::: "چکبست : اردو شاعری اور نظمیہ روایت کا تازہ کاری کی حسیّت کا شاعر" :::
{ ایک معروضی تعارف اور کچھ منتشر تجزیات}
چکبست کی پیدائش ١٨٨٢کی ھے۔
شاعر ۔ ادیب اور نقاد ۔مکمل نام پنڈت برج نارائن چکبست کشمیری برہمن تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگوں کا وطن لکھنو ھے۔اوائل عمری میں لکھنو آگئے۔ اور رکیتک کالج لکھنو سے 1908ء میں قانون کا امتحان پاس کرکے وکالت کرنے لگے۔ 9 برس کی عمر سے شعر کہنا شروع کیا۔ کسی استاد کو کلام نہیں دکھایا۔ کثرت مطالعہ اور مشق سے خود ہی اصلاح کرتے رہے۔ کوئی تخلص بھی نہیں رکھا۔ کہیں کہیں لفظ چکبست پر ، جو ان کی گوت تھی، اکتفا کیا ہے۔ غالب ، انیس اور آتش سے متاثر تھے۔ شاعری کی ابتداء غزل سے کی۔ وہ غزل کو عیاشیانہ صنف کہتے تھے۔ آگے چل کر قومی نظمیں لکھنے لگے۔ انھوں نے سیاسی قومی تحریکات ، مسائل اورسانحوں پر پائے کی نظمین لکھیں۔ پنڈت برج نرائن چکبستؔ کا شمار نشاۃ الثانیہ کی اردو شاعری کے قابل ذکر شعرا میں ہوتا ہے۔ عددی اعتبار سے چکبستؔ کا شعری سرمایہ گرچہ مختصر ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے قوم پرستی اور حب وطن کو اپنی شاعری کا بنیادی موضوع بنایا اور اس موضوع کی تشریح و توضیح مختلف حوالوں سے کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ انسان کی کامیابی و کامرانی کا راز وطن کی ترقی میں مضمر ہے۔ چکبستؔ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں اور رباعیات بھی کہی ہیں۔چکبست کی شاعری اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات و مسائل کا بیانیہ ہے لیکن انھوں نے ان موضوعات کو جس انداز میں برتا ہے ایک حد تک ان کی معنویت آج بھی باقی ہے ۔ چکبستؔ کا شمار اردو کے ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے قلیل سے شعری سرمایہ کے باوصف نمایاں شہرت حاصل کی۔چکبستؔ کی زندگی کے شب و روز بھی محض ۴۴؍ برس کی مدت پر محیط ہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے اگر ان کی عمر طویل ہوتی تو ان کا شعری سرمایہ بھی نسبتاً زیادہ ہوتا۔ چکبستؔ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز نظم گوئی سے ہوا۔ انھوں نے مشق سخن کا آغاز ۱۸۹۴ء میں اس نظم سے کیا تھا جو کشمیری پنڈتوں کی سوشل کانفرنس کے چوتھے اجلاس میں پڑھی گئی تھی جبکہ پہلی غزل انھوں نے ۱۹۰۸ء میں کہی تھی۔ اردو کی شعری روایت پر نظر ڈالیں تو ایسے شعرا بہت کم تعداد میں ملیں گے جن کی شاعری کا آغاز موضوعاتی شاعری سے ہوا ہو۔ بیشتر شعرا ، شاعری کا آغاز عموماً غزل سے کرتے ہیں اور بعد ازاں شاعری کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ غالباً یہی سبب ہے کہ اردو شعرا کا ذکر کرتے ہوئے بیشتر نے اس طرح کے روایتی جملے لکھے ہیں کہ ’’ شاعری کا آغاز غزل گوئی سے ہوا اور بعد میں نظمیں بھی لکھیں ۔‘‘ چکبستؔ کے بارے میں بھی ادبی تاریخ کے بعض مرتبین نے اسی روایت کو باقی رکھا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کئی مرتبہ چکبست نے اپنے دوستوں ،احباب پ درد مند مرثیے بھی لکھے۔ چکبست پر انیس کا بہت اثر تھا۔ مرثیہ گوئی ان کے لیے ذرا مشکل تھی اس لیے مرثیے کے بجائے رامائن کے بعض دلچسپ اور مو ثر واقعات انھوں نے میر انیس کے انداز میں لکھے ہیں جو اردو شاعری میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں مرثیہ کی جھلک نمایاں ہے۔ انھوں نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں جن میں جذبات کا دردمندانہ پیرایہ میں اظہار کیا ہے۔ چکبست کو ایک شاعر اور نثر نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ آفتاب احمد آفاقی نے مضامین چکبست کی نئی اشاعت کے سلسلے میں جو سنجیدہ کوشش کی ہے وہ ترتیب و تالیف کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ کم و بیش سو صفحات پر مشتمل مرتب نے دیباچہ لکھا ہے اور اپنے دیباچے کو ان عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔
۱: احوال و آثار
۲: مضامین چکبست کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۳: چکبست کا جانب دارانہ رویہ
۴: چکبست کا نثری اسلوب
۵: چکبست کا نثری اختصاص
۶: طریقۂ کار
۷: مصادر
مضامین کے آخر میں ایک فرہنگ بھی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ مرتب نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جو الفاظ اور اصطلاحیں عہد چکبست میں رائج تھیںان کے معنی بتا دیے جائیں۔ اس طرح مضامین چکبست کی یہ ترتیب اتنی اہم اور بامعنی ہوگئی ہے کہ اسے عام ترتیب و تدوین کے کاموں سے یقینی طور پر ممتاز قرار دیا جاسکتا ہے۔آفتاب عالم آفاقی نے مضامین چکبست کو صرف ادبی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا ہے بلکہ نوآبادیاتی ہندوستان کے مسائل کی روشنی میں انھیں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں حالی، سرسید، حسین آزاد اور دیگر اہم شخصیات کے حوالے آئے ہیں۔ان تمام شخصیات کے درمیان آگے پیچھے چکبست کی جو شخصیت ابھرتی ہے اس کے بارے میں رائے الگ الگ ہوسکتی ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو چکبست کی شاعری اور نثر دونوں کا ایک تاریخی کردار ہے۔ آفتاب عالم آفاقی نے گو کہ چکبست کی نثر کو سرسید اور حالی کے مقابلے میں آرائشی بتایا ہے لیکن انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی عہد کے کئی اسالیب ہوسکتے ہیں اگر اس کا اسلوب محمد حسین آزاد سے ملتا جلتا ہے تو اسے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اگر یہ زاویہ پیدا نہ ہوتا تو میرا خیال ہے کہ آفتاب عالم آفاقی مضامین چکبست کی ترتیب ، تدوین اور مطالعہ میں اتنی توجہ صرف نہ کرتے اور اتنا قدر جامع مقدمہ وجود میں نہ آتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کافی دنوں کے بعد ایک ایسی تدوین سامنے آئی ہے جس نے اس طرح کے کام کرنے والوں کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ تنقید سے پہلے تحقیق کس قدر اہم ہوجاتی ہے۔ "چکبست نے اپنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بالفعل ہندوستان میں تاریخی مطالعہ کے وقت بہت کچھ تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ یہاں رسم و رواج دیرینہ کی پابندی کی بیڑیاں ایسی مضبوط ٹھکی ہوئی ہیں کہ ہر پرانی بات کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا اصول اخلاق سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر مطالعۂ تاریخ پر بھی پڑتا ہے۔ مثلاً ہر حضرات کا یہ شیوہ ہے کہ جب وہ قدیم ہندوستان کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ان کی محض یہ غرض رہتی ہے کہ جو واقعات پرانے ہندوئوں کے اخلاقی یا علمی اعزاز کے شاہد ہوں ان کی تشریح کی جائے اور پدرم سلطان بود کا غلغلہ بلند کیا جائے۔ اور اگر کسی طرح یہ ثابت ہوجائے کہ قدیم ہندوستان میں ریل اور تار برقی کا سامان موجود تھا تو پھر کیا کہنا ہے۔ اور جب اس وضع کے حضرات کو کسی ایسی لغزش کا سامنا ہوتا ہے جس سے کہ ہندوستان کے قدیم باشندوں کو کسی اخلاقی یا شوشل بدعنوانی کا ثبوت ملتا ہے تو یہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح ان واقعات پر خاک ڈال دی جائے۔‘‘چکبست کے اس اقتباس میں پرانی چیزوں کو رد کرنے اور نئی چیزوں کو قبول کرنے کا جو حوصلہ ہے اسے سرسید تحریک کی نئی آگہی اور نئی حقیقت پسندی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ چکبست نے شرر کے تعلق سے بھی کچھ ایسی باتیں لکھیں ہیں جن سے ان کا درد چھلک اٹھتا ہے اور کسی نہ کسی طور پر مذہب اور مذہبی روایت سامنے آجاتی ہے۔ آج چکبست کے ان خیالات کو پڑھتے ہوئے انیسویں صدی کی سیاسی ، سماجی زندگی کو سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ چکبست نے ایک ایسے وقت میں تہذیبی کڑیوں کو جوڑنے کی کوشش کی جب اس پر خطرات منڈلا رہے تھے اور ان خطرات کے نشانات مضامین چکبست میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ چکبست نے اردو زبان ، اردو تہذیب اور اردو ادب کو جو رنگ و آہنگ عطا کیا وہی دراصل اردو کا بنیادی مزاج تھا۔ اور آج چکبست کو یاد کرنے مطلب یہ ہے کہ ہم تہذیب کی ان کڑیوں کو ٹوٹنے نہ دیں۔ چکبست نے طرح طرح سے اپنی شاعری اور نثر میں اس وحدت پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مضامین چکبست کو نئے سرے مرتب کیا اور بہت تفصیل کے ساتھ چکبست کی زندگی ، زمانہ اور ان کے مضامین کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا۔اخیر میں چکبست کے یہ شعر بھی دیکھیے جو ان کے مضامین سے فکری سطح پر ایک رشتہ قائم کر لیتے ہیں۔
چمن کو دیدۂ عبرت سے دیکھ اے بلبل
گلوں سے پھوٹ کے رنگ خزاں نکل آیا
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مرے خیال کو بیڑی پہنا نہیں سکتے
یہ رنگ شفق ہے کہ لہو اہل وفا کا
کچھ داغ نظر آتے ہیں دامان سحر میں
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے {سرورالہدیٰ، " مضامین چکبست"، ادبی ڈائری، روزنامہ سیاست، حیدرآباد، بھارت، 14 مئی 2017}
پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اور قومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ جہد آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔
جکبست کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ جوانوں کے جینے کے ڈھنگ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
موجود ہے جن بازوؤں میں زور جوانی
طوفان سے انہیں کشتی قومی ہے بچانی
پر ہے مئے غفلت سے سروں میں یہ گرانی
آرام پسندی میں یہ رکھنے نہیں ثانی
پہلو میں کسی کے دل دیوانہ نہیں ہے
ہیں مرد مگر ہمت مردانہ نہیں ہے
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی نظمیں ہیں جن میں آزادی کے متوالوں کی ہمت کو بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں:
بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤں ہشیار
اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار
تو زیر موج فنا ہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم وار جن کا نام ڈوبے گا
چکبست کی زبان لکھنؤ کی شستہ زبان ہے۔ بندش کی چستی کے ساتھ مناسب ہندی الفاظ کے خوشگوار امتزاج سے کلام کا حسن بڑھایا ہے۔ چکبست اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ چھپ چکا ہے جس سے ان کی علمیت اور تنقیدی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ چکبست اپنی زندگی میں مثنوی "گلزار نسیم" کے مباحثوں کی بدولت بہت مشہور ہوئے۔ ان کا شعری مجموعہ "صبح وطن" کے نام سے ہے جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔وہ فرقہ پروری ںہیں کرتے تھے اور نہایت دلیری سے اپنےجذبات اور خیالات کا اظہار کیا لہذا ان کی شاعری میں بڑا جمال و کمال ھے۔۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ { اس موضوع پر شفیع، محمد نے "معرکہ چکبست و شررؔ" کے عنوان سے کتاب بھی لکھی ہے۔ جسکو منشی نول کشو ؛ (لکھنؤ