ہر دور میں انسان عجائب تعمیر کرتا آیا ہے۔ کبھی اہرامِ مصر تو کبھی تاج محل۔ آج کے دور کے اہرامِ مصر شاید ہماری سائنسی تجربہ گاہیں ہیں۔ خواہ خلا میں سپیس سٹیشن ہوں، سمندر کی تہہ میں تجربہ گاہیں یا پھر اینٹارٹیکا کی آبزرویٹریز۔ اس وقت دنیا میں ہونے والے بڑے سائنسی پراجیکٹ عالمی تعاون سے ہو رہے ہیں۔ مثلا، بائیولوجی کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہیومن جینوم پراجیکٹ میں بائیس ممالک نے حصہ لیا۔ جو تجربہ گاہ پارٹیکل فزکس میں سب سے بڑا عجوبہ ہے وہ یورپ میں سرن لیب ہے۔ صرف اس کے ایک ڈیٹیکٹر ایٹلس میں استعمال ہونے والی تار چار ہزار کلومیٹر لمبی ہے اور اس کا وزن سات ہزار ٹن ہے۔ اتنا جتنا آئیفل ٹاور ہے لیکن اس میں کاری گری کسی سوئس گھڑی سے زیادہ باریک ہے۔
یہ تجربہ گاہ بھی عالمی تعاون سے بنی اور چل رہی ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جو ایشیا میں سرن کا پہلا ایسوسی ایٹ ممبر تھا۔ اس کی کہانی کچھ تصاویر میں۔
1۔ دنیا کے ممالک جو اس میں حصے دار ہیں
2۔ ایٹلس ڈیٹکٹر
3۔ پاکستانی انجینئیر ایم لائن سپلائس پر کام کرتے ہوئے
4۔ سپرکنڈکٹنگ میگنٹ اور سرکٹ کنسولیڈیشن ٹیم کی ایک تصویر
5۔ ٹیم کی ایک تصویر۔ اس میں آدھے ممبر پاکستان سے اور آدھے اسرائیل سے ہیں۔
6۔ ٹیکسلا میں تیار کردہ بیرل رنگ کی سپورٹ کی سی ایکس فائیو ہال میں آمد۔ یہ سی ایم ایس پراجیکٹ میں نصب ہے۔ انہیں پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن نے تیار کیا۔ ان چار میں سے ہر ایک بیس کا وزن تیس ٹن ہے۔ اس قسم کے دو سیٹ پاکستان نے تیار کئے۔
سرن کی ویب سائٹ پر پاکستان کا 2014 میں ممبر بننے کی خبر
https://home.cern/…/pakistan-becomes-associate-member-state…
سرن کے لارج ہیڈرون کولائیڈر کے بارے میں پہلے کی گئی ایک پوسٹ
https://web.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/924079481093922/
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔