سروجنی چٹوپادھائے المعروف سروجنی نائیڈو 13 فبروری، 1879 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں ۔وہ ممتاز سائنس دان اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اگھورناتھ چٹوپادھائے Dr. Aghorenath Chattopadhyaya کی دختر نیک اختر تھیں۔ انکی والدہ برادا سندری دیوی Barada Sundari Devi اپنی مادری زبان بنگالی میں شاعری کیا کرتی تھیں۔ ان کے والدین بنگالی تھے لیکن بہ وجہ ملازمت حیدرآباد میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ سروجنی نائیڈو کے والد نظام کالج کے اولین پرنسپل تھے ۔وہ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کے خاندان کا ہر فرد غیر معمولی ذہانت کا حامل تھا، جس فن کی طرف رخ کیا اس میں صاحب کمال ثابت ہوئے۔ حیدرآباد میں مستقل سکونت کی وجہ سے سروجنی نائیڈو کے گھر میں اردو بولی جاتی تھی اس لئے انھوں نے بچپن ہی میں اردو بولنی سیکھ لی ۔ سروجنی نائیڈو کے بڑے بھائی، سو لہ زبانوں کے ماہر تھے ۔ سروجنی نائیڈو کے والد کی خواہش تھی کہ وہ آنگریزی زبان سیکھیں جبکہ انھیں انگریزی زبان سیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا ۔ ایک مرتبہ انھوں نے سروجنی نائیڈو کو بطور سزا ایک دن بھر کمرے میں بند رکھا تھا ۔انہوں نے اس سزا کو خوش آمدید کرتے ہوئے یہ عزم راسخ کر لیا کہ وہ آنگریزی زبان پر دسترس حاصل کرینگی ۔ سروجنی نائیڈو کے والدین نے انکی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے 1891 میں اپنی عمر کے بارہ سال میں مدراس پریسڈنسی Madras Presidency سے میٹرکولیشن کا امتحان کامیاب کیا۔ اس امتحان میں انھیں پہلا درجہ حاصل ہوا تھا ۔تیرہ سال کی عمر میں ہی انہوں نے انگریزی میں شعر گوئی کی ابتداء کی۔ تیرہ سو مصرعوں پر مشتمل ایک طویل نظم تخلیق کر ڈالی ۔ اسی سال انھوں نے فارسی زبان میں دو ہزار سطور پر محیط ایک مکمل جذباتی ڈرامہ بھی قلم بند کیا۔اس نظم سے خوش ہو کر نظام سرکار با الفاظ دیگر ریاست حیدرآباد کے حکمران عالی جاہ میر محبوب علی خان نے اعلی تعلیم کے لئے وظیفہ کی منظوری پر 1895میں انگلستان روانہ ہوئیں جہاں وہ پہلے کنگس کالج، لندن King's College, London میں داخلہ لیا اور بعد میں گرٹن کالج ،کیمرج Girton College, Cambridge میں تعلیم حاصل کی ۔ انگلستان میں قیام کے دوران انکی ملاقاتیں انگریزی کے نامور شاعر ایڈمن گاسEdmund Gosse اور مشہور شاعر و نقاد آرتھر سائمن Arthur Simon سے ہوئی ۔ان شخصیات نے سروجنی نائیڈو کی ادبی کاوشوں کی ہمت افزائی کی اور انھیں قیمتی مشوروں سے نوازا ۔ ایک اور اہم شخصیت ڈاکٹر موتیالا گووندا راجولو نائیڈو
Muthayala Govindarajulu Naidu سےبھی ملاقات ہوئ۔یہ ملاقات دوستانہ مراسم سے شروع ہو کر بعد میں رشتہ ازدواج میں تبدیل
ہوگئی ۔ 1898میں سروجنی نائیڈو کی صحت کی ابتری کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کر سکیں سپٹمبر 1898 میں کوئی ڈگری حاصل کئے بغیر حیدرآباد واپس آگئیں ۔ اسی سال ڈسمبر میں انکی شادی موتیالاگووندجولو نائیڈو سے ہوئی ۔یہ بین فرقہ جاتی شادی inter-caste marriage تھی۔ سروجنی نائیڈو بلند پائہ شاعرہ بھی تھیں ۔ ان کے مجموعے کلام 1905' 1912 اور 1917 میں زیورطباعت سے آراستہ ہو کر مقبول عام ہوئے اور تمام مطبوعات ہاتھوں ہاتھ نکل گئے ۔
سروجنی نائیڈو کی سیاست وابستگی کا جذبہ برطانوی حکومت کے ہندوستانیوں کے ناروا سلوک اور نا قابل برداشت غلامانہ زندگی سے نجات کی تحریکوں سے پیدا ہوا۔ 1903ا اور 1917 کے درمیان سروجنی نائیڈو نے بر صغیر کے ممتاز شخصیتوں گوپال کرشناگوکھلے، محمد علی جناح، اینی بسنت،مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو سے ملاقاتیں کیں اور روابط و تعلقات کو مضبوط بنا یا ۔ان ملاقاتوں سے انھوں نے محسوس کیا کہ تحریک آزادی ہند میں ہر ہندوستانی کا حصہ لینا فرض کی حثیت رکھتا ہے۔ لک بھگ 1919سےسروجنی نائیڈو کا شمار ملک کے اہم قومی رہنماوں میں کیا جانے لگا ۔بلبل ہند سروجنی نائیڈو شاعرہ، دانشور، خطیب، خواتین کے مفادات کی علمبردار اور سیاسی رہنما ہونے کے علاوہ ہمدرد، وسیع القلب خاتون تھیں ۔سروجنی نائیڈو نے اپنی شاعری اور تقریروں کے ذریعہ ملک کی آزادی کےلئے عوام میں ایثار و قربانی کے جذبہ کو ابھارا، نوجوانوں کی ہمت افزائی کی، ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کیا ۔خواتین کو با وقار مقام دلانے کے لیے ان کے حقوق کو منوانے احساس بیدار کیا اور قومی یکجہتی کے شعار کو فہم میں لانے کی تاکید کی ۔ یہ وہ کار ہائے نمایاں ہیں جو تحریک آزادی ہند کی تاریخ میں سنہری حروفوں سے لکھے جانے کا باب ہو گا۔
1905 میں تقسیم بنگال کا واقعہ پیش آیا تو سروجنی نائیڈو نے اس کے خلاف آواز بلند کیا ۔22 مارچ 1913 کو لکھنؤ میں منعقد مسلم لیگ کے اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہندو مسلم اتحاد ہر حال میں لازمی ہے ۔ 1915 تا 1918 سروجنی نائیڈو نے ہندوستان کے کئ شہروں کا دورہ کیا وہاں کے لوگوں سے مخاطب کیا ۔ موضوعات تقاریر تحریک آزادی، حقوق و آزادی نسواں اور قومی یکجہتی تھے ۔خصوصی طور پر حق رائے دہی کے حصول کے لئے انھوں اینی بسنت کے ساتھ ، پر زور نمائندگی کی ۔1919میں جلیان والا باغ المیہ پر برطانوی حکومت جانب سے قیصرہند طلائی جو انھیں 1909 میں موسی ندی میں طغیانی کے سبب مصیبتوں میں گرفتار لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کو ہر قسم کی مدد پہنچانے کی کو شش کر نے کے عو۹ خدمت کے اعتراف میں عطا کیا گیا تھا اسے واپس کر دیا ۔ گاندھی جی کی رہنمائی میں وہ ہر جاری تحریک(یعنی تحریک عدم تعاون، نمک ستیہ گرہ، سول نافرمانی کی تحریک اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک ) میں فعال کردار ادا کر تے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ 1928 میں بردولی تحریک Bardoli Satyagraha میں بھی انھوں نے سرگرم حصہ لیا ۔ 1925 میں اہل وطن نے سروجنی نائیڈو کے سر پر کل ہند قومی کانگریس کے سالانہ اجلاس، کانپور کا تاج رکھا ۔اسطرح وہ اس کل ہند تنظیم کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز حاصل کیں ۔1947 میں ملک آزاد ہوا اور بلبل ہند سروجنی نائیڈو صوبہ اتر پردیش کی پہلی گورنر مقرر ہوئیں ۔
وہ 6 مارچ 1949 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئیں ۔
کس کی نظر دکن کو لگی شمعیں بجھ گئیں
جن پر ہمیں تھا ناز وہ پیارے چلے گئے
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...