کینیڈا ٹھیک رہے گا، یا آسٹریلیا؟
پتہ ہے آپ سب کو عمران خان پر غصہ کیوں آتا ہے؟
اسلیے کہ وہ آپ کو قابل پہنچ لگتا ہے۔
اور ان صحافیوں کی بانچھوں سے بہتا تھوک کس کے چہرے پر گرتا ہے؟
عمران خان کے، کیونکہ وہ سامنے بیٹھ کر ان کے ایسے سوالوں کے جواب دینے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔ جبکہ باقی اصحاب سوالنامہ پہلے مانگتے ہیں اور اپنی شرائط پر انٹرویو کی خیرات دیتے ہیں، اسی لیے آپ حامد میر جیسے صحافیوں کو آصف ذرداری کے سامنے اور منیب فاروق جیسوں کو مریم نواز کے سامنے گھگھیاتے ہوئے پہلے سے طے کیے گئے سوال کرتے دیکھتے ہیں۔
اور پروپیگنڈہ کی ہلکی آنچ پر پورے ملک میں تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف اس کے اپنے ممبران بھی بھونچال کیوں کھڑا کردیتے ہیں؟
اس لیے کہ انکو پتہ ہے کہ وہ بنی گالہ بھی پہنچ سکتے ہیں، گیٹ بھی پھلانگ سکتے ہیں۔ اور عمران خان کو منہ پر سنا بھی سکتے ہیں۔
نون لیگ و دیگر مخالفین بھی ہلکی سے "بف" کر کے پیچھے بیٹھ کر بڑے بڑوں کو بھونکتے کیوں سنتے ہیں، اور مزے لیتے ہیں؟
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان پر بھونکنے کے لیے اس کے اپنے "شیرو" ہی کافی ہیں۔
یہ ملک تھا، یہی جماعتیں تھیں۔ عوام کا نام لیا جاتا تھا، مگر عوام کی کبھی نہیں سنی جاتی تھی۔ عوام کے نام پر ببانگ دہل "دس کروڑ، بیس کروڑ" کہہ کر انکے منہ میں اپنے ایجنڈے کی زبان ڈال دی جاتی تھی۔ عوام پٹرول پمپوں اور گیس اسٹیشنوں پر ذلیل ہوتے ایک آدھ جملہ کہہ دیتے تھے، بس اس سے زیادہ کی انکی اوقات نہیں تھی۔ نہ انکی کوئی سنتا تھا، نہ انکی آواز کی کوئی حیثیت تھی۔
بیس بائیس سال ایک بندے نے، عام بندے نے، بغیر سیاسی خاندان کے بندے نے، عوام کی پارٹی عوام کی پارٹی کر کے نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ عوام کو انتخابی فارم کا بھی پتہ چل گیا، عوام کو اپنے حقوق کا بھی پتہ چل گیا اور عوام کو احتجاج کرنے کا بھی پتہ چل گیا۔
اور آج عوام سب سے زیادہ بنی گالہ کی طرف منہ کرکے کیوں چیخنے لگتے ہیں؟ اس لیے کہ انکو برسوں کے تجربے سے یہی پتہ چلا ہے کہ باقی سب جگہ انکے چیخنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں کم از کم ان کی سنی جاتی ہے۔
اس پر مجھے اپنا ایک شرمیلا، کم گو، اور ہر ایک کے ہاتھوں استعمال ہوجانے والا دوست یاد آ گیا۔ ایک بار بہت تنگ کہ ہر کوئی مجھے فار گرانٹڈ سمجھتا ہے، میری بھی کوئی مرضی ہے، جب جس کا دل چاہتا ہے مجھے ساتھ لے کر شاپنگ کرنے، ڈرائیو پر، یا کسی اور کام چلا جاتا ہے۔ میں نے اسکو تسلی دی، اور گھنٹہ لگا کر سمجھایا کہ کیسے انکار کرتے ہیں، اور کس طرح مناسب انداز میں کہتے ہیں کہ "نہیں ، میں مصروف ہوں، کسی اور وقت" ۔ وہ حیرانی سے میرا منہ تکنے لگا، کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے سر؟ میں نے کہا بالکل، جو تمہارا دوست ہوگا، وہ ضرور تمہاری مرضی کا خیال رکھے گا۔ وہ خؤش ہوگیا۔
اگلے روز میں نے اسے کال کی، یار نومی! آجاؤ کچھ کھانا کھاتے ہیں۔ آگے سے جواب ملا، نہیں، میں مصروف ہوں، کسی اور وقت۔
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ باقی سب اسکو پھر ڈنڈا ڈولی کر کے ساتھ لے جاتے ہیں، بس میں ہی واحد ایسا تھا جس کو وہ یہ جملہ کہہ سکتا تھا۔
یہی حال میری عوام کا ہے۔ جس نے انکو انکے حقوق کا پتہ دیا، آج سب اسی کے خلاف کبھی پاؤں غلط رکھنے پر، کبھی ہاتھ غلط باندھنے پر سراپا احتجاج ہورہے ہیں۔ سب اس پر ایسے غصہ نکالتے ہیں جیسے اس نے انکا برسوں کا قرض دینا ہے۔ کوئی اس کے دھرنے میں گیا تو اسکا احسان جتا رہا ہے، تو کسی نے اس کے پمفلٹ بانٹے تو اس کی دھونس۔ کوئی خود بیرون ملک اچھی سیلری سلپ پھاڑ کر عمران خان کی سیاسی غلطیوں پر تبریٰ بھیج رہا ہے۔ کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ جس سے وہ شکائت کر رہے ہیں، وہ اپنی جوانی، اپنا خاندان، اپنا کئرئیر، اپنی زندگی کی تین دہائیوں کو ان کی اولادوں کی بہتری کے لیے قربان کیے بیٹھا ہے۔
پچاس سالوں میں ہم ایک کام کا لیڈر نہ پیدا کر سکے۔ اور اگر کسی نے اس حد تک ہمت کی بھی ہے تو ہمارا اصرار اس سے یہ ہے کہ بس وہ ہمارے بتائے ہوئے طریقے پر انقلاب لا کر ہمارے ہاتھ میں دے دے۔ جبکہ ہم خود سیاست میں نہیں کودیں گے ، یہ تو گند ہے۔ ہم تو امیگریشن فارمز فل کر رہے ہیں، کینیڈا ٹھیک رہے گا، یا آسٹریلیا؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“