میں جب ۱۹۹۸ میں ہالینڈ میں قانون پڑھ رہا تھا تو ہمارے ایک استاد جو ہمیں عالمی اداروں کی کارکردگی اور اور ساخت پر لیکچر دیتے تھے وہ ہمیشہ شروعات ایک مخصوص جملہ سے کرتے تھے کے ۔
“All bureaucracies in the world are inept and corrupt, including that of UNO and other Int. Organisations”
وہ کہتا تھا کوئ بھی بحث اس بنیاد کو زہن میں رکھ کر آگے بڑھانی چاہیے ۔ اس کی اس پر بڑی ریسرچ تھی ، WTO سے لے کر IMF اور IRC وغیرہ کی مثالیں دیتا تھا ۔ حال ہی میں پاکستان میں OXFAM والے پکڑے گئے اور انٹرنیشنل این جی اوز بھی اپنی بیریوکریسی کے ہاتھوں مار کھا گئیں ۔ آج کل پاکستان کی سپریم کورٹ ان کی سکروٹنی کر رہا ہے ۔ میری ایک منیلہ سے دوست ADBP میں کام کرتی تھی ہمیشہ کہتی تھی کے میرے bosses بہت کرپٹ ہیں اور جن بھی ملکوں کو قرضہ دیے جاتے ہیں ان کے بھی سیاستدان اتنے کرپٹ نہیں جتنے بیوریوکریٹ جو negotiations کا حصہ ہوتے ہیں ۔ دراصل بیریوکریسی نے ایجینڈا بھی implement کرنا ہو تا ہے اور بحیثیت ریاست کے custodian اس کو regulate بھی کرنا ہوتا ہے ۔ میں تو ہمیشہ کہتا ہوں سیاست دان کو تو سزا دینی ہی نہیں چاہیے ۔ عمران نے تو کہ دیا کہاں سے لائیں نیک لوگ ؟
کل پاکستان میں ایک ایسے ہی شخص کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا چیرمین لگا دیا گیا جو مہا کلاکار ہے ان کاموں میں ۔ غلاظتوں کے ڈھیر مکروہ چہرے والے طارق باجوہ اور عمرانی معاہدہ والے شہزاد ارباب کا بیچ میٹ ندیم حسن آصف تمغہ امتیاز کا مستحق ہے جسے اس عہدہ سے نوازا گیا ۔ سینئر افسران ریٹائر اور حاضر سروس کی موج لگ گئ جن کے بیٹے بیٹیوں نے سی ایس ایس کرنا ہے۔ ۲۰۰ نمبر پکے اب انٹرویو میں ۔ اب تو written پاس ہی بہت تھوڑے کرتے ہیں تا کہ صرف ان کے بچوں کو ہی پاس کیا جائے ۔ ظلم ہے پاک وطن کے ساتھ ۔ ندیم حسین آصف اس وقت بہت مشہور ہوئے جب وہ غلام حیدر وائیں کے وقت شہباز شریف کے ڈپٹی سیکریٹری بنے اور پوسٹ کا نام بھی ڈپٹی سیکریٹری (شہباز شریف) تھا ۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے احتجاج کیا کے ایسا نہیں کیا جا سکتا یہ تو کوئ پوسٹ ہی نہیں ۔ جناب پہلے پہلے نواز شریف ، شہباز شریف کی منافقانہ سازشوں سے وزیر اعظم آخر بن ہی گئے تھے ، خوب ڈانٹ پلائ گئ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو ۔ اور جب غلام اسحاق نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو ندیم صاحب ڈپٹی کمشنر لاہور تھے ، جی او آر میں چوٹی کا گھر اور باقاعدہ طور پر شریفوں کے pimp رجسٹر ہو چکے تھے ۔ اب ندیم حسن کو کھیلنے کا “ول” آ گیا تھا ۔ ندیم کرکٹ بھی اچھی کھیلتا ہے اور اب گالف بھی ، لہٰزا سارے دوست۔ ندیم مشرف کے وقت بھی مزے کرتا رہا اور شریفوں کی تیسری باری پر تو ہر گیند پر چوکے اور چھکے ۔ پنجاب کا ہوم سیکریٹری ان دنوں رہا جب ہر ہفتہ کوئ نہ کوئ دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ، ہر دفع شہباز سے ڈانٹ کی بجائے داد وصول کرتا ۔حکومت سے کا شاباش سرٹیفیکیٹ لیتا ۔ کمال کا دھنی ، بدمعاشیوں ، منافقتوں اور گندگیوں میں ۔ آج شہباز شریف جیل میں ہے اور ندیم ان دس سالوں میں مختلف محکموں کا سیکریٹری بشمول ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے باوجود کسی بھی انکوائری سے آزاد چیرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن ۔ اسے تو نیب میں فواد حسن فواد اور ابا جی شہباز کے ساتھ جیل میں ہونا چاہیے تھا ۔ اسے نئے پاکستان کے سب سے اہم عہدے پر لگا دیا گیا ۔ وہ مستقبل کی بیوریوکریسی میں بھرتیوں کا ان داتا ہو گا ۔ بن گیا نیا پاکستان ۔ سجا لی عمران خان نے بساط اپنی قربانی کی ۔ میں نے کل کہا تھا کے عمران صرف اسٹارٹر ہے اس انقلاب کا جو اب کوئ نہیں روک سکتا ۔ عمران نہیں تو کوئ اور ۔ نوجوان نسل بلکل مایوس نہ ہو اگر آج وہ عمران کو لائے ہیں کل نکال بھی سکتے ہیں ۔ عمران تو چار جماعتیوں کے ہاتھوں کچھ سال ہہلے مرنے لگا تھا ۔ انسان تو فانی ہے ۔ آتے جاتے رہتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ آج کسی اور منڈیلہ کے انتظار میں ہے جو ضرور آئے گا ۔ صرف تبدیلی اور جوش کو دوام ہے ۔ اسی ٹائم کے میگزین کے انٹریو میں پاؤلو کیلو کو پوچھا تم کب تک لکھو گے ؟ اس نے کہا قبر تک ، کیونکہ میں روح سے لکھتا ہوں ۔ میرے خیال میں ہمیشہ اس جیسا لکھائ رہے کا کسی اور پاؤلو کی صورت میں ۔ دعا کریں کے عمران مزید غلطیاں کرے اور جلدی فارغ ہو ، تا کے کسی اصلی عمران کو واقعہ ہی نیا پاکستان بنانے کا موقع ملے اور ۲۲ کروڑ مزید ازیت سے بچ جائیں ۔ بہت خوش رہیں ، بہت پُرامید رہیں ۔ ہم سب انقلاب ضرور لائیں گے ، میری نسل نے آپ کو مایوس کیا ، گڑیا کی نسل میں جان ہے وہ مایوس نہیں کرے گی مجھے یقین ہے ۔ وہاں ہر کوئ سکندر ہو گا ۔ اس صبح کے لیے کوشش کریں ۔ ابھی تو بقول فیض ۔
“زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے ۔
آج کے نام اور آج کے غم کے نام “
میری امریکہ سے دوست نگہت درد والی شاعری کرتی ہے ۔ نگہت آج ضرور اس پر کوئ شاعری کرو اور شمیما بخاری ایک اور خوبصورت لکھاری جس نے سائپرس میں پناہ لی ہوئ ہے ۔ رؤف کلاسرا مرد مجاہد لکھاری جس کا نشانہ ہی بابو ہیں ، جاری رکھو اپنا مشن ، فتح سچ کی ہو گی ۔ ہم جیتیں گے انشاءاللہ ۔ وطن ہم لکھاریوں کو پکار رہا ہے ہے اس نازک وقت میں ۔
“فکر فردا نہ کروں ، محو غم دوش رہوں
ہمنوا میں بھی کوئ گُل ہوں کے خاموش رہوں “
پاکستان پائیندہ باد
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...