بدھ مت
دوسرا حصہ
تعلیمات
گوتم کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا ۔ اس لئے ایک عرصہ تک ان کی تعلیمات زبانی منتقل ہوتی رہیں ۔ تقریباً تین سو سال کے بعد ۲۵۲ ق م میں اشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انہیں ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ کتابیں تری پٹک یعنی تین ٹوکریوں کے نام سے منسوب ہوئیں ۔ مگر حقیقت میں یہ تین سے زائد ہیں ، یعنی ہر کتاب کئی کتابوں پر مشتمل ہیں ۔ یہ اشوک کے عہد میں بہار کی زبان پالی Pali میں قلمبند کی گئیں تھیں ۔ مگر اصل جلدیں بہت جلد ناپید ہوگئیں ۔ ان کی نقل مہند لنکا لے گیا تھا ۔ وہاں ان کا ترجمہ سنگھالی زبان میں ہوا ۔ وہ نقل بھی اصل کی طرح معدم ہوگئیں ۔ مگر سنگھالی زبان کا ترجمہ رہے گیا ، جسے ۱۴۳۰ء میں ایک گیا کے راہب گھوش نے اصلی تسلیم کرتے ہوئے اس کا پالی میں ترجمہ کیا ۔ پاک وہند میں اب یہی تری پٹک سے مستند اور قدیم سمجھی جاتی ہیں ۔ حافظہ کی کمزوری اور ترجمہ کے ہیر پھیر کے بعد گوتم کی تعلیمات کہاں تک پہنچی یہ بتانا مشکل ہے ۔
بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کردیا ہے ، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے ۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بات صاف کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے ، بلکہ اسے مادہ کا جز کہے کر خاموشی اختیار کی ہے ۔ جنت و جہنم ، حشر ونشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت دال دیا ہے اور آواگون کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فناء ہوتی ہیں ۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئی ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے ۔ اس میں کوئی شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے ۔
گوتم نے ان تمام مسائل کی وضاحت اور تشریح کے بغیر اخلاقی احکام کی تلفین کی ہے ، جس کے ذریعے نروان حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں گوتم نے والدین ، اولاد ، استاد و شاگرد ، خادم و آقا اور شوہر و بیوی کے فرائض ، حقوق اور زمہ داریاں بتائیں ہیں ۔ انہوں نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور انہیں برائی سے بچائیں ، نیز ان کے لئے ترکے کی شکل میں معاش مہیا کریں ۔ اولاد کو حکم دیا کہ وہ والدین کی اطاعت اور احترام کریں ۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو شفقت ، محبت ، ہمدردی ، احترام ، وفاداری ، ہنرمندی ، مساوات ، حسن سلوک ، ادب اور تعظیم کی ہدایت کی ہے ۔ گویا ایک فلسفی کی موجودات کے اجزاء ترکیبی سے بحث کی ہے ۔ پھر انسان کی خصوصیات اور صفات و روپ پر ایک تفصیلی بحث کی ہے ، جس سے ایک مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ گوتم مذہب کے تمام فطری مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے ۔ یہی وجہ ہے بدھ مذہب ان لوگوں کے درمیان توپھیل سکا ، جو بت پرست اور اوہام پرست تھے ۔ مگر اہل مذہب کے مقابلے میں قطعی ناکام رہا ۔
سنگھ
بدھ مذہب کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا ۔ اس لئے جیسے جیسے مقتعدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ مگر جلد ہی گوتم نے محسوس کرلیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہوسکتاہے اور مذہب کو محض راہبوں تک محدود درست نہیں ہے ۔ لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں ، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کردیا ۔ راہبوں کی ایک انجمن بنائی گئی ، جو سنگھ کے نام سے موسوم ہے ۔ سنگھ کے ممبروں کو بھکشو کا خطاب دیا گیا اور ان کے لئے اہم شرائط و احکام وضع کئے گئے ۔ اوائل میں سنگھ کے تمام ممبر سمجھے جاتے تھے ۔ پھر ان میں عہدہ دار ابھرنے لگے اور ان کا صدر مذہبی پیشوا بن گیا ۔
سنگھ کی مجالس
عام روایات کے مطابق سنگھ کی پہلی مجلس گوتم کی موت کے فوراً بعد راج گڑھ میں منعقد ہوئی تھی اور دوسری مجلس سو سال کے بعد وسیالی میں بلائی گئی تھی اور اس میں نزاعی مسائل زیر بحث آئے تھے ۔ مگر ان دونوں مجالس کے انعقاد کی مستند ذرائع سے تصدیق نہیں ہوتی ہے ، اس لئے تین سو سال کے بعد اشوک کے عہد کے میں جو مجالس بلائی گئی ، وہی پہلی مجلس سمجھی جاتی ہے ۔ اس میں تقریباً ایک ہزار راہبوں نے شرکت کی تھی اور اس میں اختلافی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ جیسا کہ بالاالذکر کیا گیا تھا کہ گوتم کی تعلیمات کو تین کتابوں میں جمع کی گئیں ، نیز تبلغ کے لئے دور دراز مبلغ بھیجے گئے ۔ سنگھ کی دوسری مجلس کنشک کی سرپرستی میں سری نگر کے قریب تقریباً ۱۴۵ء میں منعقد ہوئی جس میں اختلافات ختم کرنے کی آخری کوشش کی گئی ۔ نیز بدھ کی تعلیمات پر صخیم کتاب لکھی گئی ، جس کو تانبے پر کندہ کرا کر ایک خاص استوپہ میں رکھیں گئیں ۔
فرقے
بدھ مذہب میں اختلافات گوتم کی زندگی میں ہی پیدا ہوگئے تھے ۔ ایک بھنگی کو سنگھ میں داخل کرنے پر اعلیٰ زات کے ممبروں نے برہمی کا اظہار کیا تھا ۔ ذات کے علاوہ اور بہت سے مسائل نزاع کا باعث بن گئے تھے ۔ مگر پھر بھی گوتم کی زندگی میں انہیں ابھرنے کا موقع نہیں ملا اور گوتم کی موت کے بعد انہوں نے شدد اختیار کرلی اور بہت جلد بدھ کے متعبین اٹھارہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔ اشوک اور کنشک کی سرپرستی میں جو مجالس منعقد ہوئیں ، ان میں اختلافات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر دور نہ ہو سکے اور بالاآخر بدھ مذہب دو فرقوں میں تقسیم ہوگیا ۔ جو ہنیان اور مہایان کے نام سے موسوم ہیں ۔ اول الذکر مرکب اضغر Lesser Wehicle اور ثانی الذکر مرکب اکبر Great Wehicle بھی کہتے ہیں ۔ ان دونوں فرقوں میں سے ہر ایک متعدد ذیلی فرقوں میں تقسیم ہے ۔
ہنیان فرقہ جزویات کو چھوڑ کر کلیات میں قدیم مذہب پر کاربند ہے ۔ یہ گوتم کی تعلیمات کے مطابق روح اور خدائی کا قائل نہیں ہے ، نیز گوتم کو ہادی مانتا ہے ۔ مہایان اس کے برعکس گوتم کو ماقوق الانسان سمجھتا ہے اور اس کی مورت کو بحثیت دیوتا پوجا کرتا ہے ۔ یہ گوتم کے علاوہ دوسرے دیوتاؤں کا قائل ہے اور ان کی پرستش بھی کرتا ہے ۔ اس فرقے کی اشاعت کنشک کے دور میں زور شور سے ہوئی ، اس لئے منگولیا ، چین ، جاپان اور تبت میں اسی کو غلبہ حاصل ہوا ۔ مگر لنکا ، برما ، سیام اور مشرقی جزائر میں ہنیان نے پامردی سے مقابلہ کیا ، لیکن بالاآخر اسے وہاں مغلوب کرلیا گیا ۔ دلچپ بات یہ ہے منگولیا ، چین ، جاپان اور تبت میں بدھ مت کو بدھ کے ساتھ مقامی دیوتا عقائد روایات وہاں کی ضرورتوں کے تابع کرلیا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔