بلبلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک دوست سیاست سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ سیاسی اتارچڑھاﺅ اور ڈویلپمنٹ ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اکثر خاکسار کو فون پر یا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اپنے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ ان کا جھکاﺅ مسلم لیگ ن کی طرف ہے اور اسی مناسبت سے میاں نواز شریف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں اور جب ملک میں صرف دو تین بڑی جماعتیں ہوں تو کسی نہ کسی سے ہمدردی ہونا فطری ہے۔ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے ، جب اکثر ن لیگی دوستوںکی طرح یہ صاحب بھی ن لیگ کا حامی ہونے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ اصرار ہوتا ہے کہ انہیں حامی تصور نہ کیا جائے، وہ صرف اصولی بنیاد پر مسلم لیگ ن کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ویسے کسی محقق کو اس پر ریسرچ کرنی چاہیے کہ آخر ن لیگ کے اکثر پڑھے لکھے حامی اعلانیہ اس کی حمایت سے گریز کیوں کرتے ہیں؟ ان سے جب پوچھا جائے کہ کیا واقعی نواز شریف آپ کا لیڈر ہے تو مزید پریشان ہوکر دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔تھوڑا اصرار کیا جائے تو فوراً بدک کر یہ سائیڈ پر ہوجائیں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ہم نواز شریف کے حامی نہیں، البتہ ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کو سپورٹ کر رہے ہیں۔کوئی یہ کہے گا کہ انہیں میاں صاحب سے اتفاق نہیں، مگر سول ملٹری ریلیشن کے پس منظر میںمجبوراً حمایت کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسی شرمیلی،ڈھکی چھپی، جھینپی جھنپی، شرمندہ سی حمایت کی مجھے تو سمجھ نہیں آئی۔یہ صورتحال پیپلزپارٹی کے حامیوں کے ساتھ نہیں تھی۔ بھٹو ازم کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا تھا کہ جیالے عقل ومنطق سے بالاتر ہو کر پیپلزپارٹی کی مالا جپتے تھے۔ جب بی بی کی رحلت کے بعد زرداری صاحب پارٹی سربراہ بنے تب بھی اکثر جیالے ان کی حمایت کا اعلان کر دیتے تھے۔ یہی پرجوش کارکن حالانکہ پہلے زرداری صاحب کو مطعون کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کی آخری حکومت اگر تھوڑا بہت ڈیلیور کر دیتی تو یہ بھٹو ووٹ بینک پارٹی کے ساتھ جڑا رہتا۔ تحریک انصاف کا اصل جنم اکتوبر 2011ءمیں ہوا، اس اعتبار سے یہ نئی جماعت ہے۔ اس کے کارکن اور حامی ابھی نئے ہیں، ان کی وفاداری اور مستقل مزاجی کا ابھی امتحان ہونا باقی ہے۔ جماعت اسلامی، جے یوآئی، اے این پی وغیرہ کا ووٹ بینک تو اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے، مگر ان کے کارکن مجموعی طورپر خاصے مستقل مزاج ہیں اور وہ کھل کر اپنی جماعتوں کا دفاع کرتے ہیں۔
خیر بات اس دوست کی ہورہی تھی جو میاں نواز شریف کا حامی ہونے کے باوجود کھل کر اپنے لیڈر اور جماعت کی سائیڈ نہیں لیتے۔ اگلے روز ان سے آن لائن چیٹ ہورہی تھی۔ کہنے لگے ن لیگ نے دوبارہ جیت جانا ہے۔ہم نے اس وش فل تھنکنگ والے تجزیے پر حیران ہو کر پوچھا ،ن لیگ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی پیش گوئی کس ناہنجار نے کر ڈالی؟اس پر وہ خاصے بھنائے اور غصہ نکالنے کے بعد بولے، آپ خود دیکھ لیں کہ میاں نواز شریف کی مقبولیت ابھی تک برقرار ہے، ضمنی انتخاب وہ جیت چکے ہیں، انکے ارکان اسمبلی بھی ساتھ ہیں اور جلسے بھی ٹھیک ہورہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ان کا طویل ٹیکسٹ پڑھتا رہا ۔ پھر جواب میں لکھا ، سیاسی جماعتیں جلسے کرتی رہتی ہیں، خاص کر جب حکومت ان کی ہو تو جلسے کرنا معمول کی بات ہے۔ پیپلزپارٹی کا مئی 2013ءکے الیکشن میں پنجاب اور کے پی کے سے صفایا ہوگیا۔ حالانکہ یوسف رضا گیلانی جب نااہل ہوئے تو ان کی نشست پر ان کے صاحبزادے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ صرف سال بھر ہونے والے عام انتخابات میں گیلانی خاندان کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی اہم ضمنی انتخاب جیت گئی تھی۔ بہاولپور سے عامر یار وارن نااہل ہوئے توضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اپنی اہلیہ خدیجہ عامر کو بھارتی اکثریت سے کامیاب کرایا۔ وہاڑی سے نذیر جٹ نااہل ہوئے تو ان کادیا ہوا امیدوار آسانی سے ضمنی الیکشن جیت گیا۔ جس پر زرداری صاحب نے ایک جلسہ میں فاتحانہ اعلان بھی کیا تھا کہ ہمارے جٹ، ہمارے وارن اور دستی ضمنی انتخاب جیت گئے ہیں ، جو ہماری مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ جو ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا اصل پتہ اس وقت چلتا ہے،جب حکومت ختم ہو جائے ۔ تب ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے ارکان اسمبلی، کارکن اور ووٹروں نے ان کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے ؟مسلم لیگ ن پر یہ وقت آنے والا ہے۔چند ہفتوں میں حکومت ختم ہوجائے گی، تب ن لیگ کی اصل مقبولیت کا پتہ چلے گا۔
چند دن پہلے ایک کھانے کی محفل میں مسلم لیگ ن کے ایک نومنتخب سینیٹروزیر اور ڈیرہ غازی خان کے معروف سیاسی رہنما سے ملاقات ہوئی۔ عام انتخابات میں وہ شہر کی سیٹ سے وہاں کے معروف قبائلی سردار زادے کو شکست دے کر ایم این اے بنے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں انہیں وزیر بنایا گیا، پھر سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹ دے دی۔ سینیٹر صاحب خاصے دلبرداشتہ پائے گئے۔ دکھ اور تاسف سے انہوں نے بتایا کہ جس قبائلی سردار کے خلاف میاں نواز شریف خود جلوس لے کر ڈیرہ غازی خان گئے تھے، جس کے صاحبزادے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ رہے، ایک بھائی ضلع ناظم اور ایک وفاقی وزیر رہا ۔پھر وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے اور پھر عام انتخابات سے پہلے آزاد لڑے۔ اب ن لیگ اس خاندان پر مہربان ہوگئی ہے، حالانکہ وہاں ن لیگی ووٹروں نے ان قبائلی سردار زادوں کو مسترد کر کے ن لیگی امیدوار کو ووٹ ڈالا، تاہم میاں شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ ڈی جی خان میں انہی قبائلی سردار کے گیت گائے اور سردارزادوں کے ساتھ قربت اختیار کی۔ سینیٹرصاحب پریشان تھے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ ووٹ کی عزت کا نعرہ لگانے والے عوامی ووٹ کی توہین کیوں کر رہے ہیں؟محفل میں شریک ایک سینئر صحافی نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا ، میاں شہباز شریف ان تمام لوگوں کو سائیڈ پر کر رہے ہیں ،جو پہلے بڑے میاں صاحب کے قریب رہے ۔ یہ وہی صورتحال ہے جو پیپلزپارٹی میں پیش آئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قریبی لابی کو زرداری صاحب نے سردمہری سے پیچھے دھکیل دیا۔ مسلم لیگ ن میں بھی اب کم وبیش ویسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سینیٹر صاحب نے دلبرداشتہ ہو کر کہا کہ معاملات تو اب شہباز شریف کے ہاتھ میں ہیں، بڑے میاں صاحب تو اپنے کیسوں میں الجھے ہیں، روزانہ ان کی پیشی پڑ جاتی ہے، اس لئے ہمیں تو چھوٹے میاں سے معاملات چلانے ہیں، لیکن اگر ڈی جی خان سے قبائلی سردار زادوں کو ٹکٹ ملا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو فائدہ پہنچے گا، کیونکہ وہاں ہمارے (ن لیگی)ووٹر طویل عرصے سے اینٹی سردار رہے ہیں، وہ کبھی ان سرداروں کو قبول نہیں کر سکتے، چاہے ن لیگ کی قیادت انہیں دل وجاں سے اپنا لے۔
ایسی ایک اور محفل میں روایتی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک سینئر تجزیہ کار سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ انہوں نے دلچسپ بات بتائی۔ کہنے لگے کہ ن لیگ کے کئی الیکٹ ایبلز تحریک انصاف کی طرف جانے کو پر تول رہے ہیں۔ ایک ایک کر کے یہ جانا شروع کر دیں گے، لیکن ان کی تعداد شائدتیس چالیس سے زیادہ نہ ہو، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے الیکٹ ایبلز کو خود تحریک انصاف بھی نہیں لینا چاہتی، کیونکہ ان کی اپنے سروے کے مطابق ان ارکان اسمبلی نے ہار جانا ہے۔ انہوںنے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ موجودہ رکن اسمبلی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اگلی بار وہ جیت جائے گا،کیونکہ حکومت میں رہنے والا بہت لوگوں کو ناراض کر دیتا ہے، اس سے توقعات زیادہ ہوتی ہیں، جن پر پورا اترنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے جن حلقوں میں تحریک انصاف کے پاس اچھے رنراپ موجود ہیں، وہ ان کو کمزور سیاسی پوزیشن رکھنے والے موجودہ ارکان اسمبلی پر ترجیح دے گی۔ لڑائی الیکٹ ایبلز کی ہوگی ، مگر اصل اہمیت اس کی ہے کہ کون سی سیاسی جماعت اپنی انتخابی مہم میں موثر سیاسی لہر پیدا کرے گی۔ اس لہر سے حاصل کردہ اٹھ دس فیصد ووٹ فیصلہ کن ہوں گے ۔ پچھلے الیکشن میں عمران خان یہ لہر پیدا کرنے میں کامیاب رہے، مگر تب کئی اور عوامل آڑے آئے، کچھ خان کی ناتجربہ کاری اور کچھ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کی مہربانی، ایک فیکٹر نادیدہ قوتوں کا بھی تھا، جن سے الیکشن کی شام نواز شریف نے اپنی تقریر میں بالواسطہ مدد مانگی۔ وجہ جو بھی تھی، اس الیکشن میں یہ تمام چیزیں میاں نواز شریف اور ن لیگ کے مخالف جائیں گی۔وہ صاحب کہنے لگے جس طرح بلبلہ معیشت اچانک سے بیٹھ جاتی ہے، اسی طرح مصنوعی بلبلہ سیاسی مقبولیت بھی الیکشن کی حدت برداشت نہیں کر پاتی اور وہ بلبلہ پھٹ جاتا ہے۔ ن لےگ کے لئے زمینی سیاسی حقائق نامساعد ہیں، عام انتخابات زیادہ دور نہیں،اس کے نتائج ہی فیصلہ کریں گے کہ میاں نواز شریف کو حقیقی مقبولیت حاصل ہے یا صرف میڈیا کے زور پر اور وفادار لکھاریوں، تجزیہ کاروں کی کوشش سے مصنوعی مقبولیت کا بلبلہ قائم کیا گیا تھا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہیں۔