(Last Updated On: )
اردو ادب کے اس پت جھڑ کے موسم میں شعری غنچے چٹکنے لگیں، بے بال وپر برہنہ درخت جھومنے لگیں، لمحات کے چہرے سے گرد وغبار چھٹنے لگیں،چاک دامن سئے جانے لگیں،چاندنی کی رگ رگ سے کرنوں کو کھینچاجانے لگیں، آفتاب کی گرمی کو یخ بستہ ہواؤں میں تبدیل کیاجانے لگیں تویقین کرلیں کہ شعری صنف کے حواس زندہ ہیں،کیونکہ زندگی تحریکِ عمل کانام ہے،اپنے خالق کی عطا کی ہوئی ہمت اور صلاحیت کے مطابق کام کرنا ہے، اس ہمت اور صلاحیت کی افادیت صرف اسی وقت ظاہرہوتی ہے جب ایک حساس قلم کار ،اشک بھری آنکھوں اور درد بھرے لہجے کاترجمان بن کر ٹوٹتے بکھرتے لمحوں کو اپنی نازک پلکوں سے سمیٹتا ہے،وقت کی ڈوبتی نبض کو بحال کرتاہے، تھکے ہارے کم ہمت دلوں کو حوصلہ عطاکرتا ہے ،بندکمروں کی گھٹن سے باہر نکل کرتازہ ہوا کی ترغیب دیتاہے، حالانکہ ایک تخلیق کار اس جاں فشاں عمل سے خارجی اور باطنی طور پر شل ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ کبھی کبھی تخلیق کار اپنے اندر شکست وریخت کا عمل محسوس کرنے لگتا ہے ،اسے محسوس ہوتاہے کہ جیسے سب ختم ہورہاہے اور ایسا ہی احساس محترمہ زیب النساء زیبی ـصاحبہ کو ہوا۔۔۔۔۔۔
؎ تھامے ہیں دریدہ جسم کو ہم، ہر چند کے ہراعضاء ہوئے شل
باہر تو سکوں کامنظر ہے، اندر ہے قیامت کی ہلچل
زخمی ہے بدن کاہر حصہ اور چُور ہیں سارے استخواں
لگتا ہے سانسوں کا رشتہ ٹوٹنے والاہے اگلے ہی پل
محترمہ زیب النساء زیبی کی نثری اور شعری اصناف کا ایک طویل ترین سفر ہے،
لیکن ،چونکہ اس خاکسار کا تعلق محض شاعر ی سے ہے اس لئے میں محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ کی شاعری ہی پر بات کروں گا۔۔۔۔۔
زیبیؔ صاحبہ ایک بہت ثقہ شاعرہ، جید مصنفہ و ادیبہ ،ناول و کالم نگار کے علاوہ طنزومزاح نگاربھی ہیں، گویا کہ ہمہ جہت اور ہمہ صفات تخلیق کار کی ذات اور فن کے بارے میں یہ کہنا قطعاً مشکل نہیں کہ وہ واقعی ’’ زیب النساء زیبی صاحبہ‘‘ہیں
معیاری ادب تخلیق کرنے کے لئے دو صفات کا ہونا لازم ہیں، ایک تخئیل کی کرشمہ سازی اور دوسرے زبان وبیان پر کماحقہ عبور کی کرامات ، اور الحمداللہ زیبیؔ صاحبہ کی فنی اور تخلیقی سراپامیں یہ دونوں اجزائے ترکیبی اور لوازمات مبدائے فیض نے کمالِ فیاضی اور سخاوت کے ساتھ بھردیئے ہیں
تخئیل اور وجدان کی فراوانی نہ ہوتو فن کی آبیاری نہیں ہوتی خصوصاًشاعرجیسی حساس اور نازک کونپلیں کسی بنجر زمین کی کوکھ سے نہیں پھوٹتیں،اس کے لئے احساس کی زرخیزی درکار ہوتی ہے اور اظہارو بیان کی پیوند کاری کونپلوں سے وہ شگوفے کھلاتی ہے جن کی بہاریں مشکباری ہوتی ہے،اور مشکباری بھی ایسی کہ جس کی مہک ایک چمن کونہیں بلکہ دور و نزدیک کے چمن ہائے بے شمار اس کی قربت سے کِھل اُٹھتے ہیں !
محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ نے ادبی دنیا کی نہ جانے کتنی جہتوں پر سفر کر کے خود کو آسان بنایاہے، اصناف کی ساری کی ساری جہتیں ۔۔۔ غزل، نظم،حمد ، نعت گوئی، سلام، منقبت، مناجات، مرثیہ، نوحہ، قصیدہ،قطعات، رباعیات، دوہے، فکاہیہ، ثلاثی ، ہائیکو، تروینی،ماہیہ، طنزومزاح اور پیروڈی کے علاوہ اردوادب میں قابلِ ذکر کام کیا ہے ۔۔۔! ََ
اگر فنکار کا قلم تازہ دم ہے تو نہ صرف فکری سطح پر بلکہ فنی سطح پر بھی کمالات دکھا سکتا ہے اور یہ کمال زیبیؔصاحبہ نے کرکے دکھایاہے جو معاصراردو شاعری کی انفرادییت کو معیاری اور مستحکم بناتے ہیں ، فنِ شاعری کے علم اور علم کے لئے انہماک ضروری ہے اور ساتھ ہی نکاتِ شاعری کی معلومات ازبس ضروری ہے ، محترمہ زیبیؔ صاحبہ کے علم اور علم کے انہماک کا عملی عکس اردو ادب میں ایک نئی شعری صنف ’’ سوالنے‘‘ کی ایجاد بھی ہے ،’’سوالنے ‘‘دراصل ایک سہ مصرعی نظم ہے جو تمام بحور میں لکھی جاتی ہے اور جواب بھی بین السطور میں مل جاتا ہے ۔۔ ؎
مجھے کیوں کرب میں زنجیر کرناچاہتاہے
رلاتاہے دن رات آخر مجھے کیوں
وہ زیبیؔ سے مجھے کیا میرؔکرناچاہتاہے
ایک اور شعری صنف ’تروینی‘ جس کے خالق بھارت کے گلزار صاحب ہیں اس پہ شاعرات میں اولین شعری مجمو عہ ۱۹۹۸ء میں ’’ تیرا انتظار ہے ‘‘ کی خالق بھی زیبیؔ صاحبہ ہی ہیں ، یہاں میں ایک بات اور واضح کردوں کہ ’’ تروینی‘‘ ہندی لفظ ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ جگہ جہاں تین ندیاں آکر ملتی ہیں ،اور یہ جگہ بھارت کے شہر الہ آباد اور اب ـ’ پرپاگ راج‘ میں واقع ہے۔۔!
موصوفہ کا ایک اور کارنامہ جس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ تخلص کا نشان جو بے نام تھا اور شعراء حضرات اسے ’ڈوئی ‘ کہہ دیتے تھے اس کو زیبیؔ صاحبہ نے ایک ادبی نام ’’ موخلص ‘‘ سے نوازکراردو لغت میں ایک اورنشان کااضافہ کردیا ہے۔۔۔!
پانچ عدد ضخیم کلیات کی بھی خالق ہیں اور ہر کلیات ۲۰۰۰ صفحات پہ مشتمل ہے
نظم کی ۷۰ اصناف پر ’’ سُخنِ ناتمام‘‘ اور غزلیات کی کلیات ’’ کارِ دوام ‘‘ افسانے، ناول، ناولٹ کی کلیات ’’عکسِ زندگی‘‘ تحقیقی کالم مقالے کی نثری
کلیات ’’ متاعِ ز یست‘‘ اور شاعری کی فردیات نظم و غزل کی کلیات
’’ حرِفِ ناتمام‘‘ یہ ساری تصانیف بالترتیب ۲۰۱۳ء ، ۲۰۱۴ ء اور ۲۰۱۹ء میں شائع ہوکر مقبولِ خاص و عام ہوچکی ہیں ان ساری معرکتہ الآرا تصانیف کے علاوہ کئی نصابی کتابوں وغیرہ کی مصنفہ ہیں ۔ اور کیا لکھوں اب تو میرے قلم کی بھی سانس پھولنے لگی ہے،سچ تو یہ ہے ہم جیسے شاعر تو چند ایک شعری مجموعہ چھپواکر گویا آسمان میں سوراخ کرنے لگتے ہیں ، اور یہاں تو زیبی صاحبہ نے تو خود کو آسمان بنالیا ہے جسے دور سے دیکھاتوجاسکتا ہے پہنچانہیں جاسکتا،اور یہ اعتراف کرنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ زیبی صاحبہ کی تمام تصانیف کا مطالعہ کرنے کے لئے عمر کی یہ منزل جس پر آج ہوں ناکافی ترین ہے، زیب النساء زیبیؔ صاحبہ کی شاعری بساط ہے بسیط نہیں ہے ،صنفِ شاعری کے اس طویل ترین سفر میں شور شرابہ تو بالکل نہیں ہے، سیدھا ساد ہ لہجہ، سیدھی سادی بات آسانی سے سامنے رکھ دیاور آگے بڑھ گئیں،ہاں اگر آپ کے دل ودماغ میں پروفیسر کلیم الدین احمد کا یہ جملہ کہ ’’ غزل ایک وحشی صنف ہے ‘‘
تو آپ زیبی صاحبہ کاتمام تر کلام پڑھنے کے بعد یہ کرخت جملہ ضرور بھول جائیں گے کہ غزل ایک وحشی صنف ِ غزل نہیں بلکہ غزل ایک مہذب صنفِ غزل ہے ۔۔۔۔۔!
؎ اب اس کے مقابل میں کھڑی ہونے لگی ہوں
پھرتا ہے بڑا میر کا دیوان اُٹھاکر
؎ اپنی اپنی الجھنوں میں اب ہیں سارے الجھے ہوئے
اب نہیں باقی کہیں آنکھوں میں تابِ زندگی
مشرق سے لے کر مغرب تک ،شمال سے جنوب تک کا سفر کرناممکن ہے آسان ہو مگر لیکن اس مشکل ترین سفر میں خود کو آسان بنالینا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور کہاجاسکتاہے میں زیبی صاحبہ کے اس شعر سے متفق ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔
؎ نہیں شرمندۂ احسان کسی کی
خود اپنے کام سے ہوں ضوفشاں
انسانی تہذیب کی تفسیر لکھ دی گئی ،شرح وبست مقرر ہوگئی،اقدار کی تفصیل انسانیت کے حوالے کردی گئی،جو روحیں سو چکی تھیں ان میں شرافت اور تہذیب کی سانس ڈالی گئیں اور اقدار کایہ سلسلہ چلتارہاچلتارہامگر اس کے راستے میں پھر رکاوٹیں ڈالی گئیں تو یہ سلسلہ ایک بار پھر رک گیااور خوبصورت جسموں کی نمائشیں اور ان کی خریدوفروخت اقدار کاحصہ بننے لگیں ،روح کی شرافت، تہذیب کے کسی کونے میں پڑی سسکنے لگی حقیقتیں تلخ ہوتی ہیں اور جس کا اشارہ بھی تلخ ہوتاہے،یہ تلخی، مایوسی کی شکل میں اربابِ سُخن کے قلم سے وجود میں آنے لگی، انسانیت کی چیخ ،اشعار کی صورت میں سنائی دینے لگی، محترمہ زیبی صاحبہ کے حساس قلم نے بھی اپنافرض نبھایا
؎ مختاراں مائی جیسی ہیں ساری کی سای تصویریں
کیا اقدارِ شریعت ہے کیا شرح انسانی ہے
یہ لاکھوں سال پرانی ہیں سب اس عورت کی تقدیریں
چلتی پھرتی زندہ روحیں، معصوموں کی چیخیں ہیں یہ
حدیثِ قدسی ہے کہ اگر تمام سمندروں کی روشنائی اور تمام اشجار کے قلم بنادیئے جائیں تو اللہ سُبحان وتعٰالیٰ کی تعریف ممکن نہیں ،حدیثِ قدسی کے بعدکیا کسی انسانی قلم میں اتنی طاقت ہے کہ اللہ کی تعریف بیان کرسکے۔۔؟ مگر پھر بھی انسان اپنے رب کی حمد وثناء میں رطب النسان رہتاہے ،رب العالمین کی حمد کرنے کا حق صرف اسی طریقے سے ادا کرنا ممکن ہے کہ قرآن کامطالعہ گہرائی اور گیرائی سے کیاجائے ۔۔ زیبی صاحبہ کی تحریر کردہ حمد کامطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس بات کااحساس ہوا کہ قرآن کامطالعہ گہرائی اور گیرائی سے کرنے کے بعد ہی حمدیہ اشعار کا وجود عمل میں آیا ہے ۔۔۔۔۔ـ
ٍ ؎ توزمین وزماں کا مالک ہے
اور توہی میری جاں کامالک ہے
چاند سورج ہیں شاہکار تیرے
انجم وکہکشاں کا مالک ہے
شہر،بن،صحرا،دریا،بحر ،پہاڑ
بیکراں بیکراں کا مالک ہے
اور کوئی کیا لکھے اپنے خالق کے بارے میں جو مالک ،خالق ہے ،رب ِ جلیل ہے، لاشریک ہے جو کرم کی ابتدأ ہے جو کرم کی انتہأ ہے، شہنشاہِ لولاک ہے،
جو ربِ کائنات ہے، پالناوالا ہے ۔۔۔۔۔۔ پھر بھی بے نیاز ہے
کیا لکھوں ۔۔۔ ؟ الفاظکانپ رہے ہیں ،جملے خوف زدہ ہیں اس لاشریک کی
ہیبت سے ، محترمہ زیبی صاحبہ نے اپنی حمد میں انھیں جذبات کااظہار فرمایاہے
؎ مالک ہے ، تو ہی خالق وربِ جلیل ہے
دنیاکو پالنے والا کفیل ہے
لاریب لاشریک ہے لاریب لاشریک
اے ربِ ذوالجلال توہی عدیل ہے
عرفی شیرازی کے بقول ’’ نعت کہنا‘‘ گویاتلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے
ذراسی لغزش عافیت خراب کرسکتی ہے، علامہ اقبال فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔
’’باخدا دیوانہ باش بامحمد ہوشیار باش‘‘
یعنی اللہ رب العزت کے سامنے تو دیوانگی کام آسکتی ہے لیکن آپ ؐکے سامنے ہوشیار رہناضروری ہے، علامہ محسن کاکوروی کے ہاں نعت گوئی کی شفافیت کا یہ عالم تھا کہ وہ پہلے غسل فرماتے اور پاک وصاف کپڑے پہن کر نعت شریف کہنے میں مشغول ہوجاتے ہوش وخرد سے بیگانہ ہو کر ۔۔۔۔ اوراسی ہوش وخرد اور بیگانگی کے آثار زیبی صاحبہ کی نعت گوئی میں نظر آتے ہیں ۔۔
؎ ڈھل گئیں تھیں دھڑکنیں دل کی درودِ پاک میں
آگیا جب بابِ شفیعؐروزِ محشرِؐ محشرسامنے
کیا تعجب ہے فرمائیں حضور ؐ
دیکھ زیبی وہ ہے جامِ حوضِ کو ثر سامنے
آپ ؐ کے حسنِ کردار، آپ ؐکے اوصافِ جمیلہ، مبارک ومقدس تعلیمات کا تذکرہ قرآن میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایاگیاہے، صحیح مسلم جلد اول صفحہ ۲۵۶ میں لکھا ہے کہ سب سے جامع تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمائی ہے، حضرت سلام بن حثام ؓ کہ نے اُم المومنین سے عرض کیا کہ مجھے آپ ؐ کے خلق بارے میں بتائیں ، جواب میں فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو،عرض کیا پڑھتا ہوں ،اُم المومنین نے فرمایا کہ نبی ؐکاخلق قرآن ہے، آپؐ ؐکی عظمت ورفعت خداوندِکریم کا ایک عطیہ ہے جو انسان کے تصور سے ماورا ہے،اب زیبی صاحبہ کے شعر کی روشنی میں آپ ؐکاعکس ملاحظہ فرمائیں ۔۔ ؎ بوبکر و عمر عثمان غنی
ہیں عشق ِنبیؐ سے سب ہی ولی
درویش بصد عرفان و یقین
مرغوب غذا بس نان جویں
وہ نورِ ہدایت ہیں زیبی
ہے راہ نما ان کی ہستی
واقعات ِکربلا تاریخِ کائینات کا المیہ ہے جس کی دوسری مثال یقیناً اس کائینات میں نہیں ملتی،،ہر مسلمان جانتا ہے کہ سیدنا حسین ؓ کی قربانی کا مقصد اسلام کا احیا
ہے، سیدنا حُسین ؓ کی شہادت کا مقصد اسلام کو زند ہ جاوید کرناہے،یہی وجہ ہے کہ تمام عالمِ اسلام کسی نہ کسی شکل میں شہدائے کربلاکو یاد کرتے ہوئے سلام پیش کرتا ہے یعنی غزل کے انداز پر وہ نظم جس میں واقعاتِ کربلا کاذکر ہو کہہ کر اپنے جذبات کااظہار کرتاہے ۔۔۔
؎ وہ فاطمہ ؓ کے لاڈلے بیٹے حسینؓ ہیں
محبوبِ کبریا کے نواسے حسین ؓ ہیں
حق وصداقتوں کے جو سالار ہیں حسینؓ
لاشوں پہ کیسے بے بس و لاچار ہیں حسینؓ
دیکھو سجی ہے خونِ شہیداں سے کربلا
یوں سرخ رو ہے آج بہتر کا قافلہ
اے ساحلِ فرات کے پیاسو تمہیں سلام
صد آفرین حیات کا تم نے دیا پیام
تاریخ کو ہے ناز تمہاری حیات پر
تم سا کہاں زمانے میں غیور و راہ بر
اردو شاعری کے ہر دور میں ہم کو طنزومزاح کے بہترین نمونے ملتے رہتے ہیں
اکبر الہ آبادی کی شاعری اس کی ایک مثال ہے اور نثر کی دنیا پر نظر ڈالیں تو خطوطِ غالب ہمارے سامنے ہیںمیں زیبی صاحبہ کی طنز ومزاح کی شاعری سے طنز الگ کرکے صرف مزاح کو چُن لیتا ہوں کیوں کہ مزاح میں صرف تفریح کا عُنصر ہوتا ہے جہاں صرف قہقہے اور صرف قہقہے بلند ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
؎ کہا اک ماڈرن لیلیٰ نے خستہ حال مجنوں سے
اگر مجھ سے محبت ہے تو اپ ٹوڈیٹ ہوجاؤ
بہت ہی فاسٹ ہے اس دور میں چاہت کی دنیابھی
کہیں ایسا نہ ہوکہ تم عاشقی میں لیٹ ہوجاؤ
۔۔۔۔
؎ بہت دل دکھاتی ہے اس کی نشانی
انگھوٹی ہے پیتل کی سونے کا پانی
نمکین کلام میں ’’ اف یہ بیویاں‘‘ پر صرف ایک ہی تبصرہ کروں گا ۔۔۔۔۔
؎ مجھ کو حالت اجازت نہیں دیتے ورنہ
زندگی کار گہہ بادۂ و رنگ آج بھی ہے
محترمہ زیب النساء زیبیؔ صاحبہ کی ادبی وعلمی خدمات کے اعتراف میں کراچی
(پاکستان) میں ایک روڈ ’’ زیب النساء زیبی روڈ‘‘ منسوب کیاگیا،
اکادمی ادبیات سندھ کے تعاون سے ’’زیب النساء زیبی فن وشخصیت پر ۸۰۰ صفحات پر مشتمل ایک کتاب بھی شائع کی گئی ہے جو محسن اعظم محسن صاحب نے تحریر کی ہے اور اکادمی ادبیات اسلام آباد نے ان کی لائف انشورنس بھی کی ہوئی ہے،
میں اس بات کااعتراف کرتا ہوں کہ آپ ادبی آسمان میں ماہتاب اورآ ّفتاب کی مانند اپنی کرنیں بکھیررہی ہیں، محترمہ زیب النساء زیبیؔصاحبہ کی اس گراں قدر ادبی وعلمی کاوشوں کو سامنے رکھتے ہوئے آج مجھے انشاءؔجی مرحوم کا یہ سکّہ بندقول جو بطورِ سند مشتاق یوسفی مرحوم کے بارے میں کہا تھا
’’ ہم ادب کے دَورِیوسفی میں جی رہے ہیں‘‘
انشاء جی مرحوم کے قول میں چھوٹی سی ترمیم کرکے اگر میں یہ کہوں توبے جانہ ہوگاکہ
’’ ہم عہدِحاضر کے ادبی دَورِ زیبیؔمیں جی رہے ہیں ‘‘
بہرحال یہ ایک خداد صلاحٰت ہے جس پر ہم سب کو محترمہ زیبیؔصاحبہ پربہت فخرہے،میں آپ کی ادبی خدمات کو سلام پیش کرتاہوں