بحران سیاسی نہیں دانش کا ہے
اب ہرکوئی کہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ لیکن جب آج سے پچیس تیس سال قبل میرے جیسے منہ پھٹ اپنی چڑھتی جوانی میں یہ بات کہتے تھے تو ہمیں ناامید شخص قرار دیا جاتا تھا۔ اس زوال، ناکامی اور بدحالی کا ذمہ دار صرف اور صرف سیاسی لوگوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ آج بھی اکثر نوجوان جو میرے قلم کے ذریعے مجھ سے متعارف ہوئے اور اُن میں سے ہرکوئی کسی نہ کسی سیاسی لیڈر کا دیوانہ وار مداح ہے، وہ بھی اپنے چاہے جانے والے لیڈر کو عاشقانہ حد تک چاہنے کے باوجود بھی مجھ سے یہی پوچھتے ہیں کہ ’’سر یہ ہمارے سیاسی لیڈر اس قدر منافق کیوں ہیں؟‘‘ جب میرا جواب ہوتا ہے کہ وہ سوسائٹی کا عکس ہیں، اُن لوگوں کا عکس جو انہیں ووٹ دے کر کامیاب سیاسی لیڈر بناتے ہیں تو یہ نوجوان احترام میں خاموش تو ہوجاتے ہیں مگر مکمل مطمئن نہیں ہوتے۔اس لیے کہ اُن کی دلی تسکین سیاسی لوگوں کو گالی دینے سے ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ادیب، صحافی، اینکرز اور اب ہرکوئی فرد جس کے پاس سمارٹ فون ہے، ان کے فون سیاسی لوگوں کو بددیانت، بدمعاش، نااہل، لٹیرے، چور، ڈاکو، ملک کی ناکامی وبربادی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے گھٹیا قسم کے مواد سے بھرے پڑے ہیں۔ دوسرے ممالک کے حکمرانوں کی بڑائی کی جھوٹ پر مبنی کہانیاں اُن کو کس قدر روحانی تسکین دیتی ہیں کہ وہ انہیں میرے جیسے سیاسی جہاںگرد سے بھی شیئر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ایسے ایسے غیرملکی حکمران جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ کس قدر ’’عظیم اور ایمان دار‘‘ ہیں۔
میرا ہمیشہ ایک سوال رہا ہے کہ کیا پاکستان کے معاشرے کے زوال کے ذمہ دار سیاست دان ہیں؟ کیا صرف وہی نااہل، نالائق اور چور ڈاکو ہیں؟ حالاںکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی حکمرانی اور وسائل پر وہ سب سے چھوٹے شراکت دار ہیں، یعنی حکمرانی کے ایوانوں میں سیاسی لوگوں کا حصہ، کردار اور طاقت جونیئر پارٹنرز کی ہے۔ سوسائٹی اور سٹیٹ اس کی بربادی میں سیاست دانوں کے علاوہ اس میں ہر شعبے کے لوگوں نے اپنا اپنا ’’اہم کردار‘‘ ادا کیا۔ اسی لیے میں کئی سالوں سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ ہمارے سماج، ملک اور ریاست میں کرپشن سے بڑا مسئلہ نااہلی (Incompetency) کا ہے۔ دولت لوٹنے سے زیادہ مسئلہ استحصال (Exploitation) کا ہے۔
معذرت کے ساتھ کہ ہم جس ادب اور شاعری کی فیکٹریاں لگارکھی ہیں، وہ سیاست دانوں کی سیاست کے مقابلے میں زیادہ بڑا کوڑاکرکٹ ہیں، یعنی ہمارے ہاں زوال کا زور ہمارے ملک کے نام نہاد دانشوروں کے ہاں زیادہ پایا جاتا ہے۔ دانش کا زوال، اس زوال میں پہلے ادیب اور شعرا شامل تھے، اب صحافی اور اینکرز بھی شامل ہوگئے۔ جو سماج میں جسمانی طور پر موجود زندہ ادیبوں مثلاً الطاف فاطمہ اور ڈاکٹر انور سجاد جیسے ادیبوں کو پیچھے دھکیل کر ’’آسٹریلیا سے آئی بے بدل لفظوں کی شاعرہ اور افسانہ نگار‘‘ جیسے مکمل جعلی لکھاریوں کو تسلیم کرے، کیا اِن لوگوں کو اس زوال کے ہراول دستے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ گلی گلی جنم لینے والے لاکھوں شاعر اور ادیب، میں نے اس قدر جدید دنیا میں نہیں دیکھے، جتنے ہمارے ہاں ہیں مگر پھر بھی عالمی ادب میں ہم کہیں نہیں کھڑے۔ ابھی تلک جو سماج اپنی زبان کا ہی مقدمہ لڑ رہا ہو، اس سماج کے ادب کا کیا حال ہوگا۔ میں نے دنیا کے کسی ملک میں ورلڈ انگلش، ورلڈ فرانسیسی یا عالمی عربی، فارسی کانفرنس کے نام پر کانفرنس منعقد ہوتے نہیں دیکھیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ اپنی زبان کے نام پر کانفرنس منعقد کرکے ہر وقت یہ شور مچاتے جا رہے ہیں۔ اردو کے عالمی جزیرے بھی پیدا ہوگئے ہیں، امریکہ، کینیڈا، یورپ اور دیگر خطوں میں۔ خودفریبی میں ہم اپنی مثال آپ ہیں۔ زبانوں کی ترقی کانفرنسوں سے نہیں، اس میں سماجی، سائنسی اور فکری خزانوں کے بڑھنے سے ہوتی ہے۔ میں ایسے لاتعداد اردو دانشوروں کو جانتا ہوں جو مغربی دنیا میں رہتے ہیں اور اپنے کالج پر مضمون کا ایک صفحہ نہیں لکھ سکتے، مگر ’’یورپ میں اردو کا فروغ‘‘ کا لیبل ان پر چسپاں ہے۔ بس تقریبات کا اہتمام کرنا اور اس میں مہمانِ خصوصی ہوجانا اور پھر یورپ میں نام نہاد لٹریری، نام نہاد کیا کاغذی لٹریری سوسائٹی کا عہدے دار۔ ان میں مرد تو کیا اب خواتین بھی پیش پیش ہیں۔
جب کسی سماج میں انصاف اور حق کا قتل کردیا جائے تو حقیقی علم اور علم والے دفن ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی بونے ابھرنے لگتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں۔ جب حبیب جالب زندہ تھے تو مانتا کوئی نہیں تھا، غداری اور کفر کے فتوے ان پر لگتے تھے۔ جب وہ اس جہان سے رخصت ہوئے تو ان اُن کے اشعار پر جھوم جھوم کر تقریریں کی جاتی ہیں۔ فیض احمد فیض غدار اور کافر قرار دئیے گئے، اب پاکستانیت کا پرچم بلند کرنے والوں سے لے کر جہاد کرنے والوں تک، سب اپنی تقریروں کا آغاز فیض کے اشعار سے کرتے ہیں۔ علامہ اقبال تازندگی کافر قرار دئیے جاتے رہے۔ اب بڑے عاشقانِ اسلام کے قافلوں کے رہبر اُن کے کلام سے تقاریر کا آغاز کرتے ہیں۔ اُن کا اسلام کا ولی قرار دیتے ہیں۔ ایسا سماج جو حقیقی ادیب، شاعر، فلاسفر، مفکر، سیاسی مفکر (Political Scientists)اور اہل فکر کو زندہ درگور کردے، وہاں پر یا تو مُردوں کو مانا جاتا ہے یا پھر بونوں کا راج ہوتا ہے۔ افسوس، دانش کے اس زوال میں صحافت نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ زوال کے اس سفر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں ہی پیش پیش ہیں۔ بیس کروڑ کی آبادی میں سے نصف آبادی کے پاس سمارٹ فون ہیں۔ آدھی آبادی تعلیم یافتہ نہیں۔ خواندگی کی حقیقی شرح بیس فیصد سے بھی کم ہے۔ مگر آدھی سے زیاد ہ آبادی ، اطلاعات کے مطابق بارہ کروڑ کے پاس عالمی سرمایہ داری کے فراہم کردہ کھلونے (سمارٹ فون)موجود ہیں۔ اُن پر وہ سارا دن جو مواد شیئر کرتے ہیں، وہ کروڑوں کی تعداد میں کلپس ہیں۔ آڈیو، ویڈیو اور لکھے ہوئے پیغامات جن میں جنت کمانے کے راستوں سے لے کر کینسر کے علاج کے ٹوٹکوں تک، ادب پاروں کے نام پر جہالت سے لے کر دوسرے ممالک کے ’’حکمرانوں کی عظمت کی کہانیوں‘‘تک جو سراسر جھوٹ اور مکمل طور پر غلط معلومات پر مبنی ہوتی ہیں، اور سب سے مشترکہ چیز سیاست دانوں کو چور، قاتل، ڈاکو، لٹیرا اور قول وریاست کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے تک، سب شیئر ہوتا ہے۔ آسان ہے سیاست دانوں کو گالی دینا۔ کسی اور طاقتور شعبوں کو گالی دینا اور تباہی کا ذمہ دار اس لیے نہیں ٹھہرایا جاتا کہ اُن اداروں، شعبوں اور لوگوں کے پاس طاقت کے کئی Instrumentsہیں۔ بندوق، ٹیلی ویژن سکرین اور مذہب کا فتویٰ۔ زوال کے اس تیزرفتار سفر میں فیصلہ کن کردار ہمارے ٹیلی ویژن اینکرز کا ہے، جس طرح وہ دعووں کے ساتھ Shout کرتے ہیں، اس نے سمارٹ فون رکھنے والے بارہ کروڑ لوگوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ اسی لیے اب سوشل میڈیا ، مین سٹریم میڈیا سے زیادہ اس زوال میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کس قدر خودغرض ہے۔ اربوں ڈالرز کے سمارٹ فون اور اربوں ڈالر کی یہ تجارت، یعنی سمارٹ فونز کے بلز۔ اور اس طرح وہ اس زوال یافتہ سماج کے بونوں سے تین کام لے رہے ہیں۔کاروبار (اربوں ڈالرز میں)، جہالت کو مزید جہالت میں دھکیلے رکھنا تاکہ یہ خود کسی قابل نہ ہوجائیں، سوائے گاہک بنے رہنے کے ان کا (ہمارا) کوئی کردار نہیںاور تیسرا کام، پوری قوم کا ڈیٹا ہر لمحہ اُن کے پاس موجود ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے ان ٹولز پر جو کچھ لکھ کر شیئر کررہے ہوتے ہیں، وہ ہمارے ان کرتوتوں اور ہماری حقیقت سے خوب آگاہ ہیں۔ حتیٰ کہ ہم لوگوں کی معصوم جہالت کا اندازہ لگائیں کہ ہم یہ بھی لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ’’ا س کو اتنا شیئر کریں کہ کفار کو ناکوں چنے چبوا دیں۔‘‘ یہ بارہ کروڑ سمارٹ فون جس کو ہم نے اپنی طاقت سمجھ رکھا ہے، ہماری سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ اُن کی ہمارے ذہنوں پرگرفت بھی ہے اور ہمیں سمجھنے کے لیے اُن کو آسانی بھی ہے۔
زوال کے اس عمل میں کیا صرف سیاست دان شامل ہیں؟ لوٹ مار، نااہلیت اور طاقت کا غلط استعمال صرف سیاست دانوں تک محدود ہے؟ یہ ایک سراسر دھوکا ہے جو ہم اپنے آپ کو دے رہے ہیں۔ پاکستان کا زوال اور اس زوال کا ہراول دستہ ہمارے ’’دانشور‘‘ ہیں یعنی دانش کا زوال۔ ہم جسے دانش سمجھے بیٹھے ہیں، حقیقت میں Anti-Intellectualism ہے، یعنی ہم نے اپنے جہالت پر غرور کرنا شروع کردیا ہے۔ دانش کے زوال کی بنیاد ہمارے سماج میں تعلیم اور حقیقی جدید تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ چند ایک جدید تعلیمی اداروں کا کردار بس اتنا ہے کہ وہ حکمران طبقات کو جنم دیں اور دوسرے نیم تعلیمی ادارے ان کے کلرک پیدا کرتے ہیں۔ اور باقی محکوم عوام۔ اسلام کی بنیاد ہی ‘‘اقراء‘‘ ہے۔ اسی لیے چند سالوں میں اسلام ایک وقت میں دنیا میں جدید تہذیبوں کا گہوارہ بن گیا۔ ’’اقراء‘‘ ہی سے یہ سفر شروع ہوا۔جبکہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ خدارا ،اس کے زوال کے اسباب اور ذمہ داری کی جب تک درست نشاندہی نہ کریں گے، یہ زوال بڑھتا چلا جائے گا۔ میں ادب سے عرض کروں گا، اس زوال، لوٹ مار اور ناکامی میں سیاست کرنے والے سب سے پیچھے ہیں۔ وہ دوسرے لوگ اور شعبے ہیں جوسب سے آگے ہیں۔
“