میں نے ایک عورت کو دوسری عورت سے شکایت کرتے سنا۔
شکایت یہ تھی کہ خاتون ایک شخص کے ساتھ ملوث تھی جو اسے کتابیں دیتا رہتا تھا اور اگرچہ یہ کتابیں بہت اچھی دکھائی دیتی تھیں۔ کتابیں جو یہ خاتون پڑھنا چاہتی تھی اور پڑھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ وہ صرف اس شرح کو برقرار نہیں رکھ سکتی تھی جس پر وہ اسے یہ تمام کتابیں دے رہا تھا۔ شکایت کرنے والی خاتون نے کہا ہر مرتبہ جب وہ اسے کوئی کتاب دیتا وہ آدمی اصرار کرتا کہ وہ کتاب بہت ہی خاص ہے۔ کتاب جس کی اس شخص کے نزدیک بہت قیمت تھی اور اس کی لمبائی اور کثافت کے قطع نظر وہ اس کتاب کو کئی مرتبہ پڑھتا تھا۔ شکایت کرنے والی خاتون کے پاس اس شخص کے بارے میں کہنے کے لیے بہت سی پیار بھری باتیں بھی تھیں جو اسے یہ تمام پڑھنے کا مواد فراہم کر رہا تھا۔ لہٰذا میں نے اندازہ لگایا کہ اگر یہ کتابیں اس شخص کے لیے اتنے معنی رکھتی ہیں تو شاید وہ دونوں امید کرتے تھے کہ یہ کتابیں اس عورت کے لیے بھی بہت قیمتی ہوں گی مگر وہ یہ کیسے جان سکتے تھے جبکہ اس عورت نے ابھی تک انہیں پڑھا ہی نہیں۔
اس شکایت کے دوران کئی مرتبہ شکایت کرنے والی خاتون نے سننے والی عورت کو یقین دلایا کہ وہ اس آدمی سے یہ کتابیں وصول کر کے بے حد شکر گزار ہے کیونکہ اسے مطالعہ سے محبت ہے اور اس نے بہت مطالعہ کیا۔ اگرچہ اس نے افسوسناک حد تک سست روی سے مطالعہ کیا، ایک معذور کی طرح اس نے اکثر اپنے آپ میں بہتری لانے کی کوشش کی گو کہ ایسا لگتا تھا کہ جب وہ بہت تیزی سے پڑھنے کی کوشش کرتی تو اس کی مطالعہ کی سمجھ بوجھ متاثر ہوتی۔ اگر ایک کتاب کے اختتام پر آپ یہ یاد نہ رکھ سکیں کہ آپ نے کیا پڑھا ہے تو مطالعہ کا کیا فائدہ؟ یہ سچ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ایک کتاب کی تفصیلات بھول جاتی ہے قطع نظر اس شرح کے جس پر وہ اسے پڑھتی ہے۔ لیکن اسے یقین تھا کہ جب اس نے اپنی قدرتی رفتار سے تجاوز کرنے کی کوشش کی تو اس کی یادداشت کے فقدان میں بہت اضافہ ہوا۔
سننے والی خاتون نے عجلت میں مداخلت کی: کیا اس آدمی نے کبھی اس سے کوئی کتابیں قبول کی ہیں؟ "اوہ، ہاں"، شکایت کرنے والی خاتون نے کہا۔ اور اس نے انہیں اتنی تیزی اور اتنی باریکی سے پڑھا کہ اس خاتون کے پاس تجویز کرنے کے لیے کتابیں ختم ہو رہی تھیں۔ درحقیقت ، اور اگرچہ وہ خوش تھی کہ وہ آدمی ان کتابوں سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو اس نے اسے دی تھیں، اسے اعتراف کرنا پڑا کہ وہ ذرا سی گھبرائی ہوئی تھی کہ وہ کس طرح ہمیشہ مصنف کے انداز یا مزاج کے بارے میں کچھ تنقید کے ساتھ اس کے پاس واپس آتا تھا۔ اس نے اس قدر عمدہ انصاف پسندی کے ساتھ تبصرے پیش کیے کہ اگرچہ شکایت کرنے والی خاتون عام طور پر اس دانشورانہ عیب کو قبول کرنا نہیں چاہتی تھی جس کا تعین اس آدمی نے کتاب میں کیا تھا، اسے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ اپنے تجزیے میں درست تھا۔
شکایت کنندہ نے کہا کہ اس کے پاس ایک مخصوص شیلف تھی جہاں وہ تمام کتابیں رکھ رہی تھی جو اس شخص نے اسے دی تھیں۔ جب اسے فرصت ملتی وہ ان میں سے ہر ایک کو بہت احتیاط سے پڑھنے کا ارادہ کرتی۔ لیکن اس کے پاس کرنے کو اس کا اپنا کام تھا اور مختلف صوابدیدی وعدوں کے ساتھ ساتھ دوسری کتابیں جو اس نے اسے نہیں دی تھیں جو وہ کسی نہ کسی وجہ سے پڑھنا چاہتی تھی۔ اکثر وہ اس کی دی ہوئی کتابوں میں سے ایک اٹھا لیتی اور اس پر پرسوچ انداز اور تھوڑے سے خوف کے ساتھ غور کرتی۔ لیکن زیادہ تر ابھی بھی اس کی شیلف پر پڑی تھیں جو ابھی پڑھی نہیں گئی تھیں۔
Original Text : He’s Very Well Read
Written by:
Catherine Lacey (born April 9, 1985) is an American writer.
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 385 : وہ کثیر المطالعہ ہے
تحریر : کیتھرین لیسی (امریکا)
مترجم: افشاں نور (اوکاڑا)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...