رات کا وقت۔ ایک نوجوان کسی کمرے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہے جو اس نے آج ہی بازار سے خریدی تھی اور چھپا کر لایا تھا۔ اس کمرے میں ایک دوسرا نوجوان سو رہا ہے۔ یہ دونوں ایک ہی کورس پڑھ رہے ہیں۔ پھر اس نے دوسرے نوجوان کو کمرے میں گھس کر کلہاڑی کے 16 وار کر کے قتل کر ڈالا اور گردن سر سے جدا کر دی۔ اس ہولناک قتل کے بعد وہ آگے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ دل میں جذبہ، آنکھوں میں خون۔ دوسرے کا دروازہ لاک تھا۔ اس دوران میں اسے پکڑ لیا گیا۔
اس قتل کی وجہ صرف یہ تھی کہ مقتول کا تعلق ایسے ملک سے تھا جو اس کو پسند نہیں تھا۔ مقدمے میں اس نے اعترافِ جرم کیا اور اپنا کوئی دفاع نہیں کیا۔ اس کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
نہ ہی یہ کسی ڈراؤنی فلم کی کہانی ہے، نہ کسی جنگلی معاشرے کی اور نہ قدیم زمانے کی داستان۔ یہ اکیسویں صدی کی سچی کہانی ہے۔ یہ قتل مشرقی یورپ کے ملک ہنگری میں ہوا۔ لیکن یہ اس کہانی کا صرف آغاز ہے۔
اس کے اپنے ملک نے ہنگری پر زور ڈالا اور ضمانت دی کہ اگر اس کو ملک واپس بھیج دیا جائے تو یہ سزا وہاں پر پوری کی جائے گی۔ چھ سال قید کاٹنے کے بعد اور اس ضمانت پر اسے اپنے ملک واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے ملک نے اس ضمانت کے طور پر ستر لاکھ ڈالر ہنگری کو ادا کئے۔
لیکن اپنے ملک پہنچنے پر اس کا پرتپاک استقبال ہوا۔ ملک کے صدر اس کو لینے ائیرپورٹ گئے۔ ملک میں داخل ہوتے ہی سزا معاف کر دی گئی۔ اس نوجوان کو ترقی دے کر اسی وقت میجر بنا دیا گیا۔ سرکاری گھر دینے کا اور خطیر رقم دینے کا اعلان کیا گیا۔ صدر نے ائیرپورٹ پر تقریر کی کہ مخالف ملک کے کسی بھی شخص کا قتل ان کی نظر میں جرم نہیں۔
یہ دونوں دشمن ملک بہت ہی عرصہ تک ایک ہی ملک رہے تھے۔ یہ نوجوان آذر بائیجان سے تعلق رکھنے والا رامِل سافاروف ہے جو اس وقت انگریزی زبان سیکھنے کے کورس پر ہنگری آیا تھا۔ ان کا دشمن ملک آرمینیا ہے۔ 2012 میں قتل کے جرم میں سزا بھگتنے والے قیدی کے صورت میں وطن لوٹنے والے رامِل کو آذربائیجان میں اب ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ آج یہ فوج میں کرنل ہے۔ ان دونوں ملکوں کی آپس میں لڑائی نگورنو کاراباخ کے علاقے پر ہے۔ اس زمین کے جھگڑے پر دونوں ممالک کی آپس میں متعدد جنگیں ہو چکی ہیں۔
تیل برآمد کرنے والے ممالک ہونے کے باوجود ان دونوں ممالک کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ دونوں میں اوسط فی کس آمدنی اب پاکستان سے کم ہو چکی ہے۔