موجُودہ مکان میں شِفٹ ہوا تو اپنے پلاٹ کی سڑک والی سائیڈ پہ بیڈ منٹن کورٹ بنا لی ۔ جب بھی فارغ ہوتا ، وہیں بیڈ منٹن کھیلتا اور یا سڑک کنارے بیٹھ جاتا۔
اندازاً ساتویں ، آٹھویں کلاس کی ایک بیٹی سامنے والی سڑک سے گُزرا کرتی تھی ۔ اِدھر میری بیٹیوں نے سکول کے لئے نکلنا ۔ اُدھر برقعہ پہنے اُس بچی نے سکول جا رہے ہونا ۔ اِس آنے جانے کو ایک ، ڈیڑھ سال گُزرا ، میری دونوں بیٹیوں کی شادیاں ہو گئیں۔
بیٹیوں کی رخصتی کے تیسرے چوتھے دن آفس کے لئے گھر سے نکلا ۔ دیکھا تو وہ بچی سولہ سترہ سال کے ایک لڑکے پیچھے سائیکل پہ بیٹھی کہیں جا رہی تھی ۔ لڑکے کے کپڑوں اور بیٹی کے جوتوں نے مُجھے بتایا کہ بیٹی کی آج کل میں ہی شادی ہوئی اور لڑکا اِس کا خاوند ہے۔
دل میں ایک دم پیار کا طوفان سا اُمنڈ آیا ، جیپ وہیں سڑک کنارے کھڑی کی اور واپس گھر آ کر نیم کے اُسی درخت نیچے بیٹھ کر اس بیٹی کے لئے دعا کی جس درخت ساتھ لگ کر اپنی بیٹیوں کی رُخصتی پہ روتا رہا تھا۔
کُچھ عرصہ بعد اللّٰہ پاک نے مُجھے نواسی دی ۔ گاؤں میں نواسی کو مل کر واپس آیا تو دیکھا کہ برقعے والی وہ بچی کِسی نوزائیدہ کو سینے سے لگائے میرے گھر سامنے سے گُزر رہی ۔ بچی کا چہرہ تو میں نے کبھی دیکھا ہی نا تھا ، بس برقعے کی حد تک پہچان تھی ۔ بیٹی کی چال میں بہت کمزوری اور برقعہ یوں لگ رہا جیسے مہینوں سے دھویا ہی نا ہو ۔ اب کہ وہ بچی گلی سے سڑک پہ آ کر دائیں طرف بازار کو مُڑی حالانکہ پہلے بائیں مڑتی تھی ۔ شاید اپنے بچے کو ڈاکٹر پاس لے جا رہی تھی۔
مزید چند سال گُزرے ، اب میں نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ چُکا اور اپنے بزنس ہال کی تعمیر شروع کر دی تھی ۔ وہ بیٹی بھی گاہے بگاہے اپنی بیٹی کو ساتھ لیئے وہاں سے گزرتی رہتی ۔
ایک دن صُبح دیواروں کی ترائی کر رہا تو دیکھا کہ اُس بیٹی نے اپنی تین چار سالہ بیٹی کا بازو پکڑا ہوا ۔ چھوٹی بچی نے سکول یونیفارم پہنی ہوئی اور ماں ساتھ گھسٹتی ، روتی روتی سکول جا رہی ۔ اندازہ لگایا کہ شاید آج اِس چھوٹی کا سکول میں پہلا دن ہے ۔
اِس بچی کو سکول جاتے دیکھ کر چند منٹ بعد میں نے گاؤں میں بیاہی اپنی بیٹی کو فون کیا کہ سُناؤ بیٹی ، چھوٹی کو سکول داخل کرایا کہ نہیں تو وہ بولی کہ ابو جی ، داخل کرا دی ، آج اُسکا سکول میں پہلا دن ہے ۔
وہ برقعہ پوش بیٹی تقریباً روز ہی چھوٹی کو سکول چھوڑنے یا لینے کے لئیے آتی جاتی نظر آتی ۔ پچھلے چار پانچ سالوں میں اس بیٹی کا بُرقعہ نا بدلا ، اب تو بُرقعے کا رنگ بھی اُڑ چکا اور کپڑا گَل جانے سے ایک دو جگہ پیوند لگ چُکے تھے ۔ میکے کا بنوایا وہ ہی بُرقعہ ابھی تک چل رہا تھا جو بچی ساتویں ، آٹھویں کلاس میں اوڑھ کر سکول جایا کرتی تھی ۔
مزید چند دن بعد بچی کا معمول کُچھ بدلا ، سکول سے لاتے یا لے جاتے وہ اپنی بیٹی کو اُٹھا لیتی ۔ بات کُچھ سمجھ نہیں آئی کہ چار پانچ سال کی صحت مند اِسکی بیٹی ہے ، تو یہ اُسے اُٹھا کر کیوں لے جاتی ۔
ایک دن دور سے اُن ماں بیٹی کو آتے دیکھا ۔ چھوٹی بچی ہر چند قدم بعد جُھک کر اپنے جوتے اُتارتی ، اُنہیں کُچھ کرتی اور پھر دوبارہ پہن لیتی ۔ میرے نزدیک آ کر بچی کی والدہ نے اپنی بیٹی اٹھا لی اور گلی میں کافی آگے جا کر نیچے اتار دی ۔ چھوٹی پیر گَھسیٹ گَھسیٹ کر ماں ساتھ چلنے لگ گئی ۔ تَب مُجھے ساری بات سمجھ آ گئی کہ بچی کو اُٹھا کر چلنے میں کیا راز ہے ۔ چھوٹی بچی کُچھ دِنوں سے ٹوٹے جوتے پہن کر سکول جا رہی تھی اور ماں پاس نئے جوتے خریدنے کے پیسے نا تھے ۔
اِسکے چند دن بعد ، آج سے تقریباً دو سال پہلے ، جب میں ہال کے فرنٹ پہ ٹَف ٹائلیں لگوا رہا تھا تو اُن ماں بیٹی کو آخری بار دیکھا ۔
چھوٹی بچی کے پیروں میں اب چمکتے ، دَمکتے نئے جوتے اور کاندھے پر نیا سکول بیگ تھا ۔ اِس خُوشی میں وہ نَنھی شہزادی پُھدک پُھدک کر دوڑتی کَبھی ماں کے آگے چلی جاتی ، کَبھی پیچھے ۔ بہت پیاری گڑیا تھی ، بالکل میری نواسی جیسی ۔
بچی کا نیا جوتا اور سکول بیگ لیتے لیتے اُس کی ماں کے چھ سات سال پرانے برقعے پہ تین چار ٹانکوں کا اضافہ اور بُرقعہ ایسے ہو گیا جیسے چیتھڑے ہوں ۔
بالکل علم نہیں کہ وہ پردہ دار بچی کون تھی ، بس اتنا یقین ہے کہ کسی بُہت ہی عالیشان چمن کا مہکتا ہوا پُھول اور مُجھ گُنہگار کی بیٹی تھی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...