کینسر کیا ہے اور اس کی کون کون سی اقسام ہیں؟
سیل یعنی حیاتیاتی خلیہ کسی بھی جاندار کی بنیادی اکائی ہوتا ہے۔ یہ سیلز تقسیم ہوتے ہیں اور نئے سیلز بناتے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ پُرانے سیلز ختم ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی وجہ سے یہ پُرانے سیلز ختم ہونے کی بجائے تقسیم در تقسیم ہوتے جاتے ہیں اور ایک گلٹی یا ٹیومر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ ٹیومر وقت کے ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں لیکن جسم میں جگہ جگہ پھیلتے نہیں بلکہ ایک ہی جگہ رہتے یہں۔ لیکن بعض اوقات کسی ٹیومر سے خلیے الگ ہو کر جسم میں جگہ جگہ پہنچ جاتے ہیں اور اپنی کاپیاں بنانے لگتے ہیں- یوں آہستہ آہستہ پورے جسم میں ٹیومرز بننا شروع ہو جاتے ہیں جسے ملیگنینٹ (Malignant) ٹیومر یا کینسر کہتے ہیں۔ کینسر سیلز کا یوں غیر معمولی طور پر تقسیم ہونا دماغ، گلے، چھاتی، خون، ہڈیوں، اور پھپھڑوں سمیت جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے۔
کینسر کی وجوہات کیا ہیں؟
سیل کے ڈی این اے میں موجود مختلف جینز سیل کو مختلف کام کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہیں جن میں سیل کو بڑھنے اور تقسیم ہونے کی ہدایات بھی شامل ہیں۔ لیکن ڈی این اے میں تبدیلی یا جینز میں میوٹیشن کی وجہ سے بعض اوقات سیلز تیزی سے تقسیم ہونے لگتے ہیں اور ٹیومر کی شکل اختیار لیتے ہیں۔ جین میں یہ میوٹیشن وراثتی یعنی والدین سے مل سکتی ہیں یا ماحول کی وجہ سے ہو سکتی ہیں- مثال کے طور پر تمباکو کے استعمال سے ان میوٹیشنز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس لیے تمباکو کو کیسنر کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ مناسب خوارک نہیں لیتے تو بھی آپ میں کینسر ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ کینسر کی دوسری بڑی وجوہات میں ریڈی ایشنز اور ورزش نہ کرنا شامل ہے۔
کینسر کی علامات کیا ہیں اور اس کی تشخیص کیسے کی جائے؟
کینسر کی صورت میں جسم پر کسی بھی مقام پر گلٹی نمودار ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کینسر کی علامات میں وزن کا مسلسل کم ہونا، بھوک نا لگنا، خون کی قے آنا بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر اِن علامات کو دیکھتے ہوئے سی ٹی سکین (CT Scan)، ایم آر آئی (MRI : Magnetic Resonance Imaging) یا بائیوپیسی (Biopsy) کروانے کا مشورہ دیتا ہے۔ سی ٹی سکین میں ایکس ریز کی مدد سے جسم کے مختلف اندرونی حصوں کی امیجز حاصل کی جاتی ہیں جبکہ ایم آر آئی میں ریڈیو ویوز کو استعمال کر کے امیجز بنائی جاتی ہیں۔ ایم آر آئی کے مقابلے میں سی ٹی سکین نسبتاً سستا اور جلد امیجز بنانے والا طریقہ ہے۔ لیکن ایم آر آئی سے بنائی گئی امیجز میں زیادہ تفصیل سکتی ہے۔ بائیوپیسی کینسر کی تشخیص کا ایسا طریقہ ہے جس میں سرجری کے ذریعے جسم سے کچھ سیلز نکالے جاتے ہیں اور مائیکروسکوپ کے ذریعے ان کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی نسبت زیادہ تکلیف دہ طریقہ ہے۔
ریڈی ایشن تھراپی (Radiation Therapy) سے کینسر کا علاج
ریڈی ایشنز یعنی طاقتور شعاعوں کے استعمال سے خلیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے- لیکن اس طریقے سے کیسنر سیلز کے ساتھ ساتھ نارمل سیلز کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نارمل سیلز کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر سیلز کو ریڈی ایشنز دینا ایک ایسا فن ہے جسے سیکھنے کے لیے برسوں کی ٹریننگ اور مشق درکار ہوتی ہے۔ اس لیے اِس فن کے مختلف ماہرین کو ملا کر ایک ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔ جن میں Radiation Oncologist، Radiation Physicist، Dosimetrist اور Radiation Therapist شامل ہوتے ہیں۔
اگر کینسر ابتدائی مرحلے میں ہو تو کینسر کے علاج کے لیے ریڈی ایشنز کا استعمال ریڈیکل ریڈیو تھراپی (Radical Radiotherapy) کہلاتا ہے۔ جب کینسر تقریباً آخری مرحلے پر ہو اور تشخیص میں دیر ہو جائے تو مریض کی تکلیف کو کم کرنے اور اُسے مزید کچھ دن زندہ رکھنے کے لیے پیلیٹو ریڈیو تھراپی (Palliative Radiotherapy) کی جاتی ہے۔ ملیگنینٹ ٹیومر پر یا تو ریڈی ایشنز ایک مخصوص فاصلے سے ڈالی جاتی ہیں جسے ایکسٹرنل بیم ریڈیو تھراپی (External Beam Radiotherapy) کہتے ہیں یا ریڈی ایشن سورس کو ٹیومر کے اندر رکھا جاتا ہے جو ڈیکے کے ذریعے ریڈی ایشنز خارج کر کے کینسر سیلز کو ختم کرتا ہے۔ جسے بریکی تھراپی (Brachytherapy) کہتے ہیں۔
ایکسٹرنل بیم ریڈیو تھراپی (External Beam Radiotherapy)
ایکسٹرنل بیم ریڈیو تھراپی کے لیے لینیر ایکسرلیٹر (Linear Accelerators) اور مختلف آئسوٹوپس استعمال ہوتے ہیں جن میں کوبالٹ-60 (Cobalt-60) اور سیزیم-137 (Cesium-137) شامل ہیں۔ جب کوبالٹ-59 (Cobalt-59) یا نکل-60 (Nickel-60) پر نیوٹرون کی بوچھاڑ کروائی جاتی ہے تو نتیجے میں کوبالٹ-60 بنتا ہے اور گیما ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہیں۔ کوبالٹ-60 سے پیدا ہونے والی گیما ریز کی انرجی سیزیم-137 کی گیما ریز سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر کوبالٹ-60 کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لینیر ایکسرلیٹر میں ایٹمز پر ہائی انرجی الیکٹرومگنیٹک ویوز ڈالنے سے ایٹم سے الیکٹرونز کا اخراج ہوتا ہے جو کینسر کے علاج کے لیے ریڈی ایشنز کے طور استعمال ہوتے ہیں۔
کوبالٹ-60 سے مسلسل ریڈی ایشنز خارج ہوتی رہتی ہیں اِس لیے اِس کے گرد سیسے (Lead) کی شیلڈنگ کی جاتی ہے جو ریڈی ایشنز کے اخراج کو شیلڈنگ سے باہر آنے سے روکتی ہے۔ کوبالٹ-60 کی ہاف لائف سوا پانچ سال ہوتی ہے۔ اس لیے سورس کو ہر پانچ سے چھ سال بعد تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ریڈی ایشنز کے مسلسل اخراج کی وجہ سے اس سورس کو محفوظ طریقے سے تبدیل کرنا ایک نسبتا مہنگا عمل ہے اِس لیے اِسے ریڈی ایشن مشین میں نصب کرنے کے بعد تبدیل نہیں کیا جا رہا۔ اِسے تبدیل نا کرنے کا صرف اتنا نقصان ہے کہ اگر ایک مریض کو دس منٹ ریڈی ایشنز دی جاتی ہیں تو ہاف لائف مکمل ہونے کے بعد ایسے ہی مریض کو بیس منٹ ریڈی ایشنز دینا ہوں گی۔
دوسری طرف لینیر ایکسرلیٹر کو ایک دفعہ نصب کرنے کے بعد اِسے دوبارہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لینیر ایکسرلیٹر سے مسلسل ریڈی ایشنز خارج نہیں ہوتیں اِس لیے یہ ایک محفوظ طریقہ کار سمجھا جاتا ہے۔
بریکی تھراپی (Brachytherapy)
یونانی زبان کے لفظ بریکی کا مطلب ‘کم فاصلہ’ ہے اور بریکی تھراپی سے مُراد ٹیومر کو کم فاصلے سے ریڈی ایشنز دینا ہے۔ اِس عمل میں ریڈی ایشن سورس کو ٹیومر کے ساتھ، اوپر، یا درمیان میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن ریڈی ایشن سورس کو براہ راست ٹیومر کے پاس نہیں رکھا جاتا۔ پہلے مشین یا دستی طور پر خالی سوئیاں ٹیومر کے پاس نصب کی جاتی ہیں جو یا تو ریڈیو ایکٹو سورس سے بھری ہوتی ہیں یا اِن سوئیوں کو نصب کرنے کے بعد دستی طور پر یا مشین سے ریڈیو ایکٹو سورس کو سوئیوں کے اندر ڈالا جاتا ہے۔ کینسر کی قسم اور مریض کے مکمل معائنہ کے بعد یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ سورس کو ڈیکے ہونے تک ہمیشہ کے لیے اندر رکھا جائے یا ایک مخصوص مدت کے بعد واپس نکال لیا جائے۔ ریڈی ایشنز تھراپی کی نسبت یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے اور کام کرنے والے عملے کو ریڈی ایشنز کے اخراج سے نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
سرجری (Surgery)
ریڈی ایشن تھیراپی کے علاوہ اگر ممکن ہو تو ٹیومر کو سرجری کے ذریعے جسم سے مکمل طور پر نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کینسر سیلز کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کینسر کے محض چند سیلز بھی جسم میں باقی رہ جائیں تو وہ اپنی کاپیاں بدستور بناتے ہیں اور ٹیومر پھر سے پھیلنے لگتا ہے- اِس لیے کینسر سے صحت یاب افراد میں دوبارہ کینسر ہونے کے مواقع نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔
کینسر سے بچاؤ کے لیے اچھی خوارک کا استعمال، ورزش کرنا اور فضائی آلودگی سے دور رہنا ضروری ہے۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...