نجانے کب سے یہ کہانی سینے میں دبائے بیٹھا ہوں ۔ کئی بار سوچا کہ جہاں اتنی بے تکی باتیں لکھتا رہتا ہوں وہیں یہ قصہ بھی سنا ہی ڈالوں۔ پھر خیال آتا ہے کہ لاکھ میری تحریر میں کچا پن اور بچپنا سہی لیکن پڑھنے والوں کی اکثریت جان چکی ہے کہ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ یعنی معمر انسان ہوں اور وہ مجھ سے سنجیدہ باتوں کی توقع کرتے ہیں جب کہ یہ واقعہ تو ان چھڑے چھانٹ لڑکوں کا ہے جو دوبئی میں کبھی اس قسم کی زندگی گذارا کرتے یا اس قسم کی حرکتیں کرتے تھے۔ اب دنیا بھی بدل گئی ہے ، ہر چیز الیکٹرونک اور ہر چیز بقول شخصے “ ہائی فائی” ہوگئی ہے۔ رہی سہی کسر اس کرونا نے پوری کردی۔ زندگی کے معنی بدل دئیے، زندہ رہنے کا انداز بدل دیا۔ انشاء اللہ جب بھی ہم اس سے باہر آئیں، یہ ایک اور ہی دنیا ہوگی۔پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
دنیا جانتی ہے کہ دوبئی اور شارجہ بے حد متحرک جگہیں ہیں۔ دوبئی میں دنیا بھر کے تماشے لگتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ موسیقی کے کانسرٹ ہوں۔ عالمی پیس کانفرنس ، یا قرآن کانفرنس ہو، حسن قرات کے بین الاقوامی مقابلے ہوں، دوبئی شاپنگ فیسٹول ہو، گلوبل ولیج ہو، عالمی مشاعرے ہوں، فلموں کے ایوارڈ شو ہوں، بین الاقوامی اقتصادی کانفرنسیں ہوں، کتاب میلے ہوں، کھانے پینے کی نمائشیں ہوں اور نجانے کیا کیا کچھ یہاں ہوتا رہتا ہے۔
لیکن جب میں یہاں آیا تو شارجہ کو دوبئی سے زیادہ متحرک اور مشہور دو چیزوں کی وجہ سے پایا۔ ایک تو یہاں کا ایکسپو ، جو اسی کی دہائی میں دوبئی والوں کے لیے بھی بڑا پرکشش ہوتا تھا، اس وقت دوبئی میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اور دوسرا شارجہ کے کرکٹ میچ۔۔ کرکٹ نے شارجہ کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ اب تو خیر دوبئی اور ابوظہبی میں بھی زوردار کرکٹ ہوتی ہے۔
مجھے بچپن سے کھیلوں کا شوق رہا ہے اور اکثر کھیل کھیلے بھی۔ بحرین میں پاکستان کلب کے لیے ہاکی کھیلتا رہا، سعودیہ میں کرکٹ خوب کھیلی۔ کرکٹ امپائرنگ بھی کی۔ داہران کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میں میرے ساتھ کے ایک امپائر اقبال صاحب، غالبا ہاکی کے کپتان اصلاح الدین کے بھائی تھے اور فیصل اقبال کے والد۔ فیصل اقبال جو جاوید میانداد کے بھانجےتھے۔
دوبئی آیا تو یہاں بھی کرکٹ کھیلنے ملی۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ یہاں یعنی کرکٹ اور ہاکی دیکھنے ملی۔ دوبئی میں اسی کی دہائی میں ہاکی کے بھی بہترین مقابلے ہوئے۔ دراصل ان دنوں یہاں پی آئی اے کے مینیجر اولمپئین سلیم شیروانی تھے اور وہ ہاکی والوں کو متحرک کرتے رہتے تھے۔ دوسرے طرف کرکٹ تھی۔ میں نے کراچی میں شاید اتنی کرکٹ نہیں دیکھی جتنی شارجہ میں دیکھی۔ کرکٹ اور ہاکی میچ دیکھنے کے لئے ہم کیا کیا جتن کرتے تھے اگر وہ واقعات لکھنے بیٹھوں تو ایک طویل مضمون بن سکتا ہے۔ میدان کے اندر اور باہر کے ایسے ایسے مزے کے قصے ہیں کہ آپ سنتے رہ جائیں لیکن پھر وہی شرم آتی ہے کہ یہ پینسٹھ سالہ بابا کیا لڑکوں والی باتیں کررہا ہے۔
آج تمہید بہت طویل ہوگئی۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ بظاہر تو لڑکوں کی ایک حرکت تھی، لیکن اس سے میرے ذہن میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے تعلقات کے حوالے سے بہت سی باتیں کلبلانے لگتی ہیں۔ میرا اس پر ایک خاص نقطہ نظر ہے۔ ہندوستان کے حوالے سے میں نے کئی تحاریر میں بہت کچھ کہا ہے۔
میں پاکستانیوں کی اس نسل کے ساتھ پیدا ہوا ہوں جو ہندوستان دشمنی کے ساتھ پلی بڑھی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہندوستانی بھائی بھی پاکستان دشمنی کو اپنے ہندوستانی ہونے کی پہلی شرط سمجھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ دونوں جانب ایک دوسرے کے لئے تحیر اور تجسس ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں لیکن بہت سارا جاننا بھی چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ میں شعر وادب کی بات کروں اور دلی، لکھنؤ، حیدرآباد، بمبئی، بہار، بھوپال، امروہہ اور مراد آباد وغیرہ کا ذکر اس طرح نہ کروں جیسے اپنے لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کا کرتا ہوں۔ نہ ہی یہ ممکن ہے کہ فلموں کی بات ہو اور دلیپ کمار، راج کپور، نرگس، مینا کماری، محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت محمود، شمشاد، مکیش اور کشور کی باتیں ہم اتنی ہی اتھارٹی سے کریں جتنا کوئی ہندوستانی کرسکتا ہے۔ نہ یہ ہندوستانیوں کے لیے ممکن ہے کہ غزل کی بات کریں اور مہدی حسن، غلام علی، فریدہ خانم اور اقبال بانو کے بغیر بات مکمل کرسکیں۔ بھارتی جتنے سچن ٹنڈولکر، سنیل گواسکر، کپل دیو اور ویرات کوہلی کے عاشق ہیں اتنے ہی عمران خان، جاوید میانداد، ظہیر عباس، وسیم اکرم اور عبدالقادر کے بھی دیوانے اور ان کی صلاحیتوں اور عظمت کے معترف ہیں۔
بات ذرا لمبی ہورہی ہے لیکن تھوڑا برداشت کرلیں۔ میں اس ذہنی کیفیت کی بات کررہا ہوں جس میں خصوصا خلیجی ممالک اور برطانیہ وغیرہ میں رہنے والے پاکستانی اور ہندوستانی رہتے ہیں یعنی بیک وقت شدید نفرت بھی لیکن ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ ہندوستانی پیاز کے بغیر ہم پاکستانیوں کا سالن نہیں بنتا تو ہمارے چونسا آم کے منتظر ہندوستانی بھی ہماری ہی طرح رہتے ہیں ( یہ اور بات ہے کہ اس بات کا اقرار نہیں کرتے)۔
لیکن جب بات شارجہ کے کرکٹ میچ کی آتی ہے تو یہاں کے رہنے والے ہندوستانی اور پاکستانی بالکل ایک الگ ہی چیز بن جاتے تھے۔ جب تک ٹورنامنٹ چلتا رہتا ہے ایک تناؤ کی کیفیت ہوتی ہے۔ بس نہیں چلتا کہ ایک دوسرے کو پھاڑ کھائیں ۔ سب سے بڑی مشکل دفتروں میں ہوتی ہے۔ میرے لیے تو یہ بہت ہی بڑی آزمائش ہوتی تھی کہ میرے دفتر میں میرے علاوہ سارے ہندوستانی تھے، یا پھر گورے اور عرب وغیرہ۔ اگر پاکستان جیت جائے تو دفتر میں یوں خاموشی ہوتی جیسے کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں لیکن اگر پاکستان ہار جائے اور وہ بھی ہندوستان سے ہار جائے تو پھر طعن وتشنیع کا وہ طوفان کھڑا ہوتا تھا کہ دن گذارنا مشکل ہوجاتا۔ البتہ میرے دو پٹھان بھائی جو ہمارے وئیر ہاؤس میں کام کرتے تھے وہ اگر ان دنوں دفتر آتے تو پھر ہمارے ہندوستانی دوستوں کی زبانوں کو تالے لگ جاتے کہ ہمارا پختون بھائی بھارتیوں کی محرمات کے بارے میں کچھ اس قسم کے مجرمانہ عزائم کا اعلان کرتا کہ بھارتی دوست کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے۔
یہی کیفیت اسٹیڈیم میں ہوتی تھی۔ پاکستانیوں کی اکثریت ان پٹھان ٹیکسی ڈرائیور وں کی ہوتی جو اس دن اپنا دھندہ بند کرکے اور بلیک میں ٹکٹ خرید کر میچ دیکھنے آتے۔ اگر پاکستان جیت جاتا تو خوش باش ، ناچتے گاتے، ڈھول بجاتے اسٹیڈیم سے رخصت ہوتے۔ کسی ہندوستانی کو کچھ نہیں کہتے۔ لیکن جس دن پاکستان ہندوستان سے ہار جائے تو خان صاحب کے کھوپڑی گھوم جاتی۔ ایک تو اس دن کی دیہاڑی کا نقصان، پھر مہنگے ٹکٹ پر ضائع کی ہوئی رقم کا غم، لیکن پٹھان ان چھوٹی باتوں کی پروا نہیں کرتے۔ البتہ ہندوستان سے شکست ایسی چھوٹی بات نہیں ہوتی کہ خان کو آسانی سے ہضم ہو۔ ایسے میں کوئی سندھی، گجراتی یا ملباری انڈین کچھ کہہ دے، کوئی فقرہ کسے ، یا مذاق اڑائے تو پھر وہ اپنی زندگی کی خیر منائے۔ میچ کے دوران اسٹیڈیم سے باہر پولیس کی وہ بس کھڑی ہوتی تھی جس میں قیدیوں کو لے جاتے ہیں، یہ اکثر ہمارے پاکستانی ، اور زیادہ تر پختون بھائیوں سے بھری ہوتی جو اطمینان سے اندر بیٹھا سگریٹ پھونک رہا ہوگا اس طمانیت کے ساتھ کہ کسی انڈین کو خاطر خواہ سبق سکھانے کی قومی ذمہ داری پوری کرنے کے صلے میں یہ قید کچھ بھی نہیں۔
تو یہ وہ جذبات اور احساسات تھے جن کے زیر اثر ہم پاکستانی اور ہندوستانی کرکٹ میچوں کے دنوں میں رہتے۔ لیکن یہ سب کچھ شروع سے ایسا نہیں تھا۔ اور یہی وہ اصل قصہ ہے جو میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔
ہوا یوں کہ میں سن تراسی میں دوبئی آیا اور سن چوراسی کے شروع کے مہینوں میں پہلی بار شارجہ میں کرکٹ میچوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہ ایشیا کپ کا ٹورنامنٹ تھا جس میں پاکستان، بھارت اور سری لنکا نے شرکت کی۔ ہندوستان اس وقت نیا نیا عالمی چیمپئین بنا تھا۔ اس نے بجا طور پر یہ ٹورنامنٹ جیت لیا۔ پاکستان اپنے دونوں میچ ہار گیا۔ پاکستانی شائقین مایوس تو ہوئے لیکن اسے بہت زیادہ دل پر نہ لیا کہ ان دنوں ہم اپنی ٹیم سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کے عادی نہیں ہوئے تھے۔ ہندوستانی ، پاکستانی تماشائیوں نے بھی شرافت سے میچ دیکھے جیسے کرکٹ کے میچ انگلینڈ آسٹریلیا والے دیکھتے ہیں یعنی اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ۔ اچھے کھیل پر تالیاں بجائی گئیں ، خواہ مخواہ کی قومی اور مذہبی قسم کی نعرہ بازی وغیرہ نہیں کی گئی۔
خیر جی یہ ٹورنامنٹ آیا گیا ہوگیا۔ اب آیا اگلے سال کا چار قومی ٹورنامنٹ، جس میں پاک بھارت کے علاوہ انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی تھے۔
تو جناب اگلے سال کرکٹ کا میلہ پھر سجا۔ پچھلے سال ظہیر عباس کپتان تھے۔ نہ تو ٹیم میں دم تھا نہ ظہیر کی کپتانی نے کوئی معجزہ دکھایا۔ اس بار جاوید میانداد کپتان تھے لیکن سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ عمران خان پاکستانی ٹیم میں تھے جو پچھلے سال کسی وجہ سے ٹیم میں نہیں تھے۔ ہندوستان کی جانب سے ایک ایسا کھلاڑی بھی کھیل رہا تھا جس نے آتے ہی دنیا میں دھوم مچادی تھی۔ جی ہاں یہ محمد اظہرالدین تھا جس نے اپنے پہلے ہی تینوں ٹسٹ میچوں میں سنچری بنا کر دنیا کو حیران کردیا تھا۔ میں نے عمران خان کو اس سے پہلے کبھی میدان میں کھیلتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ پہلی بار تھا اور کیا بتاؤں کہ کیا دیکھا۔
اگر کسی نے عمران خان کی شارجہ کے اس میچ کی گیند بازی نہیں دیکھی تو اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ عمران کو اس گیند بازی کے عوض سات خون معاف کیے جاسکتے ہیں.ہائے کیسا جوان رعنا، کتنا عظیم کھلاڑی سیاست کو پیارا ہوگیا۔ میں نے کرکٹ کے بہت سے یاد گار میچ دیکھے۔ بہت سی بہترین گیند بازی دیکھی ہے۔ آسٹریلیا کے ڈینس للی، میکس واکر، جیف تھامپسن کی تباہ کن باؤلنگ دیکھی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی کالی آندھی کے میلکم مارشل، مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر اور کرٹلی امبروز کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں۔ لیکن عمران کی بھارت کے خلاف پہلے میچ کی باؤلنگ آج بھی آنکھوں میں ایک حسین خواب کی طرح لہراتی ہے۔
میں اتفاق سے میدان کی دوسری جانب وکٹ کیپر کے عین پیچھے بیٹھا تھا۔ اور پوری توقع تھی کہ عمران کوئی خاص چیز کرکے دکھائے گا اور میری نظریں کیمرے کی طرح وکٹ کو فوکس کئے ہوئے تھیں۔ اور پھر یہی ہوا۔پہلے اوور کی پہلی ہی گیند پر روی شاستری کو خان نے باہر کا رستہ دکھایا۔ یہ میں نے عمران خان کو پہلی بار گیند کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اگلے اوور میں سری کانت اس کے اگلے اوورز میں یکے بعد دیگرے سنیل گواسکر، دلیپ وینگ سارکر، مہندر امرناتھ کو گھر کا رستہ دکھایا۔ پہلے پانچ اوور میں ہر اوور میں وکٹ لی۔ خان کی طوفانی باؤلنگ کے آگے سوائے محمد اظہرالدین کے کوئی بھی نہ ٹک سکا اس کے علاوہ کپل دیو نے کچھ مزاحمت کی۔ عمران نے واپس آکر مدن لال کی وکٹ بھی جھاڑ لی اور کل ملا کر چودہ رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں۔ ہندوستان کی پوری ٹیم سوا سو رنز میں ڈھیر ہوگئی۔
ہم اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر اڑتا محسوس کررہے تھے۔ محسن اور مدثر جو عموماً اپنی سست رفتاری کی وجہ سے جانے جاتے تھے، انہوں نے طوفانی انداز میں آغاز کیا۔ لگتا تھا کہ پندرہ بیس اوورز میں میچ ختم ہوجائے گا۔ لیکن ان کی جوڑی یکے بعد دیگرے کیا ٹوٹی کہ میانداد، اشرف علی اور عمران خان ایک قطار میں صفر پر آؤٹ ہوتے چلے گئے۔ شیوا راما کرشنن، روی شاستری اور کپل دیو نے پاکستانی کھلاڑیوں کا سانس لینا دوبھر کردیا تھا۔ پاکستانی تماشائی سناٹے کے عالم میں تھے تو ہندوستانی تماشائی کا شور آسمان تک پہنچ رہا تھا۔ پوری پاکستانی ٹیم ستاسی رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ پاکستانیوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔
پاکستانی عجیب سوگ کی کیفیت میں تھے۔ شارجہ کی کرکٹ ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔ اگلے تین چار دن ان کے لئے قیامت تھے۔ کوئی کسی سے بات نہیں کرتا۔ انڈیا نے آسٹریلیا کو بھی ہرایا اور آسٹریلیا نے انگلینڈ کو اور دونوں فائنل میں پہنچ گئے۔ تیسری پوزیشن کے لیے انگلینڈ پاکستان کا مقابلہ ہوا جسے پاکستان نے باآسانی جیت لیا۔ لیکن یہاں وہ کچھ ہوا جس کی وجہ سے میں نے یہ رام کہانی چھیڑ رکھی ہے۔
میں نے پچھلے سال کے میچوں کے بارے میں کہا تھا کہ تماشائیوں نے “شرافت” سے یعنی کھیل کی اسپرٹ کے مطابق یہ کھیل دیکھے۔ لیکن پاکستان اور انگلینڈ کے میچ میں بھارتی تماشائیوں نے وہ کچھ کیا جس سے ان کا بھارتی ہونا ثابت ہوگیا۔ یعنی جو کچھ ان سے توقع تھی انہوں نے پوری کردکھائی اور یہ بات سمجھ آگئی کہ ہمارے دلوں میں جو کدورت ایک دوسرے کے لیے تھی اس کی وجہ کیا تھی۔ بہت سی پرانی باتیں یاد آئیں جو بزرگوں سے سنتے آئے تھے۔
دل گرفتہ پاکستانی بہت کم تھے جو میچ دیکھنے گئے تھے۔ ہندوستانی تماشائی کافی تعداد میں اس امید پر آئے تھے کہ آج پھر پاکستان کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوگا۔ ہندوستانی اور پاکستانی عرب امارات میں ساتھ رہتے آئے تھے۔ ایک طرح سے پاکستان اور بھارت یہاں کی مقامی ٹیمیں تھیں اور آسٹریلیا اور انگلینڈ باہر والے۔۔۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اچھے کھیل کی داد دی جاتی لیکن ہمارے ہندوستانی بھائیوں نے کھل کر انگلینڈ کی حمایت کی اور پاکستانیوں پر فقرے کستے رہے۔ پاکستان نے بڑے مارجن سے یہ میچ جیتا لیکن گنے چنے پاکستانی تماشائی ایک کڑواہٹ لئے گھروں کو واپس آئے۔ دوبئی میں اب تک اس طرح کھل کر نفرت کا اظہار انہوں نے نہیں دیکھا تھا۔ یہ پہل ہمارے بھارتی دوستوں نے کی۔ جس کے بعد وہی کچھ ہوتا رہا جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔
نایف روڈ پر سبخہ بس اسٹینڈ سے آئیں تو ایک ٹی جنکشن آتا ہے۔ بائیں جانب یہ سونا بازار کے طرف مڑجاتا ہے اور دائیں جانب نائف پولیس اسٹیشن کی طرف۔ اس دائیں جانب ایک دو گھر چھوڑ کر میرے دوست نواب کا گھر تھا جس کے نیچے میرے ان دوستوں کے گھر تھے جن کا ذکر میں “ منو بھائی “ کے قصے میں کرچکا ہوں۔ یہاں ایک دکان کے تھڑے پر ہم دوستوں کی چوپال جمتی تھی۔ اکثر دوست کام پر آتے جاتے یہیں سے گذرتے تھے۔ اس چوپال میں شام چھ بجے کے بعد دوچار دوست ہمیشہ موجود رہتے۔ قریب سے گذرتے ہوئے کچھ دوست رک جاتے، سلام دعا ہوتی، چائے سگریٹ کا دور رات گئے تک چلتا رہتا۔
ایک دو دوست جو میچ دیکھ کر آئے تھے بڑے دل گرفتہ سے اور سڑے ہوئے موڈ میں بیٹھے تھے۔ چار دن پہلے کی ہار کی کوفت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ آج انڈین دوستوں کی حرکت نے موڈ مزید بگاڑ دیا تھا۔ جوں جوں وہ دوسرے لڑکوں کو یہ سب کچھ بتاتے توں توں سب کا غصہ بڑھتا جاتا۔
“ ایسی کی تیسی” ایک گرم خون والا دوست اٹھ کھڑا ہوا۔ “ اس کا بدلہ لینا ہوگا” ۔
انتقام کے شعلے بلند ہوتے چلے گئے اور سب نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ ہندوستانیوں کی اس حرکت کا جواب دینا ضروری ہے ۔ اب جواب کیسے دیا جائے ؟
“ ہم آسٹریلیا کو سپورٹ کرینگے” فیصلہ ہوگیا۔ اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ باقاعدہ آسٹریلیا کے جھنڈے اور بینر لے کر جائیں گے۔ اب آسٹریلیا کا پرچم کیسا ہوتا ہے اور دوبئی میں کہاں ملے گا ؟ قریب ہی ایک اسٹیشنری شاپ تھی۔ وہاں سے ایک اٹلس اٹھا لائے۔
“ دس درہم کا ہے” ملباری سیلزمین چلایا۔
“ ابے ابھی واپس کرتے ہیں۔ چپکا بیٹھا رہے” یہ ہمارے دوست “ بابا، تھے۔
ایک لڑکے کو منوبھائی کی دکان پر دوڑا یا۔ منو بھائی آئے تو انہیں آسٹریلیا کا جھنڈا دکھایا۔
“” آسٹریلین کو Aussies اور kangaroos بھی کہتے ہیں۔” اس فدوی نے بتایا۔
اب ہر کسی نے مشورے دینا شروع کیے۔ طے پایا کہ ایک بیس فٹ کا بینر بنایا جائے جس کے ایک طرف آسٹریلوی پرچم اور دوسرے سرے پر کینگرو کی تصویر ہو۔ درمیان میں بڑے حروف میں انگریزی میں آسٹریلیا لکھا جائے۔ دوسرا پندرہ فٹ کا بینر جس پر آسٹریلیا کا پرچم بنا ہو۔
“ ابے یہ کینگرو کیسا ہوتا ہے” منو بھائی نے پوچھا۔
، جا بے اسی دکان سے بچوں کی جانوروں کی فوٹو والی کتابیں دیکھ ، بابا نے ایک لونڈے کو ملباری اسٹیشنری والے کی دکان پر دوڑایا۔
پرچم بنانے کے لئے کپڑا کہاں سے آئے، چلو بے پیسے نکالو۔۔۔
کسی نے دس، کسی نے بیس، کسی نے پانچ تو کسی نے پچاس درہم نکال دیے۔ یاد رہے کہ ان میں زیادہ تر بےروزگار تھے اور اکثر تو غیر قانونی طور پر رہ رہے تھے۔ آتے جاتے پاکستانی دوستوں کو صورتحال اور ارادوں سے آگاہ کیا جاتا۔ زیادہ تر دوست پنجابی تھے۔ پہلے تین چار نہایت کثیف جملے بھارتیوں کی شان میں ادا ہوتے، پھر ہاتھ جیب میں جاتا اور حسب توفیق رقم نکال کر اس قومی دفاعی فنڈ میں ڈال دئے جاتے۔ اور آپ جانتے ہیں جب کوئی قومی معاملہ ہو تو پاکستانی قوم کا جذبہ کیسا ہوتا ہے۔ اس وقت سارے اسی جذبے سے سرشار تھے جیسے گویا سرحد پر لڑائی لگی ہوئی ہے۔
با لا، نواب، راجا، رنگا، بابا، قمر اور دوستوں کی فوج ظفر موج اس کام میں جت گئی۔ منوبھائی کی دکان کے ساتھ ایک بہت بڑا احاطہ تھا۔ جمع شدہ رقم سے دوتھان لٹّھے کے اور بہت سارے رنگ لائے گئے۔ رنگ منو بھائی کے کھاتے میں آئے تھے کہ پینٹر تھے اور رنگ والوں سے ان کی اچھی یاد اللہ تھی۔ منو بھائی نے تھان زمین پر پھیلا کر مختلف آؤٹ لائنیں ڈرا کیں ۔ اپنی دکان کے لڑکوں کو مختلف رنگ دے کر مختلف بینر پر لگا دیا۔ پھر چھوٹے چھوٹے بہت سے پرچم اور بینر بنائے۔ جس میں یہ فدوی ان کا مشیر تھا۔
“ Buck up Aussies”
“کرش انڈیا”
“ Jeevay Jeevay Australia Jeevay..
Long Live Australia
اس قسم کے نعرے مختلف بینر اور پلے کارڈ پر لکھے گئے۔ کچھ لڑکے برش ہاتھ میں لیے منو بھائی کے دئیے ہوئے “ کٹ آؤٹس” پر رنگ پھیرتے۔ باقی انہیں احتیاط سے یہاں سے وہاں پھیلی ہوئی الگنی پر پھیلاتے جاتے۔ زبردست قومی جذبے سے کام ہورہا تھا. شام سے کام ہورہا تھااور رات بھر کام جاری تھا، نہ کھانے کا ہوش نہ گھر جانے کی فکر۔ میں اس لیے اور بے فکر تھا کہ اپنی نئی نئی دلہن کو نواب کی بیگم کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ نواب کے ہاں سے ہی ہم سب کے لیے کھانا بھی آیا، چائے اور سگریٹ تو ان دنوں ہمارے “ ا ٹوٹ انگ” تھے۔ آدھی رات سے زیادہ دیر تک کام چلتا رہا۔
اب ان جھنڈوں اور بینروں کو لہرایا کس طرح جائے ؟ یہ سننا تھا کہ قمر ایک طرف نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک لڑکے کے ساتھ ایک بڑے سے کارٹن کے ساتھ نمودار ہوا جس میں بہت سی گز بھر کی وہ ڈنڈیاں تھیں جن پر تھان لپیٹے جاتے ہیں۔ وہ اسے ایک انڈین کی دکان سے اٹھا لائے تھے، اس وعدے پر کہ کچھ کام ہے، کام ہوتے ہی واپس کردیں گے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ سارا کاٹھ کباڑ لے کر اسٹیڈیم میں کیسے جایا جائے، اکثر دوستوں کے پاس تو ٹکٹ بھی نہیں تھے نہ ہی وہ ٹکٹ خریدنے کی طاقت اور نیت رکھتے تھے۔ طے ہوا کہ زیادہ تر لڑکے نواب کے ہاں رک جائیں گے اور صبح منہ اندھیرے سب ایک ٹرک میں معہ سازوسامان اسٹیڈیم جائیں گے۔ اگر گیٹ کھلا نہ ملے تو دیوار پھاند کر اندر جائیں گے۔ اس وقت یعنی ساڑھے پانچ چھ بجے کونسے سیکیورٹی والے وہاں ہونگے۔
اور یہی ہوا۔ اسٹیڈیم میں کوئی نہیں تھا۔ بند گیٹ پر چڑھ کر ہم سب اندر داخل ہوئے اور اپنے “ پاکستانی انکلوژر ، کی دیواروں پر بینر یہاں سے وہاں باندھ دئیے۔ لڑکوں کو مختلف جھنڈے، بینر اور پلے کارڈ دے کر یہاں وہاں پھیلا دیا۔ دن چڑھے یعنی ساڑھے سات آٹھ بجے کے قریب جب تماشائی آنا شروع ہوئے تو دوبئی، العین، راس الخیمہ وغیرہ سے آئے ہوئے پاکستانی بھائیوں نے اپنے دوسرے بھائیوں کو دیکھا تو وہ بھی یہیں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ پاکستانی پرچم سے بڑی نشانی شلوار قمیض تھی جسے دیکھ کر سب ایک پرچم کے سائے تلے ایک ہوتے گئے، اسٹیڈیم کے ایک بہت بڑے حصے پر ہمارا اور ہمارے پرچموں کا قبضہ تھا۔
اور جب آسٹریلیئن ٹیم، آسٹریلئین ٹی وی کی ٹیم اور میڈیا کے لوگ اسٹیڈیم پہنچے تو آنکھیں مل مل کر شلوار قمیض میں ملبوس ان آسٹریلئن کو دیکھتے رہے۔ پہلے دور سے، پھر آہستہ آہستہ قریب آتے گئے۔ ایلن بارڈر، کم ہیوز، گریگ میتھوز، ڈین جونز اور پوری آسٹریلین ٹیم میدان عبور کرکے ہماری جانب آئی۔ہمارے نعروں کے جواب “ فلائنگ کس” سے دیتے رہے۔ آسٹریلئین ٹی وی میچ شروع ہونے تک ہماری ہی فلم بناتا رہا۔
انڈین تماشائی جیسے جیسے اسٹیڈیم پہنچتے رہے ، آسٹریلیا کی یہ حمایت دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔ بھارتی بھی حیران پریشان ان شلوار قمیض والے کینگرو ز کو دیکھ رہے تھے۔ جو کوئی بھارتی اسٹیڈیم کے اس حصے کی جانب آتا جہاں ہم تھے تو خاموشی سے دائیں بائیں ہوجاتا۔ شارجہ میں نعرے لگانے میں پاکستانیوں کا پلہ ہمیشہ بھاری رہتا۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستانی سارے اردو جانتے تھے اور ایک دوسرے کے مذاق اور نعروں سے واقف تھے۔ پھر کچھ قدرتی حسِ مزاح بھی ہندوستانیوں سے بہتر تھی۔ ہندوستانیوں میں اکثریت کیرالہ، تامل ناڈ، کرناٹکا کے لوگوں کی تھی جو اردو، ہندی بہت کم جانتے تھے یا پھر مہنگے انکلوژر میں بیٹھے سندھی اور گجراتی بیوپاری۔
میچ چل رہا تھا اور ہمارے قبضہ شدہ اسٹیڈیم سے شگوفے کھل رہے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک جگت بازی ہورہی تھی۔ نت نئے نعرے ایجاد ہورہے تھے۔ آسٹریلیا سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں رہا لیکن اس دن ہم سب آسٹریلیا پر واری واری جارہے تھے۔ ایک دو پرجوش لڑکوں نے “ نعرہ تکبیر” اور “ نعرہ حیدری” بھی بلند کیا لیکن آسٹریلینز کا جذبہ ایمانی زیادہ بلند نہ ہوسکا۔ ویسے بھی گریگ چیپل، للی، تھامپسن اور مارش کے جانے کے بعد یہ ایک کمزور سی ٹیم تھی۔ ایلن بارڈر، کم ہیوز، جیف لاسن وغیرہ اپنے کیرئیر کی ابتداءً میں تھے ( بابا کا کہنا تھا کہ یہ سب الّن بہادر، کریم حفیظ اور ضعیف الحسن وغیرہ تھے جو آسٹریلیا ہجرت کرکے ایلن بارڈر، کم ہیوز اور جیف لاسن بن گئے تھے)۔
ہمارے نعروں کے جواب میں دوسری جانب سے نعرہ بلند ہوا “ گنپتی باپا” اور جواب میں آوازیں بلند ہوئیں “ موریا”۔ کچھ دیر بعد اسٹیڈیم “ گنپتی باپا موریا” کے نعروں سے گونجنے لگا۔ پاکستانی بھائیوں کی سمجھ ہی نہیں آیا ( میں اس نعرے سے واقف تھا۔ یہ مراٹھی میں تھا اور ہماری زبان مراٹھی سے ملتی جلتی ہے)۔ کچھ دیر ہماری طرف سے خاموشی رہی۔ پھر جب وہاں سے آواز ابھری “ گنپتی بابا” ہمارے ہاں سے “ موریا” کا ہم قافیہ وۂم وزن مگر ناقابل اشاعت لفظ گونجا۔ ساتھ ہی زور دار قہقہے بلند ہوئے۔ ہندو دوستوں کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی، اور جب سمجھ آئی تو ایسی آئی کہ اس کے بعد یہ نعرہ شارجہ اسٹیڈیم میں کبھی نہیں گونجا۔
آسٹریلیا ایک کمزور تھی لیکن ہم نے ممولے کو شہباز سے خوب لڑایا۔ مقابلہ سخت ہوا لیکن آسٹریلیا ہار گیا ۔ بھارتیوں کی انگلینڈ کی حمایت ان کے کام نہ آئی تھی، ہماری آسٹریلیا کی حمایت کچھ کام نہ آئی لیکن ہمیں کوئی غم نہیں تھا۔ ہم نے “ دشمن” کو جواب دے دیا تھا کہ
“ رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔
آسٹریلین جی جان سے لڑے لیکن ہار گیے۔ ہم اپنے گھروں کو لوٹے۔ سارے جھنڈے، بینر، پوسٹر، پلے کارڈ وہیں چھوڑ آئے۔ اب اس بارِ رسوائی کو کون لئے لئے پھرے۔ جس انڈین کی دکان سے تھان کے بانس لائے تھے اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہاں ہیں۔
“ اسٹیڈیم میں پڑی ہیں ، جا وہاں سے اٹھا لا”۔ جواب ملا۔
ا اچھی خاصی رقم اس کار لاحاصل کے لئے خرچ کی، وقت اور محنت الگ۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔۔لیکن ہمارے ایک لائلپوری دوست نے سیر حاصل جملہ کہا
“ رُل تے گئے، پر چس بڑی آئی”
اسی سال کے آخر میں ایک اور ٹورنامنٹ پاکستان، بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہوا۔ پاکستان فائنل میں ویسٹ انڈیز سے ہار گیا۔ اگلے سال آسٹریلیشیا کپ ہوا اور فائنل میں جاوید میانداد نے وہ چھکا مارا جو تاریخ میں امر ہوگیا۔
اس کے بعد پھر کبھی انڈیا کو شارجہ میں پاکستان سے جیتنا نصیب نہ ہوا۔
رہے نام اللہ کا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...