بنیاد پرستی کیوں بڑھ رہی ہے؟
چند عشروں سے دنیا کے بیشتر ملکوں میں بنیادپرستی، چاہے مذہب سے وابستہ ہو یا قوم سے، نسل سے بندھی ہو یا محض جلد کے رنگ سے، بڑھتی ہوئی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بنیادپرستی کو بالعموم مذہب سے وابستہ سمجھا جانے لگا ہے مگر اس کا تعلق کسی بھی نوع کی تخصیص کے ساتھ ہو سکتا ہے۔
بنیادپرستی اصل میں ہے کیا؟ معانی تو اصطلاح کی بنت سے واضح ہیں کہ بنظر خود کسی بھی قسم کی سوچ کے بنیادی نکات پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کو بنیادپرستی کہا جاتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ مذہب ہو یا نظریہ، قوم کے بارے میں خیال ہو یا رنگ و نسل سے متعلق معلومات، ان میں وقت کے ساتھ ساتھ کم و بیش تبدیلی یا تنوع پیدا ہوتا رہا ہے مگر بنیاد پرست دھڑے اپنے اپنے طور پر ان نکات کو پسند کرتے ہیں جو ان کے نزدیک درست ہوں۔ بنیاد پرستانہ سوچ کے مطابق کسی بھی اور طرح سے سوچنے والا درست نہیں ہوتا چناچہ ان کے نزدیک مختلف ہونا قابل گردن زدنی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کی بیشتر آبادی کے لیے بنیادپرستی قابل قبول نہیں۔
حالیہ دور میں نسل اور رنگ سے متعلق امتیاز اتنا متشدد نہیں رہا جتنا مذہب اور کسی حد تک قوم سے منسلک ہے۔ بنیاد پرستی کی لہر میں شدت کو افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ہونے والے واقعات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ طالبان ایک خاص مسلک کے پیروکار تھے، انہوں نے دوسرے مسالک والوں کے ساتھ معاندانہ سلوک شروع کیا تھا۔ ردعمل میں دوسرے مسالک والے بھی متشدد ہونے لگے۔ افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیے جانے میں افغان تاجک برادری کے نام نہاد مجاہدین نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا یوں اس بنیاد پرستی میں تاجک پختون قومی تنافر کا بنیادپرستانہ عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔ طالبان کے ساتھ جتنا برا سلوک افغانستان کی تاجک اور ازبک برادری کے فیلڈ کمانڈروں نے کیا تھا اتنا شاید غیر ملکی حملہ آور بھی نہ کر پائے ہوں۔
افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں ہوئی جنگوں کے بعد جب مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے یورپی ملکوں کا رخ کیا تو وہاں مقامی قومی اور مذہبی بنیادپرست زور پکڑنے لگے۔ یورپ کے بہت سے ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کو پذیرائی ملنے لگی۔ یہ بھی بنیادپرستی کا ہی ایک پہلو ہے جسے نرم الفاظ میں قوم پرستی اور تھوڑے سے سخت الفاظ میں نسل پرستی کہا جا سکتا ہے۔ اس نوع کی قومی یا نسلی بنیادپرستی میں مذہبی بنیادپرستی کا یورپی عصر شامل ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے آنے سے اسلام کو عیسائیت کا مدمقابل سمجھا جانے لگا ہے اور اسلاموفوبیا ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔
کسی بھی نوع کی بنیادپرستی درحقیقت منسلک مذہب، قوم یا نسل و رنگ سے متعلق سوچ کے معدوم پڑنے کے ردعمل میں پیدا ہوتی ہے جو اصولی طور پر خودحفاظتی کا ایک فطری جبلتی پہلو ہے۔ مذہبی زعماء اس سے فائدہ اٹھانے کی خاطر نیم خواندہ لوگوں کی اکثریت کو جو مذہب سے متعلق انتہائی جذباتی ہوتے ہیں، استعمال کرتے ہیں۔
نیم خواندگی کا تعلق روزگار اور آمدنی کے وسائل کے ساتھ ہے۔ کم آمدنی کے روزگار پانے والے لوگ، نیم پختہ سرمایہ دارانہ معاشی سیاسی نظام میں بنیادی سماجی سہولتوں اور صحت و تعلیم سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ ان کے لیے واحد تسکین عقیدہ ہوتا ہے کہ معاملات اوپر والا ٹھیک کرے گا۔
جب حکومتیں لوگوں کو بنیادی سماجی سہولتیں نہ دے پائیں اور صحت و تعلیم جیسی ضرورتین پوری کرنا عیاشی شمار ہونے لگے تو نیم خواندہ لوگوں کے ساتھ خواندہ لوگ بھی بیروزگاری سے تنگ آ کر بنیادپرست دھڑوں کا ساتھ دینے لگتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ یہ لوگ کسی بھی طرح سے برسر اقتدار آ کر مذہب پر مبنی منصفانہ روش کو عام کریں گے، ویسے ایسا تاریخ میں ابھی تک تو نہیں ہوا ہے ماسوائے ازمنہ وسطٰی کے ابتدائی مذہبی ادوار میں۔ مگر یہ زمانے آج کے زمانے سے یکسر مختلف تھے۔ بینکاری اور کارپوریٹ کلچر گذشتہ چند صدیوں سے رائج ہوئے ہیں۔
بنیادپرستی ہر دور میں لہر کی طرح رہی ہے جسے بالآخر ختم ہونا ہوتا ہے مگر ختم ہونے سے پہلے یہ معاشرے کو شدید نقصان پہنچا چکی ہوتی ہے۔ اہل مغرب عاقل ہیں وہ اس لہر پر قابو پانے کے طریقے اختیار کرتے ہیں جیسے حال ہی میں جرمنی نے ان مہاجرین کو جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، رضاکارانہ طور پر اپنے ملک لوٹنے کی صورت میں نقد امداد و معاوضہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ مگر ایسے ملکوں میں جہاں حکومتی اہلکاروں کو اپنی جیب بھرنے سے فرصت نہیں ہوتی عام لوگوں کے مسائل کی جانب کم ہی توجہ دی جاتی ہے اور بالآخر ان ملکوں میں خانہ جنگی،شورش اور نفریں پھوٹ پڑتی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“