بڑھاپے کی نشانیاں
عموماً سفید بالوں کو بڑھاپے کی نشانی سمجھا جاتاہے حالانکہ ایسی بات نہیں ‘بال تو 60 سال کی جوانی میں بھی سفید ہوسکتے ہیں۔ بڑھاپے کا بالوں سے کوئی تعلق نہیں۔میری تفتیش کے مطابق بڑھاپا آنے سے پہلے اس کی کئی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں‘ عام طور پر لوگ اِن نشانیوں کی پرواہ نہیں کرتے اور خود کو جوانِ رعنا سمجھتے ہوئے بداحتیاطی والے اعمال کی طرف راغب رہتے ہیں ‘ ہوش اُس وقت آتا ہے جب کوئی راہگیر اچانک پوچھ لیتاہے کہ ’’بابا جی ٹائم کیا ہوا ہے؟‘‘۔خلق خدا کی بھلائی کے لیے میں بڑھاپے کی وہ تمام نشانیاں درج کر رہا ہوں جن کے ظاہر ہونے کا مطلب ہے کہ ’وہ جارہا ہے کوئی شب غم گذار کے‘۔یہ کھلی نشانیاں اُن سب لوگوں کے لیے ہیں جو بلاوجہ فیس بک پر لکھتے رہتے ہیں کہ ٹھنڈ کا اپنا ہی مزا ہے‘ حالانکہ روز رات کو گرم پانی کی بوتل کمر سے لگا کر سوتے ہیں۔بڑھاپے کا آغاز ہوتاہے تو اقوا لِ زریں اچھے لگنے لگتے ہیں‘کھلے گریبان والے لڑکے لوفر لگنے لگتے ہیں‘انگریزی علاج کی بجائے دیسی علاج پر یقین پختہ ہوجاتاہے‘ہر فلاپ فلم سُپرہٹ لگنے لگتی ہے‘باہر کے کھانے نقصان دہ لگنے لگتے ہیں‘محبوبہ کی بجائے منکوحہ اچھی لگنے لگتی ہے‘پرانے لطیفے مزا دینے لگتے ہیں‘فلم دیکھتے ہوئے ہیروئین کو ئی ڈائیلاگ بولے تو اکثر ساتھ بیٹھے بندے سے پوچھنا پڑتا ہے’’کیا کہا اِس نے؟‘‘۔شیوکرنا زہر لگنے لگتاہے‘ہر خوبصورت نوجوان مشکوک لگتاہے‘ڈبیوں والا کوٹ ہردل عزیز ہوجاتاہے‘سادگی کے بے شمار فوائد نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں‘تولیہ نہ ملے تو بنیان سے منہ پونچھنا بہتر لگنے لگتاہے‘چکن کی بجائے مچھلی میں افادیت نظر آنے لگتی ہے‘گرل فرینڈ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے توجہ کھانے پر زیادہ مرکوز رہتی ہے‘اجوائن‘ اُستوخدّوس‘ گوند قطیرا‘ ہرڑ وغیرہ کے درست ہجے لکھنا آجاتے ہیں‘شرٹ کی بجائے واسکٹ میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے‘سِکے علیحدہ ڈبے میں جمع کرنے کا شوق پیدا ہوجاتاہے‘سرسوں کا تیل سر پرلگانے کو جی چاہتا ہے‘رات تین بجے بھوک لگنے لگتی ہے‘کچن کی شیلف میں رکھی تمام چیزیں زبانی یاد ہوجاتی ہیں‘گہری نیلی پینٹ کے اوپر کالا کوٹ پہن کر یقین ہونے لگتاہے کہ کسی کو فرق نظر نہیں آئے گا‘چائے میں چینی کی بجائے چینی میں چائے ڈال کر پینے کو دل کرتاہے۔بیک وقت جماہی اور انگڑائی آنے لگتی ہے‘بار بار اپنے ہم عمر لوگوں کو بوڑھا کہنے سے تسکین ملنے لگتی ہے‘باتھ روم میں شیمپو‘ کنڈیشنر ‘ صابن اور ماؤتھ واش والے سٹینڈ میں چھوٹی قینچی کا اضافہ ہوجاتاہے‘فیس بک پر کسی لڑکی کی فرینڈ ریکوئسٹ آئے تو پکچر کی بجائے پروفائل دیکھنا زیادہ بہتر لگنے لگتاہے۔کھانے کے بعد ڈکار اور سونے کے بعد خراٹے آؤٹ آف کنٹرول ہوجاتے ہیں‘ہرخواب کے نازک موڑ پر آنکھ کھل جاتی ہے‘بٹنوں والا موبائل لمبی بیٹری ٹائمنگ کی وجہ سے اچھا لگنے لگتاہے‘ہر گھنٹے بعد قیلولہ کرنے کو دل کرتاہے‘اکیلے سونے سے ڈر لگتاہے کہ کہیں جنات حملہ آور نہ ہوجائیں‘پانی والی موٹر کی فکرلاحق رہتی ہے کہ آئل کم نہ ہوگیا ہو‘نہانے والے شاور کا ڈھکن کھول کر اُس کے بندسوراخوں کو سوئی سے کھولنامفید کام لگنے لگتاہے‘پرانی جرسی کو فرش والے پوچے میں تبدیل ہوتے دیکھ کر آہ نکل جاتی ہے کہ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘۔بادشاہوں والے ڈراموں کی قسطیں باقاعدگی سے دیکھی جانے لگتی ہیں‘آدھی رات کو وہم اٹھنے لگتاہے کہ پتا نہیں مین گیٹ کا تالہ بند کیا بھی ہے یا نہیں‘ہر رومانٹک فلم دیکھی دیکھی سی لگنے لگتی ہے‘سلوسٹر سٹالن‘ آرنلڈ‘ راجر مور وغیرہ کی تازہ تصاویر دیکھ کر بے اختیار منہ سے نکلتاہے’’یہ کیا بن گئے ہیں‘‘۔موبائل میں بیگم کا نمبر اُس کے نام کی بجائے ’wife‘ کے نام سے save ہوجاتاہے‘واٹس ایپ میںآنے والی ’اچھی وڈیوز‘ رات کو سونے سے پہلے ڈیلیٹ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔بیڈ روم میں سائیڈ ٹیبل پر بطو رِخاص ایئرفریشنررکھا جانے لگتاہے‘موبائل میں ٹیکسٹ سائز روز بروز بڑا ہونے لگتاہے‘ہر مہینے باقاعدگی سے نہانے کو دل کرتاہے‘گھر کی ٹونٹی‘ استری‘ چولہا‘ پائپ وغیرہ خود ٹھیک کرنے کو جی چاہتاہے‘نیا موبائل وغیرہ خریدنے کی بجائے ٹول باکس خریدنے میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے‘بٹوے میں شناختی کارڈ کی کم ازکم پانچ فوٹو کاپیاں موجود رہنے لگتی ہیں‘اے ٹی ایم سے پانچ سو کا نوٹ نکلوا کر دو تین دفعہ گننے کی بیماری لگ جاتی ہے۔خالص شہد ڈھونڈنے کا شوق پیدا ہوجاتاہے‘ شادی کا سوٹ پہننا اچھا لگنے لگتاہے‘ مدری روٹی کی ڈیمانڈ ہونے لگتی ہے‘ ہر کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کی ضرورت پیش آنے لگتی ہے‘ گرمیوں میں برف کے پھٹے پر بیٹھنا اور سردیوں میں ہیٹر کے اوپر تشریف رکھنا سکون افزا محسوس ہونے لگتاہے۔پرانے کپڑے نئے لگنے لگتے ہیں‘ ٹی وی دیکھتے ہوئے نیند آنے لگتی ہے‘ پاجامہ پہننا ہر مشکل کا حل لگنے لگتاہے‘ صوفے سے اٹھنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر بیگم کی مدد لینا پڑتی ہے۔ہیرسٹائل بنوانے کی بجائے بال چھوٹے کروانا زیادہ بہتر لگتاہے۔انگلیوں کے کڑاکے نکالنے سے دلی مسرت نصیب ہوتی ہے‘ چیونگم کی بجائے دنداسہ اچھا لگنے لگتاہے‘وقت پر کھانا کھانے کی عادت ہونے لگتی ہے‘ موبائل پر مسڈ کالیں زیادہ آنے لگتی ہیں‘ کوئی گاڑی میں ٹکر بھی دے مارے تو لڑنے کی بجائے معاملہ رفع دفع کرنا ٹھیک لگنے لگتاہے‘ ناشتے میں پراٹھے کی بجائے چائے کے ساتھ پاپے زیادہ طاقتور غذا لگنے لگتے ہیں‘ چھوٹا سا گھر بھی بہت بڑا لگنے لگتاہے ‘بچوں کو بہت سارا وقت دینے کو جی چاہتا ہے‘ گھریلو مصروفیات بڑھ جاتی ہیں‘ بیگم کے ساتھ رشتہ داروں کی شادی میں جانے میں مزا آنے لگتاہے‘ میڈیکل سٹور سے ڈاکٹر ی نسخے کے بغیر بھی نیند کی گولیاں آسانی سے ملنے لگتی ہیں‘ بازار میں کسی خاتون سے ٹکرا جانے کی صورت میں خاتون خود معذرت کرلیتی ہے‘بس میں سوار ہوتے وقت کوئی نوجوان سیٹ خالی کردیتاہے‘ کھانے کی ہر چیز جعلی لگنے لگتی ہے‘ ٹشو پیپر کی بجائے ٹشو رول پسند آنے لگتے ہیں‘ میاں بیوی دونوں اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں کہ آپس میں کبھی نہیں لڑنا چاہیے۔یاداشت اتنی بہتر ہوجاتی ہے کہ دوستوں کے درمیان گپیں لگاتے ہوئے بھی یکدم یاد آجاتاہے کہ دوائی کا ٹائم ہوگیا ہے۔۔۔!!!
اگر آپ میں بھی یہ نشانیاں نمودار ہورہی ہیں تو خدا کے لیے کسی کو بتانے سے پرہیز کریں اورفوری طور پر اپنی روٹین بدل لیں۔اگرچہ اس سے آپ کا بڑھاپا تو نہیں رکے گا لیکن دل کو تسلی رہے گی اورلوگوں کو بھی شک نہیں گذرے گا کہ آپ اصل میں بوڑھے ہورہے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے یہ ساری معلومات کیسے حاصل ہوئیں ‘ حالانکہ میں نے شروع میں عرض کی بھی تھی کہ یہ میری تفتیش و تحقیق کا نتیجہ ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب میں بوڑھاہونے لگوں گا تو کیا میری بھی یہی نشانیاں نمودار ہوں گی؟ کیا یہ تحقیقات مجھ پر بھی فٹ بیٹھیں گی؟خیرجب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔۔۔ابھی تو میں جوان ہوں‘ بلکہ نوجوان ہوں اورزندگی انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔میں کچھ اور باتیں بھی آپ کو بتانا چاہتا تھا لیکن گیٹ پر بیل ہوئی ہے ‘ میرا خیال ہے میں نے جو ٹول باکس آن لائن منگوایا تھا وہ آگیا ہے۔۔۔ٹول باکس بہت اچھی چیز ہے‘ گھر کی چھوٹی موٹی چیزیں بندہ خود ہی مرمت کرلیتا ہے اور پلمبر‘ الیکٹریشن وغیرہ کا خرچہ بھی بچ جاتاہے۔۔۔ہے ناں!
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“