”بدھ“سنسکرت زبان کالفظ ہے جس کامطلب روشنی،جاگنایا بیداری وغیرہ ہے۔یہ نام اس مذہب کے بانی ”سری مہاتماگوتم بدھ“سے منسوب ہے۔اس نام کامذہب دنیامیں گزشتہ ڈھائی ہزارسالوں سے موجود ہے۔یہ مذہب کچھ عقائد اور چند فلسفیانہ اخلاقیات وروایات کا مجموعہ ہے جس کالب لباب اندرونی سچائی کاحصول ہے جسے ”دھیان“،”گیان“اور ”نروان“کی اصطلاحات سے یاد کیاجاتاہے۔اس مذہب میں عبادات کی جگہ پر کچھ روحانی کسرتیں رائج ہیں،جنہیں زیادہ تر تنہائی میں اور کبھی کبھی مذہبی بھگشو دائرے کی شکل میں مل کر بھی اداکرتے ہیں۔”تری پٹک“کے نام سے مذہبی کتب بھی موجود ہیں لیکن ان کے استنادکی کوئی ٹھوس بنیاد معدوم ہے۔قدیم ہندوستان سے جنم لینے والایہ مذہب مشرقی ایشیائی علاقوں تک پھیلتارہا۔اس وقت دنیابھرکے کم و بیش سات فیصدلوگ اس مذہب کے پیروکارہیں جو کمیت کے اعتبار سے دنیائے انسانیت کاچوتھابڑامذہب بنتاہے۔فی العصر سری لنکا،برمایامیانمار،کمبوڈیا،لوئس،تھائی لینڈ،کلمیکیا اورمنگولیاسمیت تبت اور ہمالیہ کی وادیوں میں اس مذہب کے پیروکار بکثرت موجودہیں۔عام طورپراس مذہب میں خداکاتصورموجودنہیں یاکہیں کہیں کائنات کے اندرکسی بالاترقوت کادھندلاسامبہم اشارہ ملتاہے۔شایداسی وجہ سے مغرب کے خدابیزار سیکولر،لبرل،ہیپی،اتھیسٹ ہوس پرست طبقہ میں یہ مذہب کافی مقبول ہے۔
بھوکاپیاسارہنا بدھ مت کی بنیادی سنیاسی روحانی آزمائشوں میں سے ایک ہے۔ابتدائی طورپر بدھ بھگشوصرف ان تعلیمات کی پابندی کرتے تھے جو ”وناؤں“میں لکھے ہیں اور ان کے مجموعے کو”پرتی موسکا“کہتے ہیں۔ان تعلیمات کے مطابق کسی بدھ بھگشوکو دوپہر کے بعد کھانا کھانے کی اجازت نہیں تھی اورایسا کرناپاپ سمجھاجاتاتھا۔بدھ مذہب کے مطابق بعد دوپہرکاوقت مراقبے کے لیے ہوتاہے جس کے لیے”سوترا“کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔”سوترا“اگرچہ سنسکرت کا لفظ ہے لیکن اشتراک تلفظ کی بناپریہ عربی لفظ”سطر“کے ہم معنی ہو سکتاہے،”سطر“لکھے گئے متن میں ایک طرف سے دوسری طرف تک الفاظ کی عبارت کو کہتے ہیں۔اس سے صاف اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ابتدائی زمانے میں تعلیم و تعلم ہی مراقبہ ہوتاتھاجو کہ عصر کے وقت ہواکرتاتھا،یہی روایت اسلام کے ابتدائی ایام میں بھی نظرآتی ہے۔بدھ مت کی اس روایت کو اگرچہ روزہ تو نہیں کہ سکتے لیکن اس سے یہ مطلب ضرورنکالا جاسکتاہے کی کسی بھی مذہبی رسم کی ادائگی کے لیے پیٹ کاخالی ہو نا ضروری ہے۔بدھ بھگشوؤں کے لیے تودوپہرکے بعد کھاناکھانامنع تھاہی لیکن عام لوگ بھی جب کبھی کسی مراقبے یا پوجاپاٹ میں آتے توان کے لیے بھوکے پیٹ آنا ہی پسندیدہ سمجھاجاتاتھا۔
سری مہاتماگوتم بدھ نے آٹھ راستے نصیحت کیے تھے جن پر چل کر نروان حاصل کیاجاسکتاہے۔نروان کی اصطلاح کم و بیش پورے بدھ مت کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے لیکن مختصراََیہ سمجھ لیناکافی ہے کہ نروان کامقصدآزادی،چھٹکارااورپریشانیوں سے نجات ہے اور نروان وہ مقام ہے جہاں آتما یعنی روح اس دنیاکی آلائشوں سے نجات حاصل کر کے پوتریعنی صاف شفاف ہوجاتی ہے۔نروان حاصل کرنے کے آٹھ راستوں میں سے سب سے اہم راستہ ”درمیانی راستہ“ہے۔اس درمیانی راستے کے لئے ”دھم کک پوتن سوت“کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کالب لباب افراط و تفریط سے بچتے ہوئے وسطی راستہ سے معاملات کا نبھانا۔اسی مفہوم کی ایک حدیث بنویﷺ بھی موجود ہے کہ ”خیرالامور اوسطھا“کہ بہترین کام میانہ روی والے ہوتے ہیں۔بدھ مت میں ”درمیانی راستہ“کاسب سے اولین تقاضہ لذتوں کو خیرآباد کہناہے اور شم و زیرشکم کے مزوں سے بچتے ہوئے زہدکے راستے کواختیارکرناہے۔”درمیانی راستے“کی اس منزل کے حصول کے لیے بدھ بگشؤں کوانتہائی اوراخیرسادگی اورسخت ترین روزوں کے عمل سے گزرناپڑتاہے۔ ان روزوں کے دوران پھلیوں کی یخنی کے یومیہ چندقطروں پر کئی کئی دنوں تک زندہ رہناہے۔بدھ مت میں ان روزوں کی انتہایہ سمجھی جاتی ہے کہ چیلا یعنی سالک روزوں کے بعد محض اس قابل ہو کہ بمشکل اپنے پاؤں پر کھڑاہوسکے۔روزہ جن کسرتوں کا ایک حصہ ہے ان کامجموعہ ”جھانیا‘کہلاتاہے۔ان کسرتوں میں مذکورہ پابندیوں کے ساتھ ساتھ مسلسل جاگتے رہناسمیت ان تمام امور سے اجتناب ضروری ہوتاہے جن کے ذریعے نفس کو کسی طرح کی راحت،آسودگی اورآرام میسرآتاہو۔
بدھ مت میں کی تعلیمات میں ایک دن میں صرف ایک وقت کے کھاناکھانااورباقی سارادن بھوکے رہنے کو بھی روزہ سمجھاجاتاہے۔”ڈھو ٹانگا“نامی یہ روایت تھائی لینڈ کے جنگلات میں رہنے والے ”تھیرواد“فرقے کے بدھ بھگشؤں کی ہوتی تھی۔”ڈھوٹانگا“ایک ایسی روایتی اصطلاح ہے جس کا مطلب دنیاسے بے رغبتی پیداکرناہے حتی کی اپنے جسم کو بھی نظراندازکردینا اس روایت کاایک حصہ ہے۔اسی روایت کے تحت بدھ بھگشؤں کو زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے اور کمانے کی یاتجارت و ملازمت کی اجازت نہیں ہوتی اور انہیں اپنی روح اور جسم کا رشتہ برقراررکھنے کے لیے دربدر بھیگ مانگنی ہوتی ہے۔بعض اوقات یہ بدھ بھگشواجتماعی طورپر بھی بھیک مانگتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں ”پیالہ“ہوتاہے۔اس کشکولی ”پیالے“کے گرد بھی بدھ مت کے بے پناہ فلسفے گردش کرتے ہیں۔بہرحال اگر کوئی صاحب خانہ اس پیالے میں کچھ ڈال دے تو یہ بدھ بھگشو اسے اپنے پیٹ میں انڈیل لیتے ہیں۔اور اگر ان بھگشؤں میں سے کسی کوتوکھانے کو مل جائے اور کسی کی باری آنے تک وہ”پیالہ“خالی ہو جائے یا پھر سارادن مانگتے رہنے کے باوجود کوئی بھیک نہ ملے تو بدھ مذہب کے مطابق یہ اس دن کاروزہ ہو گا۔چین کے بدھ بھگشوبھی کم و بیش اسی طرح کاروزہ رکھتے ہیں صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان کے ہاں دنوں کی مخصوص تعدادکا تعین کیاجاتاہے۔اس طرح کے چینی روزے کو”زوہاجی“یا ”بھگوان زہی“کہتے ہیں اوریہ مشرقی ایشیائی ”مہایانا“بدھ مت میں رائج ہیں۔اس روایت کے مطابق آٹھ دن کاروزہ،چھ دنوں کاروزہ اور تین دنوں کاروزہ بھی رکھاجاتاہے،ان کے علاوہ جو بڑے بدھ بھگشوہیں وہ بدھ تقویمی سال کے پہلے،پانچویں اور نویں مہینے کے اول نصف ایام بھی روزوں سے گزارتے ہیں اور ان ایام میں گوشت اور مچھلی سے مکمل پرہیزہوتاہے۔جب کہ جاپانی بدھ مت میں یہ روزے ایک ہفتے کے دورانیے کے ہی ہوتے ہیں۔
بدھ مت میں روزے کاآغاز خشک روٹی کھاکر کیاجاتاہے،اور روزانہ کی بنیادپر صرف پانی کی محدود مقدار لینے کی اجازت ہوتی ہے۔روزے کااختتام دلیے جیسے کھانے پر کیاجاتاہے۔ابتداََ یہ مشق تھوڑے دنوں کے لیے کی جاتی ہے لیکن بعد میں دنوں کی تعداد متواتر بڑھائی جاتی رہتی ہے۔اس سلسلے کا آخری مرحلہ بہتر(72)دنوں کے روزے کاہوتاہے لیکن اس کے لیے کسی بزرگ گرو کاساتھ ہونا ضروری سمجھاجاتاہے جو پہلے ان سخت قسم کے جاں گسل مرحلوں سے گزرچکاہو۔چنانچہ بدھ میں یہ تصورعام ہے روزہ ہرکس و ناکس پر لازم نہیں ہے۔بدھ مت میں روزہ کے دوران بالکل بھوکاپیاسارہنے کے تصورات بھی ملتے ہیں اور بہت محدود کھانے پینے کی اجازت کے تصورات بھی ملتے ہیں اور صرف چنیدہ اشیا جیسے شہد،میٹھااور گھی کے کھانے پینے کے تصورات بھی موجود ہیں اور صرف کچھ چیزوں سے پرہیز کے خیالات بھی موجود ہیں۔روزے کامقصد تمام بدھ مکاتب فکرمیں ایک ہی ہے کہ جسم جتناکمزور ہو گا روح اتنی طاقتورہوگی اور بلندیوں کی طرف اور نجات کی طرف پرواز میں آسانی اور سہولت ہوگی۔
سری مہاتماگوتم بدھ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے سچے نبی تھے۔لیکن چونکہ قرآن و حدیث نبویﷺ میں ایسی کوئی واضع راہنمائی موجود نہیں اس لیے یہ بات خیالات کی حدتک توٹھیک ہوسکتی ہے لیکن اسے عقائد میں جگہ نہیں مل سکتی۔تاہم آج ان کے پیروکار بدھاکی اصل تعلیمات سے کتنی دور نکل چکے ہیں اس کا بھی مشاہدہ آسانی سے کیاجاسکتاہے۔بدھ مت کی کتب میں یہاں تک لکھاہے کہ راہ چلتے نہایت احتیاط سے چلو کہ مباداکوئی چیونٹی پاؤں کے نیچے آکر مر جائے۔اس حد تک دوسروں کو اپنے آپ سے محفوظ و مامون رکھنے والا مذہب اور اس کا بانی اور اسکی تعلیمات بہت قیمتی اور مقدس ہوں گے۔لیکن اس مذہب کے ماننے والے بدھوں نے ماضی قریب میں برماکے اندر جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا،ان کی بستیوں کی بستیاں جلائیں اور انہیں ملک بدر کیا اور طرح طرح کے نئے طریقوں سے ان پر تشددکر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارا کہ یہ سب کچھ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد یقین ہی نہیں آتا کہ یہ اسی سری مہاتما گوتم بدھ کے پیروکارہیں جن کی تعلیمات میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اگر ظلم کی کہانی کسی حکومت کی لکھی گئی ہوتی تو بھی اصراف نظر ممکن تھا لیکن افسوس تویہ ہے کہ بے پناہ تشدداور خلاف انسانیت افعال کے ذمہ دار براہ راست بدھ بھگشو ہی تھے جنہوں نے عام بدھوں کو اپنے پیچھے لگاکر انسانیت کا جنازہ نکالا۔روزوں کے نتیجے میں ایسی روحانی پاکیزگی اور حصول نروان کو کیاکیجئے کہ جب انسان کی پہچان ہی اندرسے نکل جائے۔کتنی صاف و شفاف تعلیمات ہیں محسن انسانیتﷺکی کہ جس ہستی نے روحانی پاکیزگی کو تقوی سے مستعارکیااور مسلمانوں اور غیرمسلموں کے لیے ایک ہی عالمی انسانی معیارات پیش کیے کہ کل انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور عزت کاحق داروہی ہے جو زیادہ متقی و پرہیزگارہے،صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...