اصل انگریزی تحریر: طاہر مہدی
ترجمہ: سفیراللہ خان
نوٹ:بڑی بریکٹ میں دئیے گئے جملے مصنف کے نہیں، لالا جی نے اپنی طرف سے شامل کئے ہیں۔
میں میانمر [پاکستان میں زیادہ تر لوگ اس ملک کو برما کے نام سے جانتے ہیں] کے حالات پر ایک طویل عرصے سے نظر رکھے ہوئے ہوں اور اس کی وجہ میرے دل میں سو کی(Suu Kyi) کے لئے احترام ہے ۔ تاہم اب کےمیانمر میں میری دلچسپی کی وجہ کچھ اور ہے۔ اس بار میری دلچسپی کا مرکز روہنگیا لوگ ہیں۔ جوں جوں میری معلومات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ کہانی توبہت جانی پہچانی سی ہے۔
برما، جس کا حالیہ نام میانمر ہے، اپنی تاریخ میں بہت کم موقعوں پر ایک متحدہ مملکت کے طور پر رہ سکا ہے۔ اس سر زمین پر کئی نسلوں کے لوگ آباد ہیں جو صدیوں سے ایک دوسرے سے لڑ تے آئے ہیں۔ برما کی نصف سے زیادہ آبادی "برمن” نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے[پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی پنجابیوں پر مشتمل ہے]۔ برما کے تین ایسے عظیم بادشاہ گزرے ہیں جو اس ملک کو واحد سلطنت بنانے میں کامیاب ہو سکے اگرچہ یہ کامیابیاں تینوں مرتبہ ہی کچھ زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوئیں۔ یہ تینوں بادشاہ "برمن ” نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
1885 میں انگریزوں نے برمن قوم کو شکست دی اور اس ملک کو بھی سلطنت برطانیہ کا حصہ بنا دیا۔ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے انہوں نے وہی کیا جس میں وہ بہت مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک گروہ کو دوسرے سے لڑا دیا؛ کچھ پر مارشل ریس ہونے کا ٹھپہ لگا دیا اور کچھ کو جاگیریں عطا کر دیں؛ باقی بچ جانے والے فضول لوگوں کو جنگلی قرار دے کر ایک طرف ہٹا دیا۔ دوسری جنگِ عظیم تک برما میں نسلی منافرت انتہا کو پہنچ چکی تھی اور کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد برما ایک مملکت کے طور پر قائم رہ سکے گا۔ کیا یہ ساری کہانی جانی پہچانی سی نہیں لگتی۔ اس خطے کے دیگر ممالک کی صورت حال بھی اُس وقت کچھ ایسی ہی نہیں تھی؟
سو کی(Suu Kyi) کے والد آنگ سان(Aung San)، جو کہ برما کی تحریک آزادی کا ایک عظیم رہنما تھا، نے ان گروہوں کے لوگوں کو ایک کانفرنس میں اکٹھا کیا۔ ان لوگوں نے ایک معاہدے پر دستخط کئےجسے پینگ لانگ معاہدے(Panglong Agreement) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت برما کے مختلف گروہوں کے درمیان برما میں جمہوری نظام کے بنیادی خدوخال پر اتفاق ہو گیا۔ تاہم آنگ سان(Aung San) کو برما کی آزادی سے چند مہینے پہلے جنوری 1948 میں قتل کر دیا گیا [جناح پاکستان کے آزادی کے چند ماہ بعد وفات پاگئے، اس حوالے سے بھی شکوک و شبہات موجود ہیں کہ انہیں قتل کر دیا گیا تھا]۔ اس کے جانشین یُونونے 1962 تک حکومت کی مگر پینگ لانگ معاہدے(Panglong Agreement) پر ٹھیک سے عمل درآمد نہ کر پایا۔ اُسے لگتا تھا کہ جمہوریت برما میں نہیں چل سکتی اور اکثر و بیشتر اختلاف کرنے والوں کے خلاف اور امن و امان کی صورت حال ٹھیک رکھنے کے لئے فوج کو بلا لیتا تھا۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان نے اپنا پہلا آئین بنانے میں کتنا وقت لیا تھا اور کیوں؟ بنگالیوں، پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں اور بلوچوں میں سے کوئی بھی دوسرے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں تھا اور پاکستان کے قیام کےبعد پہلا عشرہ (دس سال) اس بحث میں گزر گیا کہ کیا پاکستان ایک قوم ہے، اس کی کون سی زبان ہوگی اور کس کو کتنا حصہ ملے گا۔
یُونو(U Nu) اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک لوگ اپنی شناخت بطور "برمن”، "شان”، "چِن”، "کارِن” وغیرہ کے طور پر کرتے رہیں گے[یہ وہاں کے مختلف قبیلوں کے نام ہیں]۔ چونکہ زیادہ ترلوگ بدھ مذہب کے پیروکار تھے تو اُس نے سوچا کہ مذہب کی بنیاد پرسب لوگوں کو اکٹھا کر کے "ایک قوم” بنایا جا سکتا ہے یعنی ایک مذہب ، ایک قوم۔ یُو نو(U Nu) نے بدھ مذہب کو برما کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔ کچھ یاد آیا…قراردادِمقاصد… جس میں یہ طے کیا گیا کہ اسلام ہی پاکستان کی بنیاد ہے اور یہی وہ قوت ہے جو صوبوں کے سیاسی اختلافات سے بالا تر ہو کر سب کو متحد کر دے گی۔ دونوں ملکوں میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں خوف کا شکار ہو گئیں اور جن کے پاس وسائل تھے وہ اِن ملکوں سے ہجرت کر گئے۔
تاہم یُونو(U Nu) کا قومی تعمیر کا یہ نسخہ کوئی معجزہ نہ دکھا سکا۔ ایک پاکستانی کے لئے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ خیر اُس نے پھر فوج کو آوازدی اور پھر فوج نے وہی کیا جو اُسے کرنا تھا۔ اُس نے یُونو(U Nu) کو بھی فارغ کر دیا اور جمہوریت اور سویلین حکومت کا تماشا بھی ختم کر دیا۔ بالکل ایسے ہی صدر سکندر مرزا نے 1958 میں جنرل ایوب کو دعوت دی تھی کہ صوبوں میں اختلافات ختم کرائے اور ملک کی بقاء کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ جنرل ایوب نے سب سے پہلے سکندر مرزا کو راستے سے ہٹایا اور پھر پورا سیاسی نظام ہی لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ وہ ملک کو مزید دس برس اکٹھا رکھنے میں کامیاب رہا۔ جنرل نے وِن(Ne Win) نے بھی برما کو ایک مملکت کے طور پر قائم رکھنے کے لئےطاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا۔ وہ 1962 میں حکومت پر قابض ہوا اور 1980 کی دہائی کے آخر تک براجمان رہا (برما کے لو گ بے چارے… جن کو اس دوران میں آمریت سے نجات کا کوئی موقع نہیں ملا جیسا کہ پاکستان کو بھٹو کی شکل میں نصیب ہوا)۔
برما کی فوج کو بھی جلد ہی اپنی غیر جمہوری حکومت کو قابل قبول بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کے لئے ایک محفوظ طریقہ یہ نظر آیا کہ مذہبی اداروں اور اُن کے رہنماؤں کی عنایات خرید لی جائیں۔ برما کی فوج نے بدھ مذہب کی عبادت گاہوں کو دل کھول کرعطیات دینا شروع کر دیئے اور آج بھی دے رہی ہے۔ فوج ملک بھر میں بڑے بڑے پاگوڈا بناتی ہے جو سونے سے بھرے ہوتے ہیں اور سرکاری سطح پر مذہبی رسومات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ ترین سرکاری افسران نہ صرف مذہبی ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ مذہبی نظر بھی آئیں کیونکہ اُن کے خیال میں اس طرح کرنے سے وہ لوگوں کی نظروں میں اپنے عہدے کے زیادہ اہل ہو جاتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس میں بھی پاکستانیوں کے لئے کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیوں کہ بھٹو سے لے کر ہر حکمران نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ پہلے حکمرانوں سے زیادہ مذہبی نظر آئے۔
اپنے دورِحکومت کے اختتام کے قریب جنرل نے وِن(Ne Win) نے ایسے قوانین متعارف کروا دیئے جن کے ذریعے روہنگیا قبیلے کو غیر برمی شہری قرار دے کر انہیں اُن کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا۔ روہنگیا کو آسانی سے ہدف بنایا جا سکتا تھا کیوں کہ معاشرے میں کوئی اُن کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ وہ کسی کام کے نہیں تھے اور فوجی حکومت کو پتہ تھا کہ وہ مزاحمت نہیں کر سکیں گے۔ اس قانون نے حکومت کی بدھ مت سے وابستگی پر یقین کی مہر ثبت کر دی اور روہنگیا مسلمانوں کو بدھ مت کے پیروکار اراکانی قبیلے سے لڑوا دیا۔ پاکستان کے آئین میں دوسری ترمیم نے بے سہارا احمدیوں کو بھٹو حکومت کے لئے قربانی کا بکرا بنا دیا۔ بھٹو دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کو خوش کرنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ 1974 میں آئین میں دوسری ترمیم کر کے احمدیوں کو کافرقرار دے دیا گیا۔ ایک ایسی ریاست جو کسی ایک مخصوص مذہب کو تسلیم کرتی ہو وہاں کسی گروہ کو کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ باقی سارے گروہوں کو اِس بات کی کھلی اجازت ہے کہ وہ اُس کافر گروہ کے لوگوں کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں۔
خیر اکیسویں صدی میں مظلوم روہنگیا کو ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ برما میں تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائرموجود ہیں۔ دنیاء بھر میں 90 فیصد سرخ موتی یہیں سے نکالے جاتے ہیں اور کچھ اور اعلیٰ پائے کے قیمتی پتھر بھی یہاں دستیاب ہیں۔ برما کے جنگل دنیا بھر میں دستیاب تعمیراتی لکڑی کا 80 فیصد فراہم کرتے ہیں اور یہاں کے دریاؤں میں پانی سے بجلی بنانے کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ ان وسائل کی اہمیت آج اس لئے اور بڑھ گئی کہ بھارت اور چین کی معیشتیں ترقی تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ یہ دونوں معاشی دیو برما کے ہمسائے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام وسائل اُن علاقوں میں پائے جاتے ہیں جہاں اقلیتی گروہ آباد ہیں جبکہ فوج اور دیگراعلیٰ عہدوں پر اکثریتی "برمن” نسل کے لوگ قابض ہیں۔ اراکان(Arakan) وہ علاقہ ہے جہاں چین، بھارت اور دیگر ممالک کی تیل اور گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں ںے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ اراکان(Arakan) کے باشندوں کے اکثریتی "برمن” نسل کے لوگوں کے ساتھ کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے تاہم وہ بھی بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ روہنگیا جو کہ اِسی خطے کے باسی ہیں مذہب کے لحاظ سے مسلمان ہیں۔
اراکان کے علاقے میں تشدد اور فساد فوجی حکومت کے مفاد میں ہے۔ ایک طرف تو وہ بدھ مذہب کے ماننے والوں کا ساتھ دے کر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ وہ بدھ مت پر پختہ ایمان رکھتی ہے۔ دوسری طرف اُسے ان فسادات کی وجہ سے اِس علاقے میں مداخلت کا بہانہ بھی مل جاتا ہے۔ حالیہ فسادات کے بعد اِس خطے میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف اراکان اور روہنگیا مذہبی اختلافات کی بنیاد پر لڑ جھگڑ رہے ہیں تو دوسری طرف برما کی فوج کو تیل کے خزانوں سے فیض یاب ہونے کا موقع مل گیا ہے۔ اب کیا مجھے برما کی اِس صورت حال اور پاکستان میں بلوچستان اور وہاں بسنے والی مذہبی اقلیت شیعہ ہزارا کے حالات کا موازنہ کرنے اور اِن خراب حالات کے معاشی و سیاسی فوائد بھی گنوانے پڑیں گے؟