شاکر علی 4 مارچ 1916 کو رام پور برطانوی ہند موجودہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ اسکول کی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آرٹ کے ساتھ دلچسپی کے سبب اس شعبہ کی طرف آ گئے اور 1937 میں UKIL برادر سٹوڈیو، نئی دہلی میں کام کرنا شروع کر دیا۔
1938 میں "جے جے سکول آف آرٹس، بمبئی" میں داخلہ لیا اور سات سال تک یہاں پر زیر تعلیم رہے۔ 1945 میں اسی ادارے سے "میورل ڈیکوریشن" میں پوسٹ گریجویٹ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ اس کے بعد آرٹ میں مزید تعلیم کی غرض سے آپ 1948 میں لندن گئے اور وہاں پر "سیلیڈ سکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج" سے فائن آرٹس میں ایک اور ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1949 میں آپ فرانس چلے گئے، وہاں پر آندرے لوتھ (Andre Lhote) کے ساتھ ایک سال کام کرنے کے بعد 1950 ء میں "سکول آف انڈسٹریل ڈیزائننگ پیراگوئے" سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ڈپلومہ مکمل کر کے پاکستان آگئے۔
پاکستان آکر 1952 سے 1958 تک آپ میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کرنے لگے اور 1958 میں آپ اسی کالج میں پروفیسر کے عہدے تک پہنچ گئے۔ 1961 سے 1973 تک آپ نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں بطور پرنسپل خدمات سرانجام دیں اور 1974 میں آپ کو نیشنل کالج آف آرٹس کا تاحیات پروفیسر منتخب کر لیا گیا۔
"شاکر علی" فنِ خطاطی کو "تجریدی آرٹ" کے طور پر متعارف کرانے والے اہم پاکستانی مصور تھے اور بعد میں یہ روایت یہاں پر بہت مقبول ہوئی۔
شاکر علی کی "تصویری نمائش" کا باقاعدہ آغاز "پاکستان" سے ہی ہوا اور آپ کی "پہلی تصویری نمائش" 1956 میں شعبہ فائن آرٹ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ہوئی۔ اس کے بعد 1957 میں آرٹس کونسل، کراچی اور لاہور میں آپ کی تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ 1965، 1966 اور 1973 میں نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور میں آپ کی بنائی ہوئی تصاویر کی نمائشیں ہوئیں، جنہیں دیکھنے والوں نے بہت سراہا۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک امریکہ، برازیل، اٹلی، ایران اور انگلستان میں بھی آپ کے فن پاروں کی نمائشیں ہوئیں۔
شاکر علی کو ان کی فنی خدمات (مصوری) کے اعتراف میں 1967 میں "صدارتی ایوارڈ" سے نوازا گیا، جبکہ 1971 میں فائن آرٹ کیلئے آپ کی گرانقدر تدریسی اور فنّی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ’’ستارہ امتیاز‘‘ بھی عطا کیا گیا۔ آپ پاکستان میں فنِ مصوری کا ایک اہم اور معتبر نام ہیں۔ آپ نے یہاں پر ایک ایسے عہد میں اپنے کام کا آغاز کیا جب گردو پیش میں مجموعی طور پر جمود کا دور دورہ تھا۔ آپ وہ پہلے پاکستانی مصور ہیں جنہوں نے فنِ مصوری کو جدید مغربی تکنیک سے مالا مال کیا۔ آپ نے روایت اور جدّت کے آمیزے سے ایک ایسی فکری و فنّی تحریک کی بنیاد رکھی جو جمود اور بے معنویت کے خاتمے کا باعث بنی اور پھر ہمارے یہاں مصوروں اور ہنرمندوں کی ذہن کشائی کا عمل شروع ہوا، جس سے "پاکستانی مصوری" کا جہان نِت نئے تجربات سے سجتا چلا گیا۔ آپ نے پاکستانی مصوروں کو اعتماد، یقین اور آگہی کے اوصاف سے مالا مال کیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ جدّت کے ساتھ ساتھ روایت کو بھی نبھایا جا سکتا ہے، چنانچہ اُس وقت جو مصور بےیقینی اور بے معنویت میں مبتلا تھے تو وہ شاکر علی کے زیرِ اثر آکر یقین اور اعتماد کی فضا میں جدت اور تجرید کے آہنگ میں اپنے قومی گردوپیش اور دوسرے موضوعات کو کینوس پر منتقل کرنے لگے۔
شاکر علی پاکستان میں ’’تجریدی آرٹ‘‘ کی تحریک کا پیشوا ہیں۔ ان کی تصویروں میں حقیقی جذبہ اور کائنات سے متعلق ایک خاص اندازِ نظر موجود ہے۔ وہ انسانی تجربے اور کائنات کو ایک کشمکش اور تصادم کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ آپ کے تجریدی کام کی خاص بات اس کا منفرد زاویہ فکر ہے۔ شاکر علی نے زندگی کے فطری رنگوں مثلاً چاند، چڑیوں، پھولوں اور ستاروں کو ایسے خوبصورت رنگوں سے نوازا ہے کہ ان پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔
چاند، چڑیوں، پھولوں اور ستاروں کا یہ "مصور" 27 جنوری 1975 کو اس فانی دنیا سے کوچ کر کے، قبرستان اے بلاک گارڈن ٹاؤن لاہور میں آسودہ خاک ہوا۔
شاکر علی کا فن آج بھی کسی نہ کسی انداز میں زندہ ہے اور اس کے اثرات آنے والے زمانوں میں بھی محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ ان کے فن پاروں کا تنوع اور رنگا رنگی انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
“