بدھ مت
پہلا حصہ
گوتم بدھ
گوتم کپل وستو میں ہمالیہ کی ایک ریاست میں پیدا ہوا تھا ۔ جہاں آریائی قبیلہ ساکیہ یا شاکہہ آباد تھا ، اس کے سردار یا راجہ شدودھن کا لڑکا تھا ۔ گوتم کی ماں کا نام مایا یا مہامایا تھا ۔ گوتم کے سال ولادت میں سخت اختلاف ہے ۔ عام طور پر ۵۶۳ ق م بتایا جاتا ہے ۔ نیز یہ مسلۂ تنازعہ فیہ ہے کہ گوتم کا اصل نام کیا تھا ۔ بعض لوگوں نے سدارتھ پہلا نام اور گوتم قبائیلی نام بتایا ہے ۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق ان کا اصل نام گوتم تھا اور سدارتھ ، ساکیہ منی ، ساکھیہ سہنا ، جن بھاگوا ، لوک ناتھ اور دھن راج وغیرہ ان کے القاب تھے جو ان کے متعقدین نے انہیں دیے تھے ۔
گوتم کے بچپن کے حالات مستند کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں وہ عقدت مندوں کی عقیدت سے اس طرح متاثر ہوئے ہیں کہ تاریخی معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں ۔ بہرحال اتنا پتہ چلتاہے کہ انہوں نے رواج کے مطابق علوم و فنون اور سپہ گری میں مہارت پیدا کی اور کمسنی میں ان کی شادی یشودھرا سے کردی گئی ۔
آخر بعض روایات کے مطابق گوتم کی عمر جب تیس کی ہوئی تو ان میں ذہنی تبدیلی ہوئی اور کچھ طبعی رجحان اور کچھ زندگی کے تلخ واقعات نے گوتم کو مجبور کیا کہ وہ ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے حصول کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں ۔ اس ذہنی خلفشار کے زمانے میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہوگیا تو وہ بول بڑے مجھے یہ نیا رشتہ توڑ نا پڑے گا ۔
آخر بعض روایات کے مطابق گوتم اسی شب گھر کو چھوڑ کر جنگل نکل گئے ۔ جہاں انہوں نے چھ سال تک مختلف ریاضتوں میں گزارے ۔ جس میں گھاس بھونس پر گزارہ ، بالوں کے کپڑوں کا پہنا ، گھنٹوں کھڑے رہنا ، کانٹوں میں لیٹ جانا ، جسم پر خاک ملنا ، سر اور ڈارھی کے بال نوچنا ۔ اس طرح کے سخت مجاہدات میں مشغول رہے ۔ آخر ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ جسم کی آزادی اور اس طرح کے مجاہدات سے تسکین ناممکن ہے اور یہ طریقہ مسائل حل کرنے سے قاصرہیں ۔ چنانچہ انہوں نے باقیدہ کھانا پینا شروع کردیا اور اپنے چیلوں سے یہ کہا کہ ریاضت کے یہ تمام طریقہ غلط ہیں ۔ چنانچہ وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے ۔
نروان
چیلوں کے چلے جانے کے بعد گوتم سخت ہیجان میں مبتلا ہوگئے ۔ آخر وہ بدھ گیا میں جو اس وقت غیر آباد علاقہ تھا ، وہاں ایک درخت کے نیچے بہٹھ گئے ۔ اس واقع کے بعد انہوں نے تہیہ کرلیا ، کہ جب تک ان پر حقائق ظاپر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مراقب رہیں گے ۔ دفعتاً غروب آفتاب کے وقت ان کے ذہن میں ایک چمک پیدا ہوئی اور ان پر یہ حقائق منکشف ہوئے کہ ’’ صفائے باطن اور محبت خلق ‘‘ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے اور تکلیف سے رہائی کے یہی دو طریقہ ہیں ۔ انہوں نے حیات کے چشمہ موت اور زندگی کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا ۔ ہر حیات کو موت سے اور موت کو حیات وابستہ پایا ۔ ہر سکون اور ہر خوشی کو نئی خواہش نئی مایوسی اور نئے غم کے دوش بدوش پایا ۔ زندگی کو موت سے ملاقاتی ہوتے پھر اپنے کرم کے مطابق جنم لیتے دیکھا ۔ اس نوری کفیت اور انکشاف کے بعد وہ بدھ یعنی روشن ضمیر ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ غلطی اور جہالت کے دھندلکوں سے آزاد ہوچکے ہیں ۔ ان کی زندگی خواہشوں اور الائشوں سے آزاد ہوچکی ہے اور انہیں تناسخ کے چکر سے نجات مل چکی ہے ۔
انسانی مصاحبوں کے علاج جان لینے کے بعد وہ بنارس آئے اور وہاں ایک مقام مگادیہ میں قیام کیا ۔ ان کے چیلے جو انہیں چھوڑ گئے یہاں آن ملے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چیلوں کو اپنی تعلیمات سے روشناس کرایا اور زندگی و موت کے حقائق انہیں سنجھائے ۔ آخر وہ ان سے متاثر ہوکر ان کے دین میں داخل ہوگئے ، پھر انہوں نے اپنی دعوت کو عام کیا اور تین ماہ یہاں قیام کیا ۔ ان کی بزرگی و علم کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مذہب میں داخل ہوگئے ۔
یہاں سے گوتم راج گڑھ گئے ۔ اس وقت مگدھ کا راجہ بمبارا تھا ۔ اس نے گوتم کا خیر مقدم کیا اور ایک باغ ان کے قیام کے لئے وقف کردیا ۔ یہاں گوتم نے کئی سال گزارے ۔ وہ ہر سال گرمی اور جاڑے میں تبلغ کے لئے نکلتے اور برسات میں واپس آجاتے ۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ راجہ بہار ادر اجات سترہ نے گوتم سے ملاقاتیں کیں اور انہوں نے بدھ مذہب قبول کرلیا تھا ۔ الغرض چند سال کے اندر گوتم کا مذہب تیزی سے پھیل گیا ۔ پھر کپل وستو میں باپ کے بلانے پر آئے اور گھر والوں سے ملاقاتیں کیں ، مگر راج گڑھ واپس آگئے اور تقریباً چوالیس سال تک گوتم اپنے مذہب کی تبلخ کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر گئے ۔ ان کی حیات میں ان کا مذہب تیزی سے مقبول ہوگیا اور دور دور تک ان کے مبلغین ہندوستان کے ہر حصہ میں پہنچ گئے اور لوگوں کو اس نئے مذہب سے روشناس کرایا ۔ عام روایات کے مطابق گوتم نے ۸۰ سال کی عمر میں ۴۸۳ ق م میں وفات پائی ۔ ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نظر آتش کردی گئی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔