بر صغیر پاک و ہند کی سر زمیں اولیائے کاملین کی آماجگا ہ رہی ہے اور بڑے بڑے عظیم المرتبت اولیا اس سرزمین پر پیدا ہوئے یا پھر ہجرت کرکے یہاں پہنچے۔ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒسے اولیا اللہ کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے اور جاری رہے گا۔ بعض اوقات انسان ان باتوں کو آسانی سے سمجھ جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی پچیدگیوں میں الجھ جاتا ہے اور یوں اختلافِ رائے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو انسانوں کے بیچ خلیج پیدا کر دیتا ہے لیکن اولیا اللہ کی ہمیشہ سے یہ فطرت اور سعی رہی کہ وہ انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کریں اور نفرت و کدورت کی خلیج کو پاٹ سکیں۔ چنانچہ اگر ہم پاک و ہند کی سر زمیں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی ایسی بزرگ و بر تر ہستیاں مل جاتی ہیں کہ جن کی فیوض و برکات کا سلسلہ آج بھی جار ی و ساری ہے اور جنہوں نے انسانیت کو ایسا درس دیا کہ جس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔ مثلاََ: حضرت علی ہجویری ؒ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ، خواجہ نظام الدین اولیا ؒ اور شیخ احمد سرہندی ؒ جیسے جلیل القدر اولیائے کرام کے علاوہ وارث شاہؒ، غلام فریدؒ، سلطان باہوؒ اور بلھے شاہ ؒجیسے صوفی شعرا کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔میں یہاں صرف حضرت بلھے شاہ کا تذکرہ کروں گا۔
بلھے شاہ کا اصل نام عبداللہ تھا اور وہ 1103ھ بمطابق 1692 میں اچ گیلانیاں ضلع بہاولپور میں پیدا ہوئے اورمحرم 1171ھ بمطابق ستمبر 1757اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ بلھے شاہ کے والد بزرگوار سخی محمد درویش بہاولپور کر خیرآباد کہہ کر ضلع قصور کے ایک گاؤں پانڈو کے میں آکر آباد ہوگئے اور بعض روایات کے مطابق ان کی پیدائش بھی یہیں ہوئی۔ بلھے شاہ کا بچپن عام بچوں سے جدا نہ تھا وہ بھی دیہاتی بچوں کی طرح بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔لیکن جیسے ہی انہوں نے ہوش سنبھالا تو والدین نے انہیں علم کے حصول کے لیے قصور میں مولوی غلام مرتضیٰ کے پاس بھیج دیا جہاں بلھے شاہ نے دنیوی علوم سیکھے لیکن ان کی طبع آزاد روحانیت کی کھوج میں تھی چناچہ روحانی فیض کی کشش انہیں لاہور میں حضرت شاہ عنایت قادری ؒکی خدمت میں لے آئی جہاں انہوں نے باطنی منازل طے کیں۔ ابتدا ہی سے طبیعت کا رجحان پنجابی شاعری کی طرف بھی تھا چنانچہ انہوں نے پنجابی شاعری کو اپنے من کی بات کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا اور علم وحکمت کی ایسی ایسی باتیں نہایت سادگی سے کہہ ڈالیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاََ: اس کافی میں اپنے پیر و مرشد کی تعریف کس قدر عام فہم انداز میں کی ہے۔ کہتے ہیں:
بلھے شاہ دی سنو حکایت
ہادی پکڑیا ہوئی ہدایت
میرا مرشد شاہ عنایت
اوہو لنگھاوے پار
بلھے شاہ کی شاعری کو سمجھنے کے لیے دل کو صاف اور کدورتوں کو مٹانا پڑتا ہے جو ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے بلھے شاہ کی شاعری اس کے لییے کندن کا کام کرتی ہے اور وہ انسان لمحہ لمحہ ربِ کائنات کو یاد کرتا ہے اور اس کی اور اس کے حبیبﷺ کی محبت میں گم رہتا ہے کیونکہ بلھے شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے سے وہی پیغام انسانوں تک پہنچانے کی کو شش کی ہے جو پیغام نبی آخرالزماں ﷺ نے اپنی امت کے لیے چھوڑا ہے۔ نئی نسل کو جہاں اور بہت سی روایات سکھانے کی ضرورت ہے وہاں ہمیں اپنی نئی نسل کو اولیائے کاملین اور صوفیا سے بھی روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔
بلھے شاہ پنجابی ادب کا ایک ایسا صوفی شاعر ہے کہ جس کے کلام میں علم و حکمت کے موتی ہر سوچمکتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ حکمت کی باتیں اور حقیقتیں انتہائی سادگی سے پیش کرتے ہیں، مگر ان میں بہت گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے۔ان کی کافیاں پنجاب کی تہذیب اور روایت کا خاصہ ہیں اور پنجاب کے لوگو ں کو ان کی کافیاں زبانی یاد ہیں۔ پنجابی ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے ان کا کلام ایک گہرِ نایاب سے کم نہیں اورلوگ ان سے نہ صرف ہدایت حاصل کرتے ہیں بلکہ محظوظ بھی ہوتے ہیں۔
بلھے شاہ ایک مقام پر پہنچ کر اپنے آ پ کو بھی کھو دیتا ہے۔ ان کی شاعری کے کچھ حصے ایسے ہیں جنہیں مذہب سے بالا تر ہو کر تمام مذاہب کے لوگ پسند کرتے ہیں۔ مثلاََ ملاحظہ ہو ان کی سوچ و فکر کا یہ انداز جو انہیں دوسرے صوفیا ئے کرام سے جدا کرتا ہے۔
”بلھا! کیہ جاناں میں کون!
بلھا! کیہ جاناں میں کون؟
نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ، نہ فرعون
بلھا! کیہ جاناں میں کون!
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں وچ شادی، نہ غمناکی
نہ میں آبی، نہ میں خاکی
نہ میں آتش، نہ میں پون
بلھا! کیہ جاناں میں کون!
نہ میں بھیت مذھب دا پایا
نہ میں آدم حوا جایا
نہ کجھ اپنا نام دھرایا
بلھا! کیہ جاناں میں کون!
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ودھ نہ کوئی سیاناں
بلھا! اوہ کھڑا ہے کون؟
بلھا! کیہ جاناں میں کون!
اس میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ علم ہی نہیں کہ میں کون ہوں، لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذاتِ الہٰی میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں اس با ت کا احساس ہی نہیں رہتا کہ ان کا مذہب اور سلسلہ کیا ہے وہ صرف اور صرف انسانیت کا رشتہ یاد رکھتے ہیں اور دیکھا جائے تو اس دنیا میں سب سے بڑا رشتہ انسانیت ہی کا ہے اور اسی کی تلقین محمد رسولاللہ ﷺ نے کی ہے۔ علامہ اقبالؒ بھی کہتے ہیں کہ
ع مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
علامہ اقبال اور بلھے شاہ میں یہی قدرِ مشترک ہے کہ دونوں انسانیت کا درس دیتے ہیں اور انسانوں سے پیار اور محبت کی بات کرتے ہیں۔ مرشد کی محبت بلھے شاہ کو ان کی طرف کھینچتی ہے تو پکار اٹھتے ہیں۔
اٹھ چلے گوانڈوں یار
اٹھ چلے گوانڈوں یار
ربّا ہن کی کریے!
اٹھ چلے، ہن رہند ناہیں
ہویا ساتھ تیار
ربّا ہن کی کریے!
چارو طرف چلن دے چرچے
ہر سو پئی پکار
ربّا ہن کی کریے!
ڈھانڈ کلیجے بل بل اٹھدی
بن دیکھے دیدار
ربّا ہن کی کریے!
بلھا! شوہ پیارے باجھوں
رہے ارار نہ پار
ربّا ہن کی کریے!
بلھے شاہ سچائی اور بے باکی کا شاعر ہے۔ وہ سچ کا دامن کسی طور نہ چھوڑنے کی تلقین کرتا ہے گویاکلمہ ء حق کہنے کی بات کرتا ہے اور یہی نصیحت ہمیں دین متین سے ملتی ہے کہ جابر حکمران کے سامنے بھی کلمہء حق کہہ ڈالو۔درحقیقت بلھے شاہ نے پیغامِ محمدﷺ کو اپنے دور میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے انہی کی زبان میں پیش کیا تاکہ لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھ سکیں اور اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔
بلھے شاہ کہتے ہیں کہ اگرمیں سچ کہوں تو ہر طرف آگ لگ جائے کیونکہ سچھی باتیں کڑوی ہوتی ہیں۔اور اگر میں جھوٹ کہنے کی کوشش بھی کروں تو تباہ برباد ہو جاؤں کیو نکہ جھوٹ بولنے سے ہمارے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے لہذا میں سچ کے سوا کوئی دوسری بات کر ہی نہیں سکتا۔ وہ کہتے ہیں کی اس دنیا میں ہر طرف کفر اور اندھیرے کی بساط چھائی ہوئی ہے اس لیے اس دنیا میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ملاحظہ کیجیے ان کا یہ کلام:
منہ آٓئی بات نہ رہندی اےسچ
کہواں تے بھانبڑ مچ دا اے
جھوٹھ آکھیاں کجھ نہ بچ دا اے
جی دوہاں گلاں توں جچ دا اے
جچ جچ کے جیبھا کہندی اے
منہ آٓئی بات نہ رہندی اے
ایہ تلکن بازی ویہڑا اے
تھم تھم کے ٹرو اندھیرا اے
وڑ اندر دیکھو کیہڑا اے
کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے
منہ آٓئی بات نہ رہندی اے
جس پایا بھیت قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر دا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی اے
منہ آٓئی بات نہ رہندی اے
اک لازم شرط ادب دی اے
سانوں بات معلومی سب دی اے
ہر ہر وچ صورت رب دی اے
کتے ظاہر، کتے چھپیندی اے
منہ آٓئی بات نہ رہندی اے
اساں پڑھیا علم تحقیقی اے
اوتھے اکو حرف حقیقی اے
ہور جھگڑا سب ودھیکی اے
ایویں رولا پایا بہندی اے
منہ آٓئی بات نہ رہندی اے
شوہ، بلھا! ساں تھیں وکھ نہیں
بن شوہ دے دوجا ککھ نہیں
پردیکھن والی اکھ نہیں
تہیں جان جدایاں سہندی اے
منہ آٓئی بات نہ رہندی اے
بلھے شاہ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ”صوفیائے پنجاب“ کے مصنف اعجازالحق قدوسی لکھتے ہیں:
”بلھے شاہ پنجابی زبان کے عظیم المرتبت شاعر تھے، ایک طرف آپ کی ذات فیض برکات کا منبع تھی اور دوسری طرف ان کی شاعری اثر،سوز وگداز کا ایک بہت بڑا خزانہ تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس میں اپنا دل رکھ دیا۔ ان کا ہر شعر روح کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور دل کی گہرائیوں میں جا داخل ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے پاکیزہ نغموں سے گاؤں،قصبے اور شہر گونج اٹھتے ہیں۔ان کی شاعری کی شہرت اپنے پاک وطن سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ہے۔آپ کا کلام پنجابی زبان و ادب کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔“