انسانوں میں کچھ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو اپنا فیض لوگوں میں بانٹتے ہیں جب کہ کچھ لوگ چھوٹے ذہن کے ہوتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بڑا کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں- اسی طرح ستاروں میں بھی کچھ ستارے بڑے ہوتے ہیں جو فیوژن سے پیدا ہونے والی اپنی توانائی خلا میں پھیلاتے ہیں جس سے سیارے روشن ہوتے ہیں لیکن کچھ ستارے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان میں کوئی روشنی نہیں ہوتی لیکن وہ پھر بھی ستارے کہلاتے ہیں- یہ ایسے فلکی اجسام ہیں جو نہ تو اتنے بڑے ہیں کہ ان کی کور میں فیوژن ری ایکشن سے توانائی پیدا ہو رہی ہو اور نہ ہی اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں سیارے کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے- ماہرین فلکیات ایسے اجسام کو براؤن بونے ستارے (Brown Dwarf Stars) کہتے ہیں اور ستاروں کی یہ قسم شاید کائنات کے سب سے زیادہ عجیب و غریب اجسام میں سے ایک ہے
ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ مشتری ہے جو زمین سے 318 گنا زیادہ ماس کا حامل ہے- مشتری کا ماس اتنا زیادہ ہے کہ بعض لوگ مشتری کو ناکام ستارہ یعنی failed star کہتے ہیں- لیکن یہ بیان درست نہیں ہے- فیوژن کے عمل کو مکمل طور پر شروع ہونے کے لیے جو کم سے کم ماس درکار ہوتا ہے وہ مشتری کے ماس سے 80 گنا زیادہ ہے- گویا مشتری کا ماس اگر اس کے موجودہ ماس سے 80 گنا زیادہ ہوتا تو مشتری کی کور میں فیوژن کا عمل شروع ہو سکتا تھا اور مشتری ایک ستارہ بن سکتا تھا-
اگرچہ مشتری ایک ستارہ نہیں ہے لیکن اس کی کور کا درجہ حرارت زمین کی کور کے درجہ حرارت سے کئی گنا زیادہ ہے- زمین کی کور میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 5200 سینٹی گریڈ ہے جبکہ مشتری کی کور کا درجہ حرارت 24 ہزار سینٹی گریڈ ہے- مشتری کی کور کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ اس لیے ہے کہ مشتری کا ماس زمین کے ماس سے کہیں زیادہ ہے- کسی بھی فلکی جسم کا ماس جس قدر زیادہ ہو گا، اس کے مرکز میں یعنی اس کی کور میں دباؤ اور درجہ حرارت بھی اسی قدر زیادہ ہو گا
اگر کسی فلکی جسم کا ماس مشتری کے ماس سے بارہ گنا زیادہ ہو تو اس جسم کی کور کا درجہ حرارت مشتری کی کور سے بھی کہیں زیادہ ہو گا- ایسے اجسام اس قدر گرم ہوتے ہیں کہ ان کی سطح سے توانائی حرارت کی صورت میں خارج ہوتی رہتی ہے یعنی ایسے اجسام انفرا ریڈ سپیکٹرم میں توانائی خارج کرتے ہیں- ایسے اجسام کو براؤن بونے ستارے (Brown Dwarf Stars) کہا جاتا ہے- براؤں ڈوارف ستاروں کا کم سے کم ماس مشتری کے ماس سے بارہ گنا زیادہ ہوتا ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ ماس سورج کے ماس کا نصف ہوتا ہے (اس سے زیادہ ماس ہو تو ان میں فیوژن کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور یہ اجسام ستارے بن جاتے ہیں)- چونکہ ان کی توانائی انفراریڈ سپیکٹرم میں خارج ہوتی ہے اس لیے انہیں عام دروبین سے نہیں دیکھا جا سکتا صرف انفراریڈ دوربینوں سے دیکھا جا سکتا ہے- یہی وجہ ہے کہ براؤن ڈوارف ستاروں کو محض چند سال پہلے ہی ڈیٹیکٹ کیا گیا جب فلکیات میں انفراریڈ کیمروں کا استعمال شروع ہوا-
اگر براؤں ڈوارف ستارے بہت بڑے ہوں تو ان کی کور کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ان سے جو توانائی خارج ہوتی ہے اس کا سپیکٹرم انفرا ریڈ کے علاوہ ویزیبل روشنی کی کچھ فریکوینسیز (مثلاً سرخ، نارنجی) تک پھیلا ہوتا ہے- ایسے براؤن ڈوارف ستارے دیکھنے میں سرخ نظر آتے ہیں- گویا وہ ہمارے سورج کی طرح روشن نہیں ہوتے بلکہ دہکتے ہوئے کوئلے کی طرح سرخ ہوتے ہیں- ایسے ستاروں کو عام دوربین سے تو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن رصدگاہوں میں نصب بہت بڑی دوربینوں سے ایسے ستارے ڈیٹیکٹ کیے جا چکے ہیں
براؤن ڈوارف ستاروں کی تشکیل اسی طرح سے ہوتی ہے جس طرح سے عام ستاروں کی تشکیل ہوتی ہے یعنی ہائیڈروجن گیس کے بڑے بادل کسی قریبی سپر نووا کی کمپریشن ویوو کی وجہ سے سکڑنے لگتے ہیں اور اپنے مرکز کے گرد گھومنے لگتے ہیں- اگر اس بادل کا ماس مشتری سے کم از کم 80 گنا زیادہ ہو تو اس کی کور میں اس قدر دباؤ اور درجہ حرارت پیدا ہو جاتا ہے کہ فیوژن کا عمل شروع پو جاتا ہے اور یہ ستارہ روشن ہو جاتا ہے- لیکن اگر اس بادل کا ماس مشتری کے ماس کے 80 گنا سے کم ہو تو اس میں فیوژن کا عمل نہیں شروع ہو پاتا اور یہ براؤن ڈوارف ستارہ بن جاتا ہے
براؤں ڈوارف ستاروں کی کور کا درجہ حرارت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جاتا ہے کیونکہ ان کی حرارت مسلسل خارج ہو رہی ہوتی ہے اور ان کی کور میں فیوژن کا عمل نہیں ہو رہا ہوتا جو مسلسل توانائی پیدا کرتا رہے- کروڑوں سالوں کے عرصے میں ان کی سطح کا درجہ حرارت گرنے لگتا ہے اور بڑے براؤں ڈوارف ستارے جو اپنی زندگی کے آغاز میں سرخ رنگ کی شعاعیں خارج کر رہے تھے (یعنی جنہیں اصولاً دوربین سے دیکھا جا سکتا تھا) ان کا سپیکٹرم آہستہ آہستہ سرخ رنگ سے انفرا ریڈ اور پھر اس سے بھی کم توانائی کی حامل کی ریڈیو ویووز کی طرف منتقل ہوتا جاتا ہے- چنانچہ اکثر براؤن ڈوارف ستارے بالاخر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی فلکی جسم کا ماس مشتری سے 80 گنا زیادہ ہو تو اس میں فیوژن کا عمل شروع ہو جاتا ہے- لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر اس جسم کا ماس مشتری سے 79 گنا زیادہ ہو تو اس میں کوئی فیوژن نہیں ہو گا- حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی فلکی جسم کا ماس مشتری سے 79 گنا زیادہ ہو تو اس میں بھی فیوژن کا پراسیس ہو گا لیکن کچھ کم، اگر ماس مشتری سے 70 گنا زیادہ ہو تو اس میں فیوژن مزید کم ہو گا، 60 گنا زیادہ ہو تو فیوژن بہت ہی کم ہو گا- اسی طرح اگر کسی براؤن ڈوارف کا ماس مشتری سے 20 گنا زیادہ تو اس جسم کی کور میں بھی فیوژن کا پراسیس ہو رہا ہو گا لیکن اس کی شرح اس قدر کم ہو گی کہ اس سے پیدا ہونے والی حرارت اسے ستارے کی طرح روشن نہیں کر پائے گی صرف اس کی کور کو مسلسل گرم کرتی رہے گی، اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دے گی
براؤن ڈوارف کی کور میں جو درجہ حرارت اور دباؤ ہوتا ہے اس قدر کم درجہ حرارت اور دباؤ پر فیوژن کا پراسیس اس لیے انتہائی سست ہوتا ہے کہ اس درجہ حرارت پر ڈیوٹیریم کے مرکزے (یعنی ایک پروٹان اور ایک نیوٹران پر مشتمل ہائیڈروجن کے مرکزے) مل کر ہیلیم کے مرکزے نہیں بنا پاتے- تاہم اگر ڈیوٹیریم کے مرکزے سے کوئی ہائی انرجی پروٹان ٹکرا جائے تو ڈٰیوٹیریم کا مرکزہ ہیلیئم-3 (یعنی دو پروٹان اور ایک نیوٹران پر مشتمل ہیلیئم کے آئسوٹوپ) کے مرکزے میں تبدیل ہو جاتا ہے- اس پراسیس میں بھی توانائی خارج ہوتی ہے اگرچہ یہ توانائی ہیلییم-4 یعنی نارمل ہیلیئم کے مرکزے کی تشکیل کے دوران خارج ہونے والی توانائی سے کہیں کم ہے- یہ توانائی براؤن ڈوارف ستاروں کو بہت دیر تک اس حد تک گرم رکھتی ہے کہ وہ مسلسل انفرا ریڈ شعاعیں خارج کرتے رہیں
لیکن فیوژن کا یہ عمل ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا- ایسے ستاروں کی کور میں ڈیوٹیریم کی شرح عام ہائیڈروجن کے مرکزوں کی نسبت کہیں کم ہوتی ہے- کروڑوں سالوں میں اس فیوژن کے عمل کی وجہ سے ان ستاروں میں ڈیوٹیریم کی شرح مزید کم ہوتی رہتی ہے اور آخر کار اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ اس غریب ستارے میں ہونے والا فیوژن کا غریبانہ پراسیس بھی ختم ہو جاتا ہے- اس کے بعد اس کی کور ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور چند کروڑ سالوں میں یہ ستارہ بے جان ہو جاتا ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ براؤن ڈوارف ستاروں کی تشکیل کے دوران ان کے گرد بھی ایک ایکریشن ڈسک موجود ہوتی ہے جس میں سیارے بھی تشکیل پاتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح سورج کی تشکیل کے وقت شمسی سیارے تشکیل پائے- اگر ان میں سے کوئی سیارہ براؤن ڈوارف کے پاس ہوں تو اس براؤن ڈوارف کی حرارت اس سیارے تک بھی پہنچ سکتی ہے اور اگر اس سیارے پر اتنی حرارت پہنچ رہی ہے کہ وہاں پر پانی مائع حالت میں رہ سکے تو اصولاً اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس سیارے پر کسی نہ کسی شکل میں زندگی بھی موجود ہو- تاہم ابھی تک کسی ایسے سیارے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا جو براؤن ڈوارف سیارے کے اس قدر پاس ہو کہ اس میں پانی مائع حالت میں رہ سکے
مستقبل میں بہتر دوربینوں سے مزید براؤن ڈوارف ستاروں کی دریافت متوقع ہے اس لیے اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ مستقبل میں کسی براؤن ڈوارف ستارے کے نواحی سیارے پر زندگی دریافت ہو جائے
اوریجنل آرٹیکل کا لنک