ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں کیلنڈر نامی مرغی رہتی تھی ۔ ایک دن وہ انڈے سینے بیٹھی اور چند ہی دنوں بعد انڈوں سے بارہ چوزے نکل آئے ۔ چوزے بہت پیارے تھے ۔ اس لیے کیلنڈر اپنے بچوں پر پیارے پیارے نام بھی رکھنا چاہتی تھی۔ اس نے اس سلسلے میں اپنے رشتہ داروں سے مشورہ کیا۔ سب نے اپنی طرف سے چوزوں پر مختلف نام رکھے مثلاً چنٹو ، بنٹی ، شونا وغیرہ مگر مرغی کو ایسے نام بالکل پسند نہیں آئے ۔ مجبوراً اس نے چوزوں کو سمندر پار جنگل لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ جنگل کے عقل مند الو ان چوزوں پر نئے اور منفرد نام رکھ سکے ۔ وہ اس مقصد کے لیے چوزوں کو لے کر کشتی میں سوار ہوگئی ۔ یہ دن ملاح اور کیلنڈر مرغی کی بدقسمتی کا دن تھا کیونکہ کشتی طوفان میں پھنس گئی ۔ ملاح نے کوشش کرکے سارے چوزوں کی جان بچائی مگر اس دوران مرغی کہیں کھو گئی ۔ چوزوں کو ماں کے کھونے کا بڑا دکھ ہوا مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔
ملاح نے بڑی محنت سے چوزوں کو الو تک پہنچا دیا ۔ الو نے سب کا استقبال کرکے ان کی خوب خاطر مدارت کی اور پھر بڑی سوچ بچار کے بعد بارہ مہینوں کے نام پر چوزوں کے نام رکھ دیے ۔ یعنی جنوری ، فروری ، مارچ ، اپریل وغیرہ ۔ ملاح نے سارے چوزوں کو مرغی کی امانت سمجھ کر کشتی میں دوبارہ بٹھا دیا مگر واپسی میں وہ پھر سے طوفان میں پھنس گیا ۔ اس دوران میں طوفان اتنا شدید تھا کہ کشتی الٹ گئی اور سارے چوزے ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ۔ ملاح کسی طرح ساحل پر پہنچا تو اس نے وہاں چوزوں کی ماں کو دیکھا ۔ جس نے اسے دیکھتے ہی چلا کر کہا ۔
“کہاں ہیں میرے بچے ؟”
ملاح نے اسے سارا واقعہ سنایا ۔
“الو نے تمہارے کہنے کے مطابق سارے چوزوں پر پیارے پیارے نام رکھ دیے ۔ سارے چوزے نئے نام پاکر بہت خوش تھے ۔ وہ سب طوفان میں بھی خوشی سے اچھل رہے تھے۔ اس لیے سارے چوزے گم ہوگئے ۔ ”
مرغی یہ سن کر بہت روئی ۔ پھر اس نے خود کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ ” میرے چوزے اپنی ماں کے لیے ایک نا ایک دن واپس ضرور آئیں گے ۔” پھر ایسا ہی ہوا ۔ تقریباً ایک سال بعد مرغی کے سارے بچے مل گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے رابطہ شروع کیا اور ماں سے ملنے کا ارادہ کیا ۔ مرغی کو اطلاع ملی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی ۔ اس نے بچوں کے استقبال کے لیے ہر طرف سبز گھاس بچھائی ۔
سب سے پہلے چمکتے سفید کوٹ میں ملبوس جنوری آیا ۔ جنوری کے ہاتھ کانپ رہے تھے کیونکہ اس نے دونوں ہاتھوں سے ٹھنڈی ہوا کو پکڑا تھا۔ چند روز بعد فروری آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں برف اور دوسرے ہاتھ میں ماں اور بھائیوں کے لیے ایک درجن سے زیادہ سرخ پھولوں کا تحفہ تھا۔ پھول دیکھ کر وہاں کھڑے درخت بھی خوش ہوئے ۔ مارچ موسم بہار اور ہلکی بارش کا وعدہ لے کر رقص کرتا ہوا آیا۔ اسی طرح اپریل اپنے ساتھ مہکتی ہوائیں اور پھولوں کے تازہ گلدستے لے کر پہنچا ۔ مرغی باری باری اپنے بچوں کو آتا دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔ اس نے جنوری و فروری کو گلے لگایا تو اسے سردی کی وجہ سے زکام ہوگیا ۔ مارچ اور اپریل کو ماں کے زکام کا علم ہوا تو انہوں نے مئی اور جون کو بھی خبردار کیا ۔ مئی اور جون اپنے ساتھ خوش گوار موسم اور تھوڑی گرم ہوا لے کر آئے مگر اس سے بھی مرغی کی طبیعت بحال نہیں ہوئی ۔ یہ سن کر جولائی اور اگست مل کر گرم ترین ہوائیں ساتھ لے لائے جس سے مرغی یک دم ٹھیک ہوگئی ۔
مرغی اپنے بچوں کے ہمراہ فروری اور اپریل کے لائے ہوئے پھولوں سے کھیلنے لگی ۔ اس دوران میں اسے جولائی اور اگست کی گرم ہواؤں نے پریشان کرنا شروع کیا ۔ وہ دعا کرنے لگی کہ اس کے دیگر بچے اپنے ساتھ مزید گرمی نہ لائے۔
چند روز بعد ستمبر کو بھی ماں کے گھر کا پتا مل گیا۔ جب ستمبر آیا ، اس وقت مرغی بچوں کے لائے ہوئے پھولوں کے ساتھ مگن تھی۔ اس کے ساتھ دیگر بچے بھی تھے اس لیے کسی نے ستمبر کا استقبال نہیں کیا ۔ اسے سخت غصہ آیا ۔ اس نے اندازہ لگایا کہ پھولوں کی وجہ سے کسی نے اس کا استقبال نہیں کیا ۔ اس نے پھولوں سے انتقام لینے کے لیے ان کے دشمن خزاں کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ سارے پھول خزاں کو دیکھ کر مرجھا گئے ۔ پھولوں کی ایسی حالت دیکھ کر درختوں نے بھی احتجاج کے طور پر اپنے پتے گرا دیے۔
اکتوبر کو جب اطلاع ملی کہ اس کی ماں گرمی سے پریشان ہونے لگی ہے تو وہ اپنے ساتھ خوش گوار موسم لایا ۔ نومبر اور دسمبر نے بھی ماں کو گرمی سے چھٹکارا دلانے اور اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے ٹھنڈی ہواؤں کا تحفہ پیش کیا۔
ایک دن مرغی نے سارے بچوں کو اپنے ڈربے بلایا ۔ وہ ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔ اس نے کیمرہ مین کو بلا کر سارے بچوں کی ایک ساتھ تصویر لی اور اسے دیوار پر لگا دیا۔ تصویر کے نیچے مرغی نے لکھوا دیا “کیلینڈر کے بچے”۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...