کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ وہ اپنی سانسوں کی آواز سے باتیں بنا سکتا تھا. باتیں جنہیں بنانے میں وہ بچپن سے ہی نا آشنا تھا. بچپن کیا، اس کا لڑکپن، جوانی اور پھر جاتی جوانی میں اس کمرے کی خاموشی تک، اس کی عمر صرف باتیں سننے میں ہی صَرف ہو گئی تھی
گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے بھی اس کی باتیں کم ہی ہوا کرتی تھیں. بڑے بہن بھائیوں کا ایک رعب تھا جو اتنا ہی فرض تھا جتنا ماں باپ کا احترام. باپ نے جو کہا حکمِ خداوندی سمجھا، باپ کی مار اور ڈانٹ کو بھی خدا کا قہر اور اپنی ہی خطا سمجھا. ماں نے کبھی غصے سے اور زیادہ تر پیار سے جو کام کہا، کر دیا. بڑے بہن بھائیوں کی باتیں بھی ناک بھوں چڑھا کے سہی، مانیں ضرور، آگے سے باتیں نہیں کیں
پہلے مسجد میں ناظرہ قرآن پڑھا، سبق یاد نہ ہوا تو مار بھی کھائی مگر آگے سے بولا بھی نہیں، کبھی گھر آ کے شکایت بھی نہیں کی. سکول میں اساتذہ مختلف جماعتوں میں جو پڑھاتے رہے، سکھاتے رہے، کچھ ذہن نشین کیا باقی کا رٹا لگا کے پرائمری سے ہائی سکول بھی پاس کر لیا. کلاس کیا ہر سکول میں، جہاں بھی وہ گیا، اپنی کم گوئی کی نشانیاں چھوڑتا آیا
وہ گونگا نہیں تھا مگر کہیں بھی بیٹھا وہ گونگا ہی لگتا تھا. اسے "چُپو" اور پھر "چُپ شاہ" کے القاب بھی ملے تھے. یہ بھی نہیں ہے وہ ایک پتھر کا کردار تھا، وہ خاموش شرارتوں کا پلندہ تھا. جب باتیں ہو رہی ہوتیں تو وہ اپنے اندر ان باتوں کے مزیدار چٹ پٹے جواب بنا رہا ہوتا تھا، وہ بولنے والوں کے لہجوں سے کردار بناتا اور پھر ان کے جواب اپنے چٹ پٹے کرداروں کے منہ سے دیتا، سب سمجھتے تھے کہ وہ ہماری باتوں کی گہرائیوں میں گم ہے جبکہ وہ اپنی ہی تخلیق کردہ ہواؤں میں پر جھٹک جھٹک کے اڑتا پھرتا
کمرے کی سفید دیواریں چپ تھیں اور اسی چپ میں اس کی سانسوں کی باتیں تھیں. سانس کھینچتے کھینچتے باتوں کا غوطہ لگا اور اس کا شدید گندمی رنگ کالا پڑنے لگا. کھانسی اتنے زور سے اور مسلسل تھی کہ اس کی ساری باتیں بکھرنے لگیں. بائیں ہاتھ پڑی مشینیں اپنی آواز میں چیخ چیخ کے باتیں کرنے لگیں. کمرے کی سفید دیواریں کالی پڑتی جا رہی تھیں. دوڑتے قدموں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں مگر سانسیں ٹکڑوں میں بٹنے لگیں، اور پھر ٹکڑوں میں بٹتی باتیں ادھوری رہ گئیں