شاعر ۔ چچا آپ نے کلکتہ کا سفر کیا ۔۔کیا حاصل ہوا ؟
غالب ۔دلی کی گلیاں چھوڑ کر ۔۔اپنے اجداد کی پونجی حاصل کرنے کے لیے گئے تھے مگر ناکام ونامراد لوٹ آئے ۔۔۔راہ میں تجربات حاصل ہوئے ۔۔ ہمیں چکنی ڈلی دکھا کر آزمایا بھی گیا ۔۔۔کہ ہم شاعر ہیں کہ ۔۔۔مگر میاں ہم نے وہ اشعار کہے کہ سبھی انگشت بہ دنداں رہ گئے ،کیا سمجھ رکھا تھا انہوں نے ۔۔۔انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ شاعری ہماری گھٹی میں پلی ہے ۔۔وہ تو ذوق ہمارے ہم عصر ہونے کی وجہ سے نامی ہوئے ۔۔یا شاہ کی بدولت ، ویسے ہم بھی شہ کا مصاحب بنے اترتے پھرے ۔۔۔
شاعر ۔۔۔چچا ۔۔چچا !! کلکتہ سے واپسی پر گفتگو چل رہی تھی !!
غالب ۔۔ہاں ! ہاں !! دلی لوٹ آئے ۔۔اور کھانے کو کچھ پاس نہیں ۔۔دلی میں رہیں پر کھائیں گے کیا ؟؟۔۔تو صاحب روزہ ہی کھانے لگے ۔۔اور بڑی حسرت سے کہنے لگے ۔۔خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ۔۔کوئی واعظ نصیحت کرتے تو کہتا ،
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
۔۔صاحب ہم طبیعت کے ہاتھوں مجبور تھے ۔۔پھر بھی کوشش کی ۔۔شاہ سے التجا کی کہ اگر زیارت حج نصیب ہو تو ،
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
شاعر ۔۔مگر چچا یہ تو غدر سے پہلے ؟؟
غالب ۔۔۔ہاں ۔ ۔۔جانتا ہوں ۔۔خیر، گھر واپسی پر ہم نے دیکھا کہ ،
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
ہماری ناگفتہ بہہ حالت پر کسی کو ترس نہ آیا ۔۔تنگ آکر ہم رہگزر پر بھی بیٹھ گئے ۔۔۔شاید اسی سے متاثر ہوکر آنے والے وقتوں میں لوگ بھوک ہڑتال پر بیٹھنے لگے ۔۔۔
شاعر ۔۔۔بالکل ۔۔بالکل ۔چچا ! آپ کا کوئی غمخوار نہیں تھا !!
غالب ۔۔تیوریاں چڑھا کر ۔۔تو کیا ،یوں ہی کہدیا ؟
بے درودیوار سا ایک گھر بنایا چاہیے
ارے صاحب ۔۔غم گساری تو چھوڑئیے ۔۔دشنام بھرے خطوط موصول ہوتے ۔۔ ہم ان کی عقلوں پر ماتم کرتے کہ ۔۔۔اس عمر میں ماں کی گالیاں نہیں دی جاتیں ۔۔ان فاترالعقل پر ہنسی آتی !!
چچا ۔۔کوئی ایک سچا ہمدرد ؟
چچا ۔۔ہاں ۔۔تھا ۔۔حالی ۔۔جو ہمارے پیر دباتا اور ہم اس کی اجرت ۔۔پھر بھی ظالم نے یادگار غالب لکھ ہمارے حاسدوں کو چپ کرایا ۔۔اسی نے ہمیں نیک نامی دی ورنہ سبھی پوچھتے کہ غالب کون ہے ؟
ہم تنگ آکر کہتے ،
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
شاعر ۔۔کیا خوب چچا غالب ۔۔غزل پر تو آپ غالب ہیں ۔۔ کسی قدر قصیدے پر ۔۔ مگر نظم کو آپ نے شجر ممنوعہ سمجھا ۔۔ اور اگر نثری نظم میں کہتے تو اس سے بڑھ کر کہتے ،
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
غالب ۔۔حیران ہو کر ۔۔یہ نثری نظم کیا ہے ؟
شاعر ۔۔مرکزی خیال کو خوب پھیلایا جائے ۔ ۔۔جیسے ،
آپ نے بس ایک شعر کہا ،
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نے لگے اور بجھائے نہ بنے
اسے اس طرح کہیے ،
عشق پر زور نہیں
جی ہاں
بالکل
عشق پر زور نہیں
یہ کوئی
زور زبردستی والی بات نہیں
یہ آتش ہے
بلکہ آتش فشاں پہاڑ
سب کو
جلا کر
خاکستر کردے
یہ
لگائے نہ لگے
نہیں لگائی جاتی
یہ آگ
زبردستی
چاہے ماچس کی پوری تیلیاں
برباد کردی جائیں
اور اگر
لگ گئی تو
بجھائے نہ بنے
چاہے فائربریگیڈ بلالو
غالب
میں آپ کو
خبردار کررہا ہوں
غالب ۔۔میاں ۔۔کیا اول فول بک رہے ہو ۔۔نہ بحر نہ وزن ۔۔ کیوں کان کھائے جارہے ہو ۔۔اگر یہی کہنا ہوتا تو دفتر کے دفتر لکھتا ۔۔اور مجھے کہنا پڑتا ،
پکڑے جاتے ہیں ۔۔ اول فول لکھے پر ناحق
یہ تمہیں مبارک ۔۔میں چلا ۔ ۔خدا حافظ