہیں کر سکے۔ اس لیے بچوں کو ان کا فرنٹ مین سمجھا جاسکتا ہے۔
وائٹ کالر جرائم میں براہ راست اور واضح شہادت کم ہی ملتی ہے۔ واقعاتی شہادت یعنی circumstantial evidence ہی پر عموماً سزا ہوتی ہے۔
اس کے باوجود خاکسار کا ذاتی خیال یہ ہے کہ میاں صاحب کے موجودہ دور کی کوئی خاص کرپشن نہیں ملی۔ اس سے پہلے کی حرکات کی سزا وہ مشرف دور میں کافی بھگت چکے ہیں اور اس وقت تک اہم کاروباری بلکہ سیاسی فیصلوں میں حتمی رائے میاں شریف مرحوم کی ہوتی تھی۔
میاں صاحب کے آخری دور میں ان کی کارکردگی پاکستان جیسے ملک کے لیے قابل قبول حد تک بہتر تھی۔
ملک میں موجودہ معاشی اور سیاسی بحران پیدا کرنے کی بنیادی ذمہ داری محکمہ زراعت پر آتی ہے۔ جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔
دہشتگردوں کے لیے معافی اور مین سٹریم میں لانے کی خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ زبانی اختلاف یا احتجاج کرنیوالوں کے لیے غدار اور را کے ایجنٹ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس ملک کی مڈل کلاس اور سول و ملٹری بیوروکریسی اپنی نصابی تعلیم کی وجہ سے خود کو عقل کل سمجھتی ہے اور سیاست اور سیاستدانوں کو گھٹیا اور قابل نفرت سمجھتی ہے۔ اور کاروباری کامیابی کو بھی عموماً کرپشن ہی کا شاخسانہ سمجھتی ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے پاس ہماری رائے سے سنگین اختلافات کی وجوہات ہونگی۔ جو ہمارے بھی علم میں ہیں۔ لیکن آج ہم ان کو سننے کے موڈ میں نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔