بدھ مت
تیسرا اور آخری حصہ
ترقی کا سبب
بدھ مت کی ترقی و مقبولیت کا راز اس کے بانی کی بے داغ زندگی میں تھا ۔ اس کے علاوہ بدھ مت کے اصول نہایت سادہ تھے ۔ مذہبی و راہبانہ جماعت سنگھ نے اس کی اشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ ابتدا میں راجاؤں اور سرداروں نے بھی اس کی سرپرستی کی ۔ عام رواداری اور محبت کا پیغام عوام کے لئے جو برہمنی نظام کی قیود میں بندھے ہوئے تھے ۔ بدھ مذہب کو ابتدا میں نیچی زات کے لوگوں اور ویشوں نے اختیار کیا تھا ۔ پھر سرحدی ریاستوں کے راجاؤں نے اختیار کیا ۔ جب اشوک نے بھی بدھ مت کا پیرو ہوکر اسے اپنی سلطنت کے سرکاری مذہب کا درجہ دیا ، تو اس کی شہرت دور دور تک پھیل گیا ۔ یہ مذہب وادی سندھ سے افغانستان اور وسط ایشاء میں داخل ہوا اور براہ چین کے راستے کوریا تک پہنچ گیا ۔ اس طرح لنکا ، برما ، تبت ، سیام ، نیپال اور ملایا کے لوگوں نے اسے خوشی خوشی قبول کرلیا ۔ اشوک کے مبلغ یا بھکشو گاؤں گاؤں پھرتے اور اہنسا کا پرچار کرتے اور لوگوں کو جانوروں کی قربانی سے منع کرتے ۔ رفتہ رفتہ ان بھکشوؤں کے لئے وہار اور استوپے تعمیر ہونے لگے اور یہ جگہیں تعلیم اور عبادت کامرکز بن گئیں ۔ ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلہ تھا ۔ ٹیکسلہ کی پاٹ شالائیں جو وید کے بھجنوں اور اپنشدکے اشلوکوں سے گونجتی تھیں ، بدھ مت کی درستگاہوں میں تبدیل ہوگئیں ۔
موریا سلطنت کے ذوال کے بعد باختر کے یونانیوں نے ٹیکسلہ کو پایہ تخت بنایا تو انہوں نے بھی بدھ مذہب قبول کرلیا ۔ اشوک کے عہد میں بہت سے یونانیوں نے بدھ مذہب قبول کرلیا تھا ۔ چنانچہ مشہور بھکشو دھرم راجیکا جس سے ٹیکسلہ کا ایک اسٹوپہ منسوب ہے یونانی تھا ۔ اشوک نے اسے یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا تھا ۔ منیانڈر نے پٹنہ تسخیر کرلیا ، مگر وہاں سے آکر اشوک کی طرح جنگ و جدل سے تائب ہو کر بدھ مت اختیار کرلیا اور آخر عمر میں راج پاٹ سے کنارہ کشی کرکے بھکشو بن گیا ۔ منیانڈر کے دربار میں بدھ مذہباور ہندو پنڈتوں میں بحث مباحثے ہوتے رہتے تھے ۔ بدھ مت کے سنتوں میں منیانڈرر کا درجہ بہت اونچا ہے ۔ اس کے گرو ناگا سین نے منیانڈر کے جو مکالمات اور اقوال ’ ملندا شا ‘ کے نام سے مرتب کئے وہ آج بھی لنکا ، برما اور تھائی لینڈ میں گوتم بدھ کا سب سے مقدس صحیفہ سمجھے جاتے ہیں ۔
جب کشن قوم کے راجہ کنشک نے اپنی سلطنت قائم کی تو اسنے بھی بدھ مت قبول کرلیا ۔ اس نے اس کی ترقی و ترویح کے لئے بحت سے اقدامات کئے ۔ جن میں بدھ مت کے فرقوں کے اختلافات ختم کرانے کے لئے مجلس کا انعقاد اور اپنے دارلحکومت پرش پورہ ( پشاور ) میں ایک اسٹوپا کی تعمیر شامل ہے ۔ اس طرح وردھن خاندان کے راجہ ہریش نے بھی بدھ مت قبول کرلیا تھا ۔
وادی سندھ میں بدھ مت کی مقبولیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، کہ مشہور چینی سیاح ہیونگ سانگ یہاں سے گزرا تو فقط سندھ میں کئی سو سنگھران موجود تھے اور بھکشوؤں کی تعداد بھی دس ہزار سے زائد تھی ۔ حالانکہ اس وقت بدھ مت کو ذوال آچکا تھا اور ہندو مذہب دوبارہ حاوی ہو تاجا رہا تھا ۔
بدھ مت کا ذوال
بدھ مت پانچ سو سال تک برابر ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ ہندوستان کے علاوہ افغانستان ، چین ، برما ، سیام ، اور مشرقی جزائر میں پھیل گیا ۔ گو ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا ذوال شروع ہوگیا ۔ ہندوستان میں اس کے پیرؤں کی تعداد دن بدن گھٹی گئی ، آخر نویں صدی عیسویں آخر تک ہندستان میں یہ بالکل ناپید ہوگیا ۔
برصغیر میں بدھ مت کا ذوال کا اہم سبب برہمنوں کی مخالفت تھی ۔ وہ یہ جانتے تھے کہ اس مذہب کی ترقی میں ان کی موت پوشیدہ ہے ، اس لئے وہ اسے ہر قیمت پر مٹانا چاہتے تھے ۔ چنانچہ ایک طرف گوتم کو شیوکا اوتار تسلیم کرکے اس مذہب کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف لوگوں کو تشدد پر اکسایا ۔ کمارل بھٹ اور شنکر اچاریہ جیسے پرجوش ہندو مبلغین نے باضابطہ بدھوں کے خلاف مہم چلائی اور اپنی تقریروں سے لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت اور دشمنی کا جذبہ پیدا کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا اس کے خلاف اکثر مقامات پر بلوے ہوئے اور بڑی بے دردی سے بدھوں کا قتل عام کیا گیا ۔ بلاآخر بدھ مت اس سرزمین سے ناپید کردیا گیا ۔
گوتم نے جن بنیادی عقائد پر ایک مذہب کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے ، نظر انداز کردیا اور نہ ہی وجود اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی آخرت کا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھایا ، بلکہ روح کے وجود سے انکار کرکے اخلاقی احکامات کی تمام بندشوں کو ڈھیلا کردیا ۔ اس بنیادی کمزوری کی وجہ سے یہ مذہب علم کے لوگوں میں مقبول نہیں ہوسکا ۔ انہوں نے اسے ایک اصلاحی تحریک سے زیادہ اہمیت نہ دی ۔ نیزمسائل محتاج تشریح کی رہنے کی وجہ سے اس کے متعبین میں وہ شدت پیدا نہیں ہوسکی جو ہونی چاہیے تھے ۔
اس مذہب کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ اس نے رہبانیت اور ترک دنیا پر زور دیا تھا ۔ حلانکہ یہ تعلیم چند افرد کے لئے مناسب ہے ، لیکن عام لوگوں کے لئے ناقابل قبول اور ناممکن عمل ہے ۔ یہ نقص اس مذہب کو ہمہ گیر بنانے میں سخت حائل رہا ۔ علاوہ ازیں اس سے ایک طرح بدھوں کے اندر مختلف سفینہ حیات کو ترقی دینے اور منوانے کے جذبہ کو مردہ کردیا ۔ دوسری طرف راجاؤں کی سرپرستی ان کے اخلاقی انحاد کا باعث بنی ۔ راہبانہ زندگی میں راجاؤں کی قربت اور نواشات ان کی اخلاقی طاقتوں کے لئے صبر آزما ثابت ہوئی ۔ فطرتی کمزوریاں انہیں آرام طلب عیش پسند اور حریض بنے سے نہیں روک سکیں اور کچھ دنوں کے اندر ان کے سنگھ برائیوں کے مرکز بن گئے ۔
اس مذہب کے اندر ایک اہم نقص عدم تشدد کی تعلیم تھی ۔ جو اس کے ذوال کا اہم سبب بنی ۔ یہ تعلیم ممکن ہے راہبیانہ زندگی کے لئے اہمیت رکھتی ہو ، مگر اجتماعی زندگی میں بہت تباہ کن اور مہلک چابت ہوئی ۔ بدھوں نے اس اصول پر ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جو کرشن کے عدم تشدد کے قائل تھے ، اور انہوں نے تشدد کے لفظ کو بے معنی بنا دیا تھا ۔ ایسی حالت مین جب کرشن کے ماننے والے ان کے خلاف آرستہ ہوئے ، تو بچاؤ کی کوئی صورت پیدا ہو نہ سکی اور وہ تباہ ہوگئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔