اگرآپ میجر آفتاب احمد کی ’مشرقی پاکستان کےمیدانِ جنگ سےآخری سلام‘ پڑھیں توکتاب کےعین مرکزمیں صفائی سےتہہ کیاہواچمکدارکاغذپریہ نفیس سکیچ نظرپڑےگا
یہ مشرقی پاکستان میں جیسور سےمغربی سمت کاعلاقہ ہےجوبھارتی سرحدکولگتا ہے
نقشےکی نفیس ڈرائنگ دیکھ کرہمیں شک پڑا کہ ہو نہ ہویہ بھابھی کےہاتھ کاکمال ہے۔ غورسےدیکھنےپر نگہت آفتاب کےدستخط ہمارے گمان پرمہرتصدیق ثبت کرتےنظرآئے
اس گمان کاسیاق وسباق کچھ یوں ہےکہ کچھ کچھ پرانی کپتانی اور نئی نئی شادی کےخمارمیں جب ہم نوشہرہ میں جونئیرسٹاف کورس کررہے تھے تو سکول آف آرٹلری میں میں اورمانی ساتھ تھے۔ نگہت آفتاب کابنایا سکیچ دیکھ کرہماری میپ مارکنگ ایکسرسائزمیں مانی کے بنائےسکیچ بےاختیاریادآگئے
بات کچھ یوں ہےکورسزپرمیپ مارکنگ میں مددکےلیےیونٹیں انٹیلی جنس حوالدارکوجو نقشہ سازی کےفن میں کامل ہوتاہےکچھ عرصےکےلیےسکول کےساتھ اٹیچ کردیتی ہیں جن افسروں کےیونٹ کمانڈرسےتعلقات ٹھیک نہ ہوں یاکسی اور پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سےاِنٹ حوالدارنہ آسکےوہ یاتوخود نقشے مارک کرتےہیں اوراگرشادی شدہ ہوں توخوشخط بیویوں کی طرف ملتجیانہ نظروں سےدیکھتےہیں
اپنےجونیئرسٹاف کورس پرمانی کی طرف ملتجیانہ نظروں سےدیکھنےکےہمارےسارےکوائف پورےتھے اس یادگارکورس پرمانی کےبنائےسکیچ اب بھی ایک ہجرت کی باقیات میں وطن میں چھوڑےسامان کےکسی ٹرنک میں حفاظت سےرکھے ہوں گے
دیکھیےبات آخری سلام میں بیگم نگہت آفتاب کےبنائےسکیچ کی ہورہی تھی اورکہاں سےکہاں نکل گئی
میجرآفتاب سقوط پاکستان کےپر آشوب دورمیں اپنی پلٹن 25 بلوچ کےساتھ مشرقی پاکستان میں جیسور کےمقام پرتعینات تھے
بیگم نگہت آفتاب کاکھینچا سکیچ مارچ 1971 کاطوفان گزرجانے کےبعد کےدنوں کاہےجب پلٹن بھارتی سرحدپرفرسٹ ایسٹ بنگال کےباغیوں سےبرسرِپیکارتھی
ان دنوں کی کہانی توآپ میجرصاحب کی کتاب میں پڑھیےگا
ہم یہاں کچھ گزرےدنوں اورگئے برسوں کاذکرکریں گے
لاہور سےفیروزپور روڈ پکڑیں توقصور سےپہلےتقریباً نصف راستےکی مسافت میں للیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے
مین روڈکےساتھ ہی گنج شہداء کےنام سےایک قبرستان ہے۔ یہاں مادرِ وطن کےوہ سپوت دفن ہیں جو 1965کی پاک بھارت جنگ میں بیدیاں کےدفاع اورکھیم کرن پرحملےمیں کام آئے
بریگیڈیرشامی کے یادگاری مینار اور پچپن شہدا کی قبروں کا تفصیلی ذکرپھرکسی اوردن کریں گے
للیانی سے تھوڑا آگے ہندوستانی سرحد پر بیدیاں کے اطراف بی آربی کے دفاعی مورچے فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ المعروف سینیئرٹائیگرز نے سنبھالے ہوئےتھے
یہیں پر بھارتی سینا کی 4 گرینیڈیئرز اور 9 دکن ہارس کے ہراول دستوں کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کے جوانوں نے اپنے سینوں پر روکا تھا۔
مادرِوطن کےدفاع میں یونٹ نے پندرہ جانوں کا نذرانہ پیش کیااور کل سترہ اعزاز اپنے نام کیے جن میں تین ستارہ جرات شامل تھے
___
pic source:
@leftofthepincer
ان میں سے ایک ستارہ جرات آنےوالےدنوں کے صوبیدارمیجر عظیم خان کے حصے میں آیا۔ ہمارےصوبیدارمیجرکاذکر کچھ دیرمیں دوبارہ آئے گا
لاہور میں آر اے بازار کی قربت میں شہیدوں کا قبرستان ہے۔ یہاں سینیئرٹائیگرزکےشہیدوں کی یادگارہے جہاں ہربرس ہمارے میجر آفتاب احمد سلامی دینے حاضر ہوتے ہیں۔
منظر بدلتا ہے اور ہم خود کو ایک پرآشوب مارچ کے مہینے میں 1971 کے جیسور میں پاتے ہیں۔ 25/26 مارچ کی درمیانی رات جب آپریشن سرچ لائٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ جیسور چھاؤنی میں نہیں تھی۔ سینیئرٹائیگرز بھارت کی سرحد پر جگدیش پور گاؤں کے اطراف جنگی مشق میں مصروف تھے ۔
29 مارچ تک جب ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز باقاعدہ بغاوت کرچکی تھیں سینئیرٹائیگرز کی صفوں میں سکوت تھا۔ یہانتک کہ رجمنٹ میں تعینات مغربی پاکستانی افسر بھی جن میں اسوقت کے میجر اور بعد کے کراچی کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان بھی شامل تھے محفوظ تھے۔ سینیئر ٹائیگرز وہ واحد پلٹن تھی جسے کے تمام مغربی پاکستانی افسران بغیر کسی جانی نقصان یا مکتی باہنی کی قید کے جیسور چھاؤنی کے محفوظ حصار میں ’حلیف دستوں’ سے آملے تھے۔
۲۹ مارچ کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ احکام کی بجا آوری میں محاذ سے جیسور واپس پلٹ آئی۔ ان کے راستے میں جیسور کے نواح میں 25 بلوچ کی لگ بھگ اڑھائی سو کی نفری بارکوں میں تعینات تھی۔ میجر آفتاب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سینیئر ٹائیگرز اگر چاہتے تو 25 بلوچ کی اس نفری کو تہ تیغ کرسکتے تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ کشتیا اور کھلنا میں بغاوت سے برسرپیکار یونٹوں کی بچی کھچی نفری پر ہلہ بول کر جیسور کا تغمہ اپنے سینے پر سجالیتے، مگر اس پلٹن کی رگوں میں ابھی وطن سے محبت کی رمق باقی تھی
کمانڈر جیسور بریگیڈیئر درانی کے احکام کی بجا آوری میں 25 بلوچ کے کرنل ڈین 30 مارچ کی صبح ہتھیار رکھوانے سینیئر ٹائیگرز کے کمانڈنٹ آفس پہنچ گئے میجر آفتاب کا کہنا ہے کہ اس حکم پر کمانڈنٹ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کرنل ضیاء الجلیل سناٹے میں آگئے۔ یونٹ کے صوبیدار میجرعظیم خان ستارۂ جرات نے شدید احتجاج کیا۔ جب مغربی پاکستانی کمانڈر اپنی مجبوری کی داستان سنا چکے تو فرط جذبات میں کرنل ضیاء نےاپنےشولڈر رینک اور صوبیدار میجرنے چھاتی کےوہ تغمے جن میں لاہور کے محاذ پر جوانمردی کی گواہی دیتا ستارۂ جرات جھلملا رہا تھا اتار پھینکے
یہاں پراگر آپ جنرل شوکت رضا کی کتاب پڑھیں تو وہ بتائیں گےکہ یہ پہلے سے طے شدہ اشارے تھے کہ جن پر رجمنٹ نے فائر کھول دیا اور 22 فرنٹئیرفورس اور 25 بلوچ کو جوابی فائر کرنا پڑا مگر وہاں موجود 25 بلوچ کے کیپٹن آفتاب گواہی دیں گے کہ کرنل ضیاء الجلیل کے دفتر سے نکل کر جیپ میں سوارہوتے ہی کمانڈنگ آفیسر نے وائرلیس پر بریگیڈکمانڈر کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی بغاوت کی خبر دی اور جیپ میں ساتھ بیٹھے اپنے کمپنی کمانڈر کو بغاوت کچلنے کا حکم بغاوت کا علم بلند نہ کرنے پاداش اور حکم کی تعمیل میں ایک کٹھن مارچ سے پلٹتے سینیئر ٹائیگرز کو 25 بلوچ کے مارٹر اور 55 فیلڈ رجمنٹ کی توپوں کے گولوں نے آدبوچا۔ ایک افراتفری کی دھکم پیل میں جو بچے وہ مشین گن کی گولیوں سے بھون دیئے گئے ستمبر 1965 میں بیدیاں کے دفاع میں 15 جانوں کا نذرانہ دینے والی فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ سے 1971 کے جیسور میں اس کی اپنی فوج کی گولیوں نے ایک سو پچاسی جوانوں کو نگل لیا تھا
بچی کھچی رجمنٹ تو لیفٹیننٹحفیظ الدین کی نگہداشت میں ہندوستانی سرحد کی طرف پسپا ہوئی
مگر فرسٹ ایسٹ بنگال کے کرنل ضیاء الجلیل کی حمیت نے یہ بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے خود کو جیسور کی سپاہ کے حوالے کردیا
اپنی جان خطرے میں ڈال کر ’باغیوں کی سرکوبی‘ کرنے کے اعتراف میں 25 بلوچ کے کرنل ڈین کو تمغۂ قائدِ اعظم سے سرفراز کیا گیا اور 107 بریگیڈ کمانڈر ببریگیڈیئر درانی حالات پر قابو پاکر ’بروقت‘ مشرقی پاکستان سے نکل آئے تو کچھ عرصے بعد بلوچستان کی گورنری کی مسند پر فائز ہوئے
ممکن ہے ہمارے پڑھنے والوں کو میجر آفتاب کے اسلوب میں تلخی اور شکایت کا تعصب نظر آئے مگر صاحبو جب ’مشرقی پاکستان کےمیدانِ جنگ سےآخری سلام‘ لکھنےوالا میجرآفتاب احمد یہ کہتاہےکہ کیا ہی اچھاہوتااگر ہم نےاپنےہتھیار باہمی رضامندی سےبنگال کےلوگوں کےدل کی آوازشیخ مجیب، بنگلہ دیش کی آزادی کااعلان کرنےوالےمیجر ضیاء الرحمٰن اور مکتی باہنی کےکرتادھرتاکرنل عثمانی کے سامنے ڈالے ہوتے تو اس کی بات میں وزن تو ہے
شاید ہم جگجیت سنگھ ارورہ اور جے ایف آر جیکب کے حصار میں ایک دستاویزی دستخط کی ذلت سے بچ جاتے
ـــ
میں نے دیکھا ہے انہیں مانند تیغ بے نیام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
اس تحریر میں تصویروں کا عکس (ماسوائے ان کے جہاں مآخذ درج ہے) میجر آفتاب احمد کی کتاب آخری سلام سے لیا گیا ہے
تحریر کے آخر میں ایک شعر آغا شورش کاشمیری کی نظم سے اقتباس ہے جو انہوں نے ایسٹ بنگال رجمنٹ کی شجاعت کی نظر کی تھی