اس دنیا میں جانداروں کی ایک بہت بڑی ورائٹی موجود ہے۔ یہ جاندار کیمیکلز کی فیکٹریز ہیں۔ ہر جاندار مختلف طرح کے کیمیکلز ماحول سے لیتا ہے اور ان کیمیکلز کی مدد سے اپنے جسم کو برقرار رکھتا ہے اور ریپروڈکشن کرتا ہے۔
زمین میں زیادہ تر جاندار یونی سیلولر یعنی ایک سیل والے ہیں۔ اور ملٹی سیلولر جاندار سیلز کے بہت سارے گروپس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سیلز کے ہر گروپ کا اپنا ایک کردار ہوتا ہےاور یہ سیلز ایک دوسرے کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں۔
اگر یہ پوچھا جائے کہ جاندار اور بے جان میں نمایاں فرق کیا ہے تو اس کا ایک جواب ہو گا وراثتی معلومات۔ جاندار ایک سیل والا ہو یا ملٹی سیلولر، وہ ایک سیل کی تقسیم سے بنتا ہے۔
سیل کی وراثتی معلومات کی وجہ سے ہی ہر سیل اپنے ماحول سے مٹیریل کو لیتا ہے، اسے خام مال کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنی وراثتی معلومات کی کوپی تیار کر کے اگلی نسل میں منتقل کرتا ہے۔ دنیا میں سیل سے چھوٹی کسی اور چیز میں ایسی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
دنیا میں تمام سیلز کی وراثتی معلومات ڈی این اے کے مولیکیولز کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ اس وراثتی معلومات کو لکھنے والی زبان کے محض چار حروف تہجی ہیں۔ ان کے نام ہیں اے، جی، ٹی،اور سی۔ یہ چار نام ڈی این اے کو بنانے والے نیوکلیوٹائیڈز میں استعمال ہونے والی چار نائٹروجنس بیسیز؛ ایڈنین، گوانین،تھائیمیں اور سائٹوسین کےہیں۔
تمام جانداروں کےڈی این اے کے حروف تہجی ایک جیسے ہونے کی وجہ سے ایک بیکٹیریا کا ڈی این اے انسان کےڈی این اے میں شامل کیا جا سکتا ہے اور انسان کا ڈی این اے بیکٹیریا میں۔ ایک جاندار کا ڈی این اے دوسرے کے سیل میں بھی وہی کام کرے گا جو وہ اپنے سیل میں کرتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...