بی زیڈ یُو میں فلاسفی آف سائنس کے لیکچرز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان، فلسفہ ڈیپارٹمنٹ، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، پہلے دن کے لیکچرکا عنوان تھا، ’’ایپسٹیمالوجی آف سائنس اینڈ سُوڈوسائنس‘‘ جس کا معنی ہے، سائنس اور سُوڈوسائنس کی علمیات۔ لیکچر میں میں نے کہا کہ کارل پوپر کی فالسفکیشن کے مطابق اگر کسی دعوے کے تصدیقی دلائل کواستقرائی طریقِ کار پر نمونوں کی مدد سے جمع کیا جاتا رہے تو اس سے دعوے کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک شخص خواب دیکھے اور جو اس نے دیکھا اگلے دن وہ واقع ہوجائے تو یہ ایک نمونہ ہوگا ’’سچےخوابوں‘‘ کےنظریہ کا۔ کارل پوپر کے مطابق اس طرح کے لاکھ نمونے بھی کسی نظریہ کے سائنس بننے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ البتہ اس کے برعکس کسی نظریہ کو جھٹلانے کے لیے فقط ایک نمونہ ہی کافی ہوسکتاہے بایں ہمہ فالسفکیشن کا اُصول ہی وہ کامل اور یقینی طریقہ ہے جو سائنس کو سُوڈوسائنس سے الگ کرسکتاہے۔
سکھر میں یہی بات کرتے ہوئے میں نے مثال بدل دی اور کہا کہ اگر ایک شخص کے چہرے پر برتھ مارک ہے تو اس کے بارے میں عامۃ الناس کا ایک نظریہ ہے کہ وہ سُورج گرہن یا چاند گرہن کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ نظریہ یوں ہے کہ جب کوئی عورت حاملہ ہو اور چاند گرہن یا سورج گرہن واقع ہوجائے اور اس عورت کے چہرے پر کوئی نشان یا کوئی زخم لگ جائے تو اس کے پیدا ہونے والے بچے کے چہرے پر بھی ویسا ہی نشان ہوگا۔ اب اس نظریہ کی صداقت معلوم کرنے کے دوطریقے ہوسکتے ہیں۔ نمبر ایک کہ زیادہ سے زیادہ برتھ مارکس کے نمونے اکھٹے کیے جائیں اور ان کی ماؤں سے پوچھا جائے۔ دوسرا طریقہ فالسفکیشن کا ہے کہ صرف ایک حاملہ رضاکار عورت کو آبزرو کیا جائے اور گرہن کے روز اس کے چہرے پر نشان لگا دیا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ فالسفکیشن کا اصول کہلاتا ہے اور یہ فقط ایک ہی بار کافی ہوتاہے۔ اگر بچے کے چہرے پر وہی برتھ مارک نہ ہوا تو نتیجہ نکل آئے گا کہ گرہن کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا برتھ مارکس میں۔ یہ کہلائے گی سائنس اور اگر ہم نمونے جمع کرتے جائیں، چاہے لاکھوں کرلیں، وہ ہوگی سُوڈوسائنس۔ اسی اصول کی بنا پر کارل پوپر نے فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی اور تحت الشعور و لاشعور کو سُوڈوسائنس قرار دیا اور مارکس کے ہسٹوریکل میٹریل ازم کو بھی۔
البتہ عرصۂ سوالات میں بہت خوب باتیں سننے کو ملیں۔ ایک پروفیسر نے کہا یہ اصول بہت سے معاملات میں ناکافی ہے۔ یہ فقط لیبارٹری کی سائنس کے لیے درست ہوسکتاہے۔ اس اصول کی بنا پر نفسیاتی یا سوشل نظریات کو سُوڈوسائنس قرارنہیں دیا جاسکتا۔ نیچرل سائنس کے لیے الگ اور دیگر سائنسز کے لیے الگ الگ طریق ہائے کار ہوسکتے ہیں۔
بہاؤالدین زکریایونیورسٹی کے پہلے دن کے لیکچر میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ بھی شریک تھے۔ ایچ او ڈی فلسفہ ڈیپارمنٹ محترمہ میڈم رفعت اقبال صاحبہ نے اِن لیکچرز کا اہتمام کیا تھا۔ دوسرے دن ’’فینامینالوجی آف ٹائم اینڈ سپیس‘‘ اور تیسرے دن ’’کوانٹم ویئرڈنیس اینڈ رئیلٹی‘‘ ہمارے لیکچرز کے موضوعات تھے۔ یہ سیریز ’’امپارٹنس آف فلاسفی‘‘ کے عنوان کے تحت شروع کی گئی تھی اور اس میں میرا کردار فقط فلاسفی آف سائنس تک محدود تھا۔ فلاسفی آف سائنس کو چھوڑ کر بھی فلسفہ ڈیپارٹمنٹ بی زیڈ یو امپارٹینس آف فلاسفی کے عنوان سے دیگر لیکچرز کا اہتمام کررہا ہے۔
ہماری یونیورسٹیوں سے فلسفہ کا جنازہ نکلے لگ بھگ چالیس سال ہونے کو آئے ہیں جب محترمہ میڈم رفعت اقبال نے ایک مشنری جذبے کے تحت اپنی یونیورسٹی کے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے احیا کی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ میری دلی دعا ہےکہ میڈم کے خوابوں کو تعبیر ملے اورہمارے ہاں بھی فلسفہ و منطق متعارف ہوسکیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے انگلش اور اردو ڈیپارٹمنٹس نے لسانیات کی تعلیم کی غرض سے فلسفہ کی ایک شاخ یعنی لسانیات کا ہلکا پھلکا تعارف جاری رکھا اور یوں ڈاکٹر ناصر عباس نیر سمیت کئی دیگر نوجوانوں کی قابل قدر کتب شائع ہوئیں۔ لیکن فلسفے کی باقی شاخوں کو دوسرے مارشل لا کے عہد میں ایسا دیمک لگا کہ کہیں بھی، ایک بھی شاخ باقی نہ بچی۔ اس سال حکومت نے ڈگری کالجوں میں بھی نئے سرے سے فلسفہ کے لیکچرار بھرتی کیے اور یونیورسٹیوں میں بی زیڈ یو نے بھی اپنے وی سی کی تائید سے احیائے فلسفہ کا بِیڑا اُٹھایا۔ جو کہ ایک نہایت مستحسن اقدام ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“