امریکہ نے جس طرح افغانستان سے اپنا فوجی انخلا کیا اس پر اس کی ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کے عوامی نمائندوں نے اس پر بہت شور اُٹھایا اور اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً امریکی کانگریس میں امریکی حکومتی عہدیداروں کی پیشیاں ہوئیں جن میں امریکی وزیرِ دفاع، وزیرِ خارجہ، اور امریکی افواج کے اعلیٰ عہدے پر فائز جرنیل حضرات شامل ہیں۔ اس سماعت کو “Afghanistan 2001 -2021: Evaluating the withdrawal and U.S. Policies” کا نام دیا گیا۔
جہاں امریکہ میں افغانستان سے انخلا کے متعلق کاروائی چل رہی ہے وہیں کینیڈا میں 30 ستمبر پہلی دفعہ Truth and Reconciliation کے دن کے طور پر منایا گیا۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے اس پر کینیڈا کی مشہور صحافی فرح ناصر نے ایک مختصر دستاویزی پروگرام تیار کیا ہے۔ جس میں مندرجہ ذیل معلومات دی گئیں ہیں۔
رہائشی سکولوں کی ہولناکیوں سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے۔ یہ کینیڈا کی تاریخ کا ایک چونکا دینے والا اور ہولناک حصہ ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہم ان اسکولوں کے اندرونی واقعے کے بارے میں کتنا کم جانتے تھے۔ حال ہی میں آپ نے رہائشی اسکول کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا ، لیکن کئی دہائیوں تک اس پر خاموشی تھی!
ہزاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ، زیادتی کی گئی اور کچھ معاملات میں وہ مر بھی گئے۔ یہ اسکول باعثِ شرم اور مختلف نسلوں کے لئے صدمے کا ذریعہ تھے۔ یہ رہائشی سکولوں کی کہانی ہے جو اب کینیڈا میں پوری طرح آشکار ہے۔
رہائشی اسکولوں کی اصطلاح سے مراد ایک وسیع مذہبی سکول سسٹم ہے جو کینیڈا کی حکومت نے قائم کیا تھا اور گرجا گھروں کے زیر اہتمام اسکولوں کو 1867 میں برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ کی منظوری اور پھر 1876 میں انڈین ایکٹ کے نفاذ کے ساتھ مُقامی بچوں کو تعلیم دینے اور انہیں یورو کینیڈا کی ثقافت میں شامل کرنے کے مقصد کے تحت قائم کیا گیا تھا۔
کینیڈا میں بسنے والے یورپی باشندوں نے یہ غلط رائے قائم کی کہ یورپی نسل سے تعلق رکھنے والے (ریڈ) انڈینز سے برتر تھے۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو جاہل ، وحشی اور رہنمائی کے قابل کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا کہ انہیں ان کو مہذب بنانے کی ضرورت ہے ، یہ خیال کیا گیا کہ (ریڈ) انڈینز بچوں کو عیسائیت اپنانے اور فرانسیسی یا انگریزی سکھا کے مہزب انسان بنایا جا سکتاہے۔ یہ کوششیں 17 ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئیں جب فرانسیسی نوآبادیات نیو فرانس پہنچے جس میں بہت سے صوبے شامل ہیں جو اب کینیڈا کا حصہ ہیں۔
پہلا رہائشی سکول دی موہاک انسٹی ٹیوٹ 1831 میں کھولا گیا۔ یہ برینٹ فورڈ ، اونٹاریو میں تھا۔ آخری اسکول 1996 میں پونچی ، سسکاچیوان میں بند ہوا، یعنی یہ بہت زیادہ پُرانی بات نہیں ہے۔ کینیڈا میں 1831 اور 1996 کے درمیان 130 سے زائد رہائشی اسکول کام کر رہے ہیں۔
1931 میں کینیڈا میں 80 رہائشی اسکول کام کر رہے تھے اور یہ ایک وقت میں اُن اسکولوں کی سب سے زیادہ تعداد تھی اور یہ مختلف گرجا گھروں کے زیرِ اہتمام ذریعے چلائے گئے جن میں رومن کیتھولک، اینگلیکن ، یونائیٹڈ اور پراسپیٹیریا شامل ہیں۔
فرسٹ نیشن میٹیئن ، انویٹ کے بچّوں کو اُن مرضی کے خلاف ان کے خاندانوں اور برادریوں سے زیادہ ہٹایا گیا اور اُنھیں اسکولوں میں اپنی روایات ، ثقافتی طریقوں اور زبان کو ترک کرنے پر مجبور کیا گیا۔
بچوں کو نئی شکل میں ڈھالنے کی کوششیں اس وقت شروع ہوتی جب وہ اسکول پہنچتے۔ طلباء کے بال کاٹے گئے ، ان سے ان کے روایتی کپڑے چھین لیے گئے ، انہیں یونیفارم پہننے پر مجبور کیا گیا، اکثر انہیں نیا نام دیا جاتا۔ بعض اوقات انہیں صرف ایک نمبر دیا جاتا تھا۔
رہائشی سکولوں کے طلباء و طالبات نے وہی تعلیم حاصل نہیں کی جیسی پبلک سکول سسٹم میں تھی اور اُن سکولوں کو فنڈز کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔رہائشی اسکولوں کے سابق طلباء نے سکول کے عملے کی جانب سے کی جانے والی خوفناک زیادتی کے بارے میں بات کی۔ دائمی جسمانی ، جنسی ، اور نفسیاتی اور جذباتی زیادتی جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اُن کے اثرات زندگی بھر رہتے ہیں۔
اُن اسکولوں کے سابق طلبہ مار پیٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ کچھ طالب علموں کو ان کے بستروں سے جکڑا گیا۔ کچھ کو اپنی مادری زبانیں بولنے پر سزا کے طور پر ان کی زبانوں میں سوئیاں چبھوئیں گئیں۔ان زیادتیوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں طلباء کی زیادہ تعداد ، ناقص صفائی ستھرائی اور شدید ناکافی خوراک اور صحت کی عدم دیکھ بھال کے باعث ہلاکتوں کی تعداد حیران کن حد تک بڑھ گئی۔ بہت سے بچے تپ دق اور انفلوئنزا کا شکار تھے ، کچھ خودکشی سے مر جاتے تھے ، کچھ غذائی قلت سے مر جاتے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق 150000 بچوں نے سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور اندازہ لگایا گیا کہ ان میں 3000 سے 6000 بچے مر گئے۔ کئی سالوں تک طلباء اور والدین نے سکولوں کے اندرونی حالات پر احتجاج کیا۔ کچھ بچے تعاون کرنے سے انکار کرتے تھے ، کچھ نے کھانا چرا لیا ، دوسرے بھاگ گئے ، کچھ نے احتجاج میں آگ لگائی لیکن ان کی فریاد کو زیادہ تر نظر انداز کیا گیا۔
1940 کی دہائی تک حکومت پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ اسکول غیر موثر تھے اور 1969 میں انڈین امور کے محکمہ نے چرچ کی شمولیت کو ختم کرتے ہوئے اسکول کا نظام سنبھال لیا۔ اور پھر مقامی کمیونٹیز اگلے چند دہائیوں تک ان تجربات سے متاثر ہونے والے طلباء کی مدد کے مشکل کام کو انجام دیتی رہیں۔
1990 کی دہائی میں ان اسکولوں کے سابق طلباء نے حکومت اور چرچ سے مطالبہ کیا کہ وہ سکولوں میں ان کے ساتھ کی گئیں زیادتی کو تسلیم کریں اور ان کے دکھوں کا معاوضہ فراہم کریں۔ 2005 میں وفاقی حکومت نے بدسلوکی سے بچ جانے والوں کے لیے 1.9 ارب ڈالر کے معاوضہ کا اعلان کیا۔ 2007 میں وفاقی حکومت اور وہ گرجا گھر جنہوں نے سکول کا انتظام کیا تھا ، سابقہ طلباء کو رہائشی سکول سیٹلمنٹ معاہدے کے تحت مالی معاوضہ فراہم کرنے پر رضامند ہوئے۔
1 جون 2008 کو اس وقت کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے کینیڈا کی حکومت کی جانب سے کینیڈا کے رہائشی سکولوں کے تمام طلباء سے رسمی طور پر معذرت کی۔
اس معافی نے اسکولوں کے مقامی ثقافت پر گہرے نقصان دہ اور دیرپا اثرات کو تسلیم کیا اور یہ کینیڈا میں مقامی لوگوں کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے کے اقدامات میں سے ایک تھا لیکن اس میں نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور میں رہائشی اسکولوں کے بچ جانے والوں کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان صوبوں میں جب رہائشی اسکول شروع ہونے پر یہ کینیڈا کا حصہ نہیں تھے۔ چنانچہ وہاں زندہ بچ جانے والوں نے کلاس ایکشن مقدمہ شروع کیا اور 59 ملین ڈالر کا تصفیہ 10 مئی 2016 کو ہوا۔
24 نومبر 2017 کو وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے باضابطہ طور پر نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور کے رہائشی اسکولوں کے بچ جانے والے طلباء سے معذرت کی۔
ماضی کی غلطیوں کو دور کرنے کے اپنے عزم کے ایک حصے کے طور پر حکومت نے رہائشی اسکولوں کی تاریخ اور دیرپا اثرات کی دستاویز کے لیے سچائی اور مصالحت (Truth and Reconciliation) کمیشن بھی قائم کیا۔
2015 میں سچائی اور مصالحتی کمیشن کی رپورٹ جاری کی گئی۔
اس کمیشن نے ان اسکولوں کی بہت ہولناک تصویر کھینچی اور اس عمل کو کینیڈا کے مقامی لوگوں کی ثقافتی نسل کشی قرار دیا ہے۔
اس نے مصالحت کو فروغ دینے کے لیے کارروائی کرنے کے لیے 94 نکات پیش کئے۔ رہائشی سکولوں کے بارے میں طلباء کو تعلیم دینا شروع کرنا اہم سفارشات میں سے ایک ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ طلباء بالآخر کینیڈا کی تاریخ کے اس اہم حصے کے بارے میں سیکھ رہے ہیں۔
اگرچہ کینیڈا اپنی تنوع (diversity) اور مختلف قومیتوں کو قبول کرنے پر فخر کرتا ہے ، یہ اس کے تاریک ماضی سے واضح ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ حالانکہ رہائشی اسکولوں کے دروازے بند ہو چکے ہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے زخم ابھی تک کھلے اور تکلیف دہ ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ یہ زخم کبھی بھریں گے یا نہیں . میں فرح ناصر ہوں اور یہ رہائشی سکولوں کی کہانی ہے، یہ کینیڈا ہے۔
یہ دو مثالیں ہیں کہ کس طرح دو قومیں اپنا محاسبہ کر رہی ہیں۔ قومیں اس طرح اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور اپنا مستقبل بہتر بناتی ہیں۔ ان دو مثالوں کو اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کی ستّر سال سے زیادہ کی تاریخ میں مختلف اندوہناک واقعات رُونما ہوئے ہیں۔ اُن میں سے کچھ واقعات پر کمیشن بھی بنائے گئے ہیں اور اسمبلیوں میں بھی اُن پر سوال جواب کی نشستیں ہوئیں ہے۔ لیکن نا ہی کبھی اُن کمیشنوں کی رپورٹ منظرِ عام پر آئیں ہے نا ہی اسمبلیوں کی کاروائی عوام کے سامنے ہوئی ہے۔ نا ہی اِن واقعات کے بارے میں طلبہ کو اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں مختلف قومیتوں، فرقوں اور نسلوں کے لوگ ایک دوسرے سے مُتنفّر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے تاریک پہلوؤں سے آنکھیں چُرانے کی بجائے آپس میں اُن پر گفتگو اور مکالمہ کریں۔
یہ مضمون مشہور کینیڈین صحافی فرح ناصر کے دستاویزی پروگرام کا خلاصہ ہے۔ ( مرتّب: محمد عبدالحارث)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...