سائنس کہتی ہے کہ اگر آپ کی لکھائی بدصورت ہے تو آپ ‘تخلیقی ذہن ‘ رکھتے ہیں۔
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر ہونہار لوگوں کی لکھائی خراب ہوتی ہے کیونکہ ان کے دماغ ان کے ہاتھوں سے زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں، اور دماغ کے تیز سوچ بچار کرنے کی وجہ سے انکے ہاتھوں کو اتنا موقع نہیں ملتا کہ وہ اپنی رائیٹنگ درست کرکے لکھیں۔
کچھ معاملات میں غلط لکھاوٹ بھی سنکی پن کی علامت ہے۔ لیکن بسا اوقات، خراب اور گندی لکھاوٹ اعلیٰ ذہانت کی علامت بھی مانی جاتی ہے، یعنی آپ کا قلم آپ کے دماغ کے مطابق نہیں رہ سکتا، دماغ آپکے قلم سے زیادہ تیز کام کررہا ہوتا ہے، اور دماغ کو اتنا موقع نہیں مل پاتا کہ وہ آپکی لکھائی درست کرنے کی الگ سے ہدایت دیں۔ اس لیے ایک تخلیقی، سوچ بچار کرنے والے بندے اور انفرادی زہنیت والے شخص کی لکھائی اکثر خراب ہی ملتی ہے۔ لہذا، اگر آپ کے پاس بدصورت لکھاوٹ ہے تو مایوس نہ ہوں۔ تخلیقی لکھاوٹ ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے انتہائی تخلیقی اور غیر معمولی ہیں۔ اکثر تاریخی مشہور شخصیات کی لکھائی بہت خراب تھی حالانکہ انکی زہانت میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا، جیسے البرٹ آئن اسٹائن، فرائیڈ اور نپولین بونا پارٹ کی لکھائی انتہائی خراب تھی۔
بدصورت لکھاوٹ ہمیشہ انفرادیت پسند ہوتی ہے کیونکہ اس قسم کا مصنف عام طور پر ایک آزاد مفکر ہوتا ہے۔یہ لوگ زیادہ تر معاشرے کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔
لہذا، اگر آپ کے پاس بدصورت لکھاوٹ ہے تو مایوس نہ ہوں۔ تخلیقی لکھاوٹ ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے انتہائی تخلیقی اور غیر معمولی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...