پی ایم اے میں سیکھا ایک سبق یہ بھی تھا کہ دوچیزوں کا کوئی اعتبار نہیں
زندگی اورموسم۔ کتاب وفا کا سارا نصاب وقت پڑنے پراول الذکرکی بازی کھیل جانےکی تربیت ہے۔ رہ گئی بات موسم کی تو جب ہم کیڈٹ تھےتو ایک مقولہ ضرب المثل کی طرح رائج تھا اور وہ یہ کہ پی ایم اے کا کیڈٹ ایکسر سائز پر جانے کے لیے جیسے ہی ایف ایس ایم او پہنتا ہے اللہ عزوجل کے بارش پر مامور فرشتے اوورٹائم کے لیے تیار ہو جاتےہیں۔ اب اگرآپ ایف ایس ایم اوکے بارے میں پوچھیں تو ہم کہیں گے کہ یہ مخفف ہے فیلڈ سروس مارچنگ آرڈرکا۔
آسان الفاظ میں سمجھائیں تو یہ ملٹری ایکسر سائز پر جانے والے کیڈٹ کی کل کائنات ہے۔ چھبیس آرٹیکل بشمول ہاؤس وائف، دوکمبلوں اور اضافی ڈانگری کےگناہوں سے لیس بگ پیک، فوجی بوٹ، کندھے پر رائفل (اللہ کے برگزیدہ بندوں کے حصے میں ایل ایم جی یعنی لائٹ مشین گن آتی تھی) اور سرپرہیلمٹ۔
اب اس انتظام وانصرام کے بعد جو بھی شغل اختیارکیا جائے انجام کار دماغ کا دم پخت ہی بنتا تھا۔ اب اس پر بارش کو تصورکرلیجیے۔
بات بارش کی اوراس سے جڑے مقولے کی ہورہی تھی مگر اور ہی بھول بھلیوں میں کھوگئی۔
لوگ چاہے کچھ بھی کہیں ہم اعداد و شمار سے ثابت کرسکتے ہیں کہ پورے ایبٹ آباد کے مقابلے میں کاکول میں سارا سال فی مربع گز بارش اور سردیوں میں فی سیکنڈ کپکپاہٹ کا تعدد بہت زیادہ بلکہ کہیں زیادہ تھا۔ جہاں اہل ایبٹ آباد محض بتیسی بجانے پر اکتفا کرتے وہاں کاکول والوں کے سر اورٹانگیں بجا کرتیں۔ اور اگر آپ قسمت کے دھنی ہونے کے سبب ٹوبے کیمپ میں پناہ گزین تھرڈ پاک بٹالین المعروف جراسک پارک کے مکین تھے تو ایک کپکپاتی کہرآلودٹھنڈ میں کوئٹہ سٹوو کے آتش گیردھوئیں کے صدقے ایک کھنگارتےکھانستے خراش آلود جاڑے کا تصورکرلیجیے۔
تو صاحب بات اسی ٹوبے کیمپ کی ہےمگرموسم فرق ہے۔
تھرڈ پاک کے درختوں کی مردہ شاخوں پرسبز ڈنٹھل پھوٹ رہے تھےاور سارے میں سرمئی جاڑے کو بھیجے گلابی بہارکے پیاموں کی بھینی مہک تھی۔
بٹالین روڈ سے تھوڑا ہٹ کے ایچ ایس (ہالز آف سٹڈی کامخفف ہے) میں جو کہ پرانے وقتوں کی بارکیں تھیں، کوئٹہ سٹوو کی آلودہ گرمائش کی جگہ ایک نم ٹھنڈک سے دھندلاتی کھڑکیوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی روپہلی کرنوں نے لے لی تھی۔
اوراندربیٹھے کیڈٹ کیپٹن خلیلی کےبےنیازانہ طنطنے کے زیردام انگریزی سے نبردآزماتھے۔
صاحبو اکیڈیمی میں بہارتو آتی تھی مگراپنے فیض صاحب کے لفظوں کے مصداق کچھ بھی لوٹ کر نہیں آتا تھا۔
نہ توخواب سارے اورنہ ہی شباب سارے۔ ہاں مگریہ ضرورتھا کہ
؎ ابل پڑے ہیں عذاب سارے
اب اورکیاتفصیل بیان کریں کہ عقلمند کواشارہ کافی ہے۔ ہم ذکرکررہےتھےکیپٹن خلیلی کا۔ انگریزی کےاستاد ہونےکےناطےوہ ہمارے اکیڈیمک پلاٹون کمانڈربھی تھےاور یہ عہدہ جتانےکا کوئی موقعہ ہاتھ سےجانےنہیں دیتےتھے۔
ایجوکیشن کورکے تھے مگر لگتےنہیں تھے۔ آرٹلری کے لگتے تھے۔ فوج میں رائج انگریزی محاورے کے مطابق پکے کے ایل ایم (معاف کیجیے گا اس کا مطلب ہم نہیں بتائیں گے۔ ہم خود توپخانے سے ہیں۔ ہم نےبھی خداکوجان دینی ہے۔ آپ اپنے کسی واقف کارآرٹلری افسرسے پوچھ لیجیے)۔
تو صاحب انگریزی کی کلاس تھی اندرجارج برنارڈشا کا کلاسیک کھیل ’آرمزاینڈ دا مین‘ چل رہاتھا۔
چل رہاتھاہم نے اس لیے لکھا کہ کیپٹن اخترکے زیرانتظام باقاعدہ نامزد کیڈٹ اپنے اپنے ڈائیلاگ ادا کرتے تھے۔ صاحبو بھلے دن تھے، کیپٹن بلنتشلی اور رائنا کے معاشقے کی اوٹ میں ہم ہنسی خوشی جارج برنارڈشا کا ہمارے کیپٹن کی زبانی کہلوایا گیا ڈائیلاگ
’نائن سولجرز آؤٹ آف ٹین آر بورن فولز‘
نہ صرف پڑھ دیتے تھے بلکہ اس پرکھلکھلاکرہنس بھی پڑتے تھے۔ آپ آج کل یہ کہہ کردیکھیے۔ اگر آپ فوجی ہیں تو آپ کاکورٹ مارشل ہوجائے گا اور اگر سویلین تو بقول کسے ’بیٹھو بیٹھو لیا ڈالا‘ 1885 کی سربیا بلغاریہ جنگ کے پس منظر میں لکھے ہلکے پھلکے ’آرمز اینڈ دا مین‘ کی اور بہت سی باتیں بھلی تھیں مگر جو ایک ہمیں یاد رہ گئی وہ ہمارےکیپٹن بلنتشلی کو دیا گیا رائنہ کا محبت بھرا لقب چاکلیٹ کریم سولجر تھا
وہ اس لیے کہ ہماراسپاہی جوبن پرآئے محاذپر بھی اپنے ایمونیشن پاؤچ میں کارتوسوں کی جگہ چاکلیٹیں لیے پھرتاتھا۔ صاحب وہ دور ہی ایسا تھا جنگ کے چاکلیٹ کریم سولجراور فلمی پردے کے چاکلیٹی ہیرو دل پر راج کیا کرتےتھے۔ اورسچ بتائیں تو ہمیں تو کیپٹن بلنتشلی اپنے اللہ بخشے وحید مراد جیسے ہی لگے۔
بہت بعد کے سالوں کا ذکرہے …
ہم لاہورکے گلی کوچوں کواپنا مسکن کیے بیٹھے تھے۔ ایک جوبن پر آئی شام ’یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا‘ سنتے دل بہت بے چین ہوا اور ہمیں چاکلیٹ کریم ہیرو کی یاد نے بہت تنگ کیا تو ہم گلبرگ مین بلیوارڈ کی قربت میں علی زیب روڈ پرفردوس مارکیٹ کے قبرستان چلے آئے۔
یہاں ایک کونےمیں اپنے والد کی قبرکے ساتھ ہمارا چاکلیٹ کریم ہیرو ابدی نیند سورہا ہے۔ اس شام علی زیب روڈ پر فاتحہ پڑھتے ہم نے وحید مراد اور کیپٹن بلنتشلی کو بہت یاد کیا۔
وحید مراد کی برسی پر ہم کچھ لکھنے بیٹھے تو یادیں ہمارادامن پکڑکر ماضی کی ایک بھولی بھالی راہگزرکی سیرکرا لائیں۔
ہم نے وحید مراد کے طفیل اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کیا۔ اللہ ان پراپنا فضل وکرم فرمائے۔ آمین۔
کچھ عرصے پہلے ہم نے فردوس مارکیٹ میں مدفون وحید مراد اور دوسرے فلمی ستاروں پر کچھ لفظ لکھے تھے۔ انگریزی میں ہیں۔ ہمارےپڑھنے والے انہیں یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...