زمین پر برِاعظم اکٹھے تھے۔ زندگی پھل پول رہی تھی۔ پھر ایک لمبے عمل کے بعد نو کروڑ سال قبل افریقی اور انڈین پلیٹ سے ایک بڑا ٹکڑا مکمل طور پر الگ ہو گیا۔ یہ مڈغاسکر تھا۔
سال صدیاں بنے، صدیوں نے زمانوں کا روپ دھارا۔ زندگی اپنی اپنی ڈگر الگ شاخوں میں بٹنا شروع ہو گئی۔ کروڑوں سال بیتتے گئے۔ دنیا میں پھر انسان کی آمد ہوئی۔ انسان نے دنیا میں پھیلنا شروع کیا۔ افریقہ، یورپ، ایشیا، آسٹریلیا، شمالی امریکہ اور پھر جنوبی امریکہ۔ لیکن یہ حصہ انسان کی آنکھ سے اوجھل رہا۔ یہاں گھنا جنگل تھا جو منفرد طرزِ زندگی کا گھر تھا۔
پھر آج سے سترہ سو سال پہلے ساتھ تصویر میں لگے درخت کی پیدائش ہوئی۔ یہ درخت باؤباب کا ہے اور لمبی عمر رکھتا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب انسان نے یہاں پر پہلی بار قدم رکھا۔ یہ انڈونیشیا کے جزیرہ بورنیو سے آنے والی کشتیوں پر سوار ہو کر آبادکار تھے جو مون سون ہواؤں کی مدد سے کشتی رانی کر کے پہنچے تھے۔ چھوٹے جزائر کو چھوڑ کر نیوزی لینڈ کے علاوہ انسانوں سے آباد ہونے والا یہ آخری مقام ہے۔ انسانوں کی آمد یہاں پر پھلنے پھولنے والی زندگی کے لئے یہ اچھی خبر نہیں تھی۔ بڑے لیمور، مالاگاسی ہپوپوٹیمس، جائنٹ فوسا اور ہاتھی کے سائز کے پرندے جلد ہی ختم ہو گئے۔ آگ لگا کر ساحل کے ساتھ جنگلوں کا صفایا کیا گیا تا کہ اپنی پسند کی فصل لگائی جا سکے۔ یہ اس جزیرے پر انسان کی آمد کا اعلان تھا۔
دسویں صدی میں یہاں عرب پہلی بار آئے اور گیارہویں صدی میں افریقی۔ یہ اپنے ساتھ مویشی بھی لے کر آئے۔ آنے والوں کی نسلیں قبائل میں بٹ گئیں۔ پندرہویں صدی میں چاول کی فصل کا آغاز ہوا۔ شروع میں امن سے رہنے کے بعد قبائلی جنگوں کا آغاز ہوا۔ الگ سلطنتیں بنیں۔ سینکڑوں سال کی کشمکش کے بعد 1787 میں ایک مرنیا کے شہزادے نے اپنی حریفوں کی شکست دے کر پورے جزیرے پر اپنی حکومت قائم کی اور اس جزیرے نے پہلی بار مڈغاسکر کا نام پایا۔
یورپی تاجروں اور پھر بحری قزاقوں کی آمد اٹھارہویں صدی میں شروع ہوئی۔ برِصغیر سے انڈیا اور پاکستان کے لوگوں نے تجارت کے لئے انیسویں صدی میں یہاں کا رخ کیا۔ یہاں پر غلاموں کی منڈیاں لگتی، مصالحوں اور دوسری اجناس کی تجارت ہوتی۔ غلاموں کی تجارت کا خاتمہ 1848 میں ہوا۔ فرانس نے ایک تنازعے کے بعد یہاں پر حملہ کر دیا اور پھر شاہی خاندان کی فوج کو شکست دے کر اسے 1883 میں اپنی کالونی بنا لیا۔ 1905 میں روس اور جاپان کی جنگ میں شکست کے بعد روس کے بحری بیڑوں نے یہاں پر پناہ لی۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہاں آزادی کی تحریک چلی اور 1960 میں یہ آزاد ملک بنا۔
آج سیاسی اور معاشی لحاظ سے مشکلات کا شکار مڈغاسکر ڈھائی کروڑ لوگوں کا گھر ہے۔ یہاں پر موجود پودوں اور جانوروں کی زندگی منفرد ہے۔ یہاں پائی جانے والی نوے فیصد انواع ایسی ہیں، جو صرف یہاں سے خاص ہیں۔ دنیا میں کہیں اور نہیں۔ یہاں پر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پاکستانی اور بھارتی نژاد تاجروں کا کنٹرول ہے۔ افریقی اور انڈونیشین قبائل کی ملی جلی نسل یہاں اکثریت میں ہے۔ مشرقی افریقہ سے آنے والے دوسرا بڑا گروپ ہیں۔ فرنچ کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ روسی نژاد لوگ بھی یہاں ملتے ہیں۔ یہاں پر پھر سیاست اور معاشرت کی اپنی الگ کہانیاں ہیں۔ مڈغاسکر آج ایسا کیوں ہے جیسا نظر آتا ہے؟ یہ دو چار روز کی بات نہیں۔ لیکن اس کے آج کا ہر پہلو اس کے گزرے کل کی کچھ کہانیاں رکھتا ہے۔
انسانی آمد سے پہلے پیدا ہونے والا یہ درخت آج بھی زندہ ہے اور یہ 'دادی اماں' کے نام سے مشہور ہے۔ 2014 میں دوسرے کچھ باؤباب کے درختوں کے ساتھ اس کی عمر معلوم کی گئی۔
درخت کی عمر کے بارے میں
http://journals.plos.org/plosone/article…
مڈغاسکر کے منفرد پودے
https://en.wikipedia.org/wiki/Flora_of_Madagascar
مڈغاسکر کے منفرد جانور
https://en.wikipedia.org/wiki/Fauna_of_Madagascar
جنگلوں کو جلا کر کی جانے والی زراعت پر
https://www.thoughtco.com/slash-and-burn-agriculture-p2-143…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔