بزدل انڈیا میں رہنا ہمیں منظور نہیں ..
پونیہ پرسون باجبایی نے آج تک چینل میں رام دیو انڈسٹریلسٹ سے سوال کیا پوچھے ، انکو آج تک سے نکال باہر کیا گیا . ائے بی پی نیوز میں ماسٹر سٹروک کے ذریعہ مودی کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تو وہاں سے بھی نکال دئے گئے ..ابھیسار شرما کو بھی سچ بولنے کی سزا دی گیی مودی حکومت میں ہم جھوٹ اور فریب کو فروغ دے رہے ہیں .ایک خطرناک ایمرجنسی نافذ ہے جہاں سچ بولنے کی اجازت نہیں .اسی لئے رویش کمار نے ایک آواز بلند کی ، کیا آپ بزدل انڈیا میں رہیں گے ؟اسکا جواب ہے ، پورے ہندوستان کو اٹھ کر اس بزدل انڈیا سے لڑنا ہوگا .بکاؤ میڈیا کے خلاف اب بڑی لڑایی کی ضرورت ہے ..حکومت کو یہ گنتی کے چند نام بھی گوارا نہیں جو بکے ہوئے لوگوں کے درمیان بھی سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ..یہ سچ بولنے والے کھو گئے تو ہماری زمین مزید تنگ ہو جاےگی ..
آر ایس ایس کی ساٹھ ہزار سے زیادہ شاخیں ان دنوں زہر اگل رہی ہیں .کہیں مسلمانوں کی ہلاکت کے منصوبے بناہے جا رہے ہیں اور کہیں تصور کی نا پاک دنیا میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا جشن منایا جا رہا ہے ..یہ سب ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی پولیس کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اب یقین کرنے کے سوا کویی چارہ نہیں کہ اس کاروبار میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں .. ان چار برسوں میں پہلی بار یہ بحث بھی شروع ہوئی کہ عام ہندو مذھب مودی کے ہندو مذھب سے مختلف ہے .یہ بات ممتا بنرجی ، ششی تھرور ، مایا وتی ، اکھلیش یادو ، راہل گاندھی تک کیی کیی بار دہرا چکے ہیں . ہندو مذھب کی بنیاد میں تشدد کا کویی عمل دخل نہیں ہے .آر ایس ایس اور مودی کا ہندتو اس وقت ملک کو جس سمت بہا لے جا رہا ہے ، وہاں تشدد کی رفتار نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے .ممتا بنرجی نے جب یہ بیان دیا تو اس بیان کو بھی آر ایس ایس نے ملک سے غداری کا جذبہ قرار دیا اور بی جے پی بھول گیی کہ آر ایس ایس کی ہزاروں شاخیں ، ایک دن میں ہزاروں بار جس طرح کھلے عام ہلاکت اور نفرت کی سیاست کر رہی ہیں ، در اصل ایسے اشتعال انگیز بیان دینے والے نہ صرف سخت سزا کے مستحق ہیں بلکہ انکے خوفناک کارنامے اس لایق ہیں کہ عدلیہ ایسے مجرموں اور قاتلوں کو ملک کا غدار قرار دے .ہجومی تشدد برپا کرنے والے ، گاہے کے نام پر ہتیا کرنے والے آج سر بلند کیے گھوم رھے ہیں .انکو نمائشی سزا بھی ملتی ہے اور یہ شان سے رہا ہوتے ہیں تو بی جے پی کے لیڈران انکی تاج پوشی کے لئے بھی تیار رہتے ہیں ..کیا عام ہندوؤں کی نظر ان واقعات پر نہیں ہے ؟ کیا مذھب کی آگ لگا کر ، مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکا کر یہ فسطائی طاقت ملک کے تمام ہندوؤں کا دل جیت لے گی ؟ کیا آر ایس ایس کی چار برسوں کی گھنونی سیاست صدیوں کی ملت کے چیتھڑے اڑا دیگی ؟ جبکہ عام ہندو بھی مودی حکومت کی تمام نا کامیوں سے واقف ہے ..عام ہندو بھی ملک کو خانہ جنگی کی طرف جاتا ہوا دیکھ رہا ہے ..
تاریخ کے صفحے پلٹتا ہوں تو گویٹے کے مشہور ڈرامے فاوسٹ سے لے کر ہٹلر کی خوں آشام کہانیوں کے اوراق نظروں کے سامنے ہوتے ہیں … آر ایل سٹوینسن کے مشہور ناول ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ کا کردار ہٹلر اور مودی کی طرح رنگ بدلتا ہوا سامنے ہوتا ہے ..ایک انسان کے باطن میں پوشیدہ ایک بیڈ مین یا ڈریکولا .. کیا ایک پوری تنظیم اس وقت ڈریکولا یا ڈاکٹر جیکل کے جسم میں پوشیدہ بری روح بن کر ہندوستان کی اقلیتوں کا خون چوس رہی ہے ..؟ اور وہ بھی کھلے عام ؟ ایک مہذب عھد میں ، جہاں اقوام متحدہ ، انٹرنیشنل قانون ، انسانی حقوق جیسی تنظیمیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں ..؟ پورا ہندوستان ایک خونی ویمپائر کے تماشے کو بند آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟
انیس سو تینتیس میں، ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں طاقت حاصل کی اور ایک نسل پرست سلطنت قائم کی، جس میں یہودیوں کو ذیلی انسان قرار دیا گیا اور ہٹلر کی خوفناک تانا شاہی نے انہیں انسانی نسل کا حصہ نہیں سمجھا. جرمنی کی طرف سے 1939 میں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا … اس کے فوجیوں نے بعض علاقوں میں یہودیوں کا پیچھا شروع کیا. انہیں کام کرنے کے لۓ، انہیں جمع کرنے اور انہیں مارنے کے لئے خصوصی کیمپوں کا انتظام کیا گیا تھا، . یہودیوں کو ان خطرناک کیمپوں میں لے جایا جاتا اور بند کمرے میں رکھا جاتا ،اذیت دی جاتی .. گیس چیمبر میں انکو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا .. جو یہودی کام کے قابل نہیںہوتے تھے تھے، انھیں گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا .، باقی یہودیوں بے روزگاری ، فاقے ، بھوک اور بیماری سے مر جاتے .ہٹلر دستاویزات نے انکشاف کیا کہ جنگ کے بعد ہٹلر کا مقصد یہودیوں کو ساری دنیا سےختم کرنا تھا.
فلسطین ، افغانستان ، عراق ، لیبیا ، میانمار کی کہانیاں کیا اس گیس چیمبر سے مختلف ہیں ..؟آسام کے چالیس لاکھ لوگوں کو بے شناخت کرنا کیا میانمار اور شام بنانے کی تیاری نہیں ہے ..)
جنگ کے چھ برسوں کے درمیان نازیوں نے تقریبا 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا، جن میں سے پندرہ لاکھ بچے تھے. وقت بدلا .یہودی قوم زندہ رہی .تعلیم اور ٹکنالوجی کو اپنایا اور عروج کو پنہچی تو تانا شاہی کا وہی صفحہ لکھا جو کبھی ہٹلر نے لکھا تھا . اسرائیل نے ایک تاریخ کو فراموش کیا اور اس سے بھی بد تر تاریخ لکھنے کا فیصلہ کیا .کبھی یہودی نشانے پر تھے ، آج عالمی سیاست میں مسلمان نشانے پر ہیں .مودی اور آر ایس ایس کی جرات اس لئے بھی بڑھی کہ امریکہ سے ، چین ،روس ، فرانس تک مسلمانوں سے کویی ہمدردی نہیں رکھتے اور اس وقت عالمی سیاست مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرانے کا کردار ادا کر رہی ہے .
مسلمان تاریخ کے بے رحم موڑ پر کھڑا ہے .اے بی پی سے ملند کھاندیکر اور پن پرسن باجپیی کی چھٹی ہو گیی .پرسون باجپیی نے ماسٹر سٹروک پروگرام کے ذریعہ ہم مردہ پرست ہندوستانیوں کا حوصلہ جیتا تھا .لیکن ایسے جوان مرد صحافی حکومت کو قبول نہیں ہیں . ابھیسار شرما کو بھی لمبی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے . ہے ،رویش کمار بھی آزادی سے اظہار خیال نہیں کر سکتے .٢٠١٩ سے پہلے حکومت اپنی ناکامیوں کی کہانی ہندوستانی عوام کو نہیں سنانا چاہتی . اب جو میڈیا ہے وہ مسلمانوں سے نفرت تقسیم کرنے کے لئے چھٹے سانڈ کی طرح آزاد ..اظہار راہے کی آزادی کے قتل کا دردناک منظر دیکھنے کے لئے ہم زندہ ہیں ، اور یہ داستان کسی گیس چیمبر سے کم زہریلی نہیں ہے ..
آیین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کا گواہ پورا ہندوستان ہے .سب سے پہلے ملک میں عدم تحمل کا مظاہرہ ہوا .کم تجربہ کار ادیبوں نے ایوارڈ واپس کیے مگر حکومت کے شاطر پینتروں سے شکست کھا گئے .اس مظاہرے کا مذاق بنانے کی کوشش کی گیی . ہندوستان اس وقت چونک گیا جب سپریم کورٹ کے چار سینیر ججیز عوام کے سامنے اہے اور اس بات کا کھلے دل سے اقرار کیا کہ ہم اپنی بات نہیں کہیں گے تو آنے والی نسلیں ہمیں بزدل تصور کریں گی .اب ملک کے عظیم سائنس دانوں نے بغاوت کی ہے ، کہ سائنس اور ٹکنالوجی کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے .ہم سب کو مل کر ملک کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے ..سوشل میڈیا نفرت کا سوداگر بن کر سامنے آیا ہے .. اہم موضوعات غایب ہیں ..یہاں تک کہ بہار کے مظفر پور میں پینتیس بچیوں کو ہوس کا نشانہ بناہے جانے کے باوجود کویی ہلچل نہیں ..بوفورس سے کہیں بڑا دھماکا رافیل کی شکل میں سامنے آ چکا ہے ، اب کویی ابھیسار یا پرسون حقایق کا ماسٹر سٹروک لے کر نہیں اے گا ، ہندوستان کو حکومت ، میڈیا ،اور سوشل میڈیا نے مل کر اندھا بنانے کی تیاری مکمل کر لی ہے ..اس اندھی بساط پر مودی کا فرضی وکاس کھڑا ہے ..
اخبار انکا ، میڈیا انکا ، سوشل میڈیا انکا ، پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا انکی ملکیت ..ای وی ایم انکا ..دیش بھکتی انکی ، ہندو راشٹ ان کا ….اور باقی تماشا بین …
کیا ہم اس خوفناک صورت حال سے دو دو ہاتھ کر سکیںگے ؟ کیا اپازیشن اس فسطائی طاقت کا مقابلہ کر سکے گی …؟
فی الحال زمین مسلمانوں کے لئے سرخ ہے ..اس سرخی کے مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے … مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے لئے پنکج راوت جیسے لوگ تیار .. کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس مہم سے وابستہ بھکت مسلمانوں کے خون کے پیاسے کیوں ہیں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔