تحریر : بران سٹوکر (آئر لینڈ)
مترجم : ڈاکٹر انعام الحق جاوید (اسلام آباد)
شادی کے بعد ہنی مون منانے کے لیے میری بیوی نے “نرن برگ” کے علاقے کا انتخاب کیا تاکہ شہروں کی ہماہمی سے ہٹ کر جنگلی علاقے کے خاموش لمحات میں پناہ لی جائے لیکن بدقسمتی سے راستے میں ایک ایسا دوست مل گیا جو ہمارے ساتھ زبردستی چمٹ گیا اور ہم ماہِ عُسل سے پوری طرح حظ اندوز نہ ہوسکے۔ خیر ہمیں تو یہ تجربہ انتہائی مجبوری کی حالت میں کرنا پڑا تھا لیکن واپس آتے ہی میری بیوی “ایمیلیا” نے اپنی تمام سہیلیوں کو نصیحت کردی تھی کہ وہ ہنی مون منانے کے لیے جاتے وقت کسی تیسری ہستی کو ساتھ نہ لے جائیں۔۔۔ ورنہ پچھتا نا پڑے گا۔
میں، میری بیوی اور مسٹر ایلس “نرن برگ” کے تمام علاقے کی سیر کرنے کے بعد آخری آئٹم کے طور پر برگ کے قلعے کو دیکھنا چاہتے تھے جو ایک اونچی چٹان پر واقع تھا۔ اس عظیم اونچی چٹان پر واقع تھا۔ اس عظیم قلعے کے ساتھ ایک بادشاہ کے جبر اور ظلم کی داستان وابستہ تھی۔ تاریخ کے بیان کے مطابق ایک جابر بادشاہ نے اٹھارویں صدی میں یہ قلعہ بیرونی دشمنوں کا حملہ روکنے اور داخلی انتشار پیدا کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے بنوایا تھا لیکن اب یہ آثارِ قدیمہ کا حصّہ بن چکا تھا۔ اس کے چاروں طرف گہری خندق تھی جو مناسب احتیاط نہ ہونے کے باعث جنگلی گھاس سے اَٹی پڑی تھی۔ قلعے کی بیرونی دیواریں پکّی اینٹوں سے بنائی گئی تھیں۔ یہ دیواریں خاصی چوڑی اور اونچی ہونے کے علاوہ ذرا سی ڈھلوان بھی تھیں۔ ہم تینوں وہاں بیٹھے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے اور ساتھ ساتھ گفتگو بھی جاری تھی۔ ہمارے عین نیچے زمین پر ایک بلّی اور اس کا بچہ آپس میں پیار کا کھیل کھیل رہے تھے۔ بلّی اپنی دم ہلا ہلا کر بچے کو ادھر ادھر گھومنے کی ترغیب دیتی اور کبھی کبھی اسے منہ کی طرف سے چھیڑتی۔ یہ ماں بیٹے اور ممتا کے پیار کا کھیل تھا۔ ہم انھیں دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ اچانک مسٹر ایلس ایک درمیانے حجم کا پتھر اٹھاتے ہوئے بولا۔
“میں اس کھیل کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے یہ پتھر نیچے پھینک رہا ہوں۔ تم دیکھنا کہ دونوں جانور حیران رہ جائیں گے کہ یہ پتھر کہاں سے آیا ہے۔”
“اوہ! مسٹر ایلس۔ تمہیں محتاط رہنا چاہیے۔ یہ پتھر بچے کو بھی لگ سکتا ہے۔” میری بیوی نے مشورہ دیا۔ “نہیں میڈم نہیں! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں یہ پتھر بیچارے معصوم بچے پر گرادوں۔” ایلس نے جواب دیا۔ میں اپنے نشانے کے بارے میں پُر یقین ہوں اور پتھر ایسے طریقے سے پھینکوں گا کہ بلّی اور اس کے بچے کے عین درمیان میں گرے گا اور دونوں ششدر رہ جائیں گے۔
میری بیوی خدشات کے اظہار کے لیے لب کھولنا ہی چاہتی تھی کہ ایلس نے نہایت تیزی سے پتھر نیچے کی طرف پھینک دیا۔ پتھر تو اپنے نشانے پر گررہا تھا لیکن بلّی کا بچہ اپنی جگہ سے ہل کر پتھر کے نیچے پہنچ چکا تھا۔
ایک چیخ اُبھری اور ہوا کے دوش پر ہم تک پہنچی، پتھر عین بچے کے سر پر لگا تھا اور اس سے خون بہہ نکلا تھا۔ کالی بلّی نے منہ اوپر اٹھا کر غضب ناک اور نفرت انگیز نگاہوں سے ایلس کی طرف دیکھا اور پھر بچے کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ وہ بچے پر جھکی اور زخم چاٹنے لگی لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ اس لختِ جگر ٹھنڈا ہوچکا ہے۔۔۔ مامتا سوگوار ہوچکی تھی۔ پھر اس نے بالکل اسی طرح رونا شروع کردیا جیسے انسان اپنے کسی عزیز کی موت پر روتا ہے۔ تھوڑی دیر میں اس کا بوجھ ہلکا ہوگیا اور وہ ہماری طرف متوجہ ہوئی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس کے بچے کا قاتل ایلس ہے انتقام کے جوش میں وہ پنچوں کے بل کھڑی ہوگئی اور چھلانگ لگا کر دیوار پر چڑھنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ دیوار خاصی اونچی تھی لیکن بلّی کا صدمہ اس سے بھی اونچا تھا ۔ وہ دور سے دوڑ کر آتی اور دیوار پر قدم جماتی ہوئی واپس گر جاتی۔ ایک بار تو وہ اپنے مردہ بچے کی لاش پر بھی گر گئی لیکن اس سب کے باوجود اس کی آنکھوں کی وحشت بدستور قائم تھی۔ اس کا بس چلتا تو ہمیں کچا چبا جاتی۔
“افسوس! یہ چھوٹا چیتا کبھی دیوار پھلانگ کر ہم تک نہیں پہنچ سکتا۔” ایلس نے بلّی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میری بیوی سے کہا۔
میں اور میری بیوی بلّی کے لیے اپنے دل میں ہمدردی رکھتے تھے اور نوشتۂ تقدیر پر آنسو بہا رہے تھے۔
“میری پیار ی بلّی! میں نے جان بوجھ کر تمھارے بچے کو قتل نہیں کیا۔ یہ محض ایک اتفاق تھا۔ انسان بھی بعض اوقات کتنے احمقانہ کھیل کھیلتا ہے۔” ایلس نے بلّی کو اپنی صفائی پیش کی اور پھر میری بیوی کی طرف متوجہ ہوکر بولا۔ “مجھے افسوس ہے لیکن تم جانتی ہو کہ موت کا یہ کھیل میں نے ارادتاً نہیں کھیلا۔”
اور پھر جب میری بیوی کو اس کی باتوں کا یقین آگیا تو ہم قلعے کی سیر کے لیے چل پڑے۔ ہم دیوار پر چل رہے تھے اور بلّی زمین پر ہمارا تعاقب کررہی تھی۔ جب ہم کافی دور نکل آئے تو بلّی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ ہم نے سمجھا کہ چلی گئی ہے لیکن تھوڑی دیر میں بلّی پھر ہماری نگاہوں کی دسترس میں تھی۔ اس نے منہ میں اپنا مردہ بچہ اٹھایا ہوا تھا۔
میری بیوی نے ایلس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ۔ “تمہیں محتاط رہنا چاہیے۔ یہ جانور تمہیں ہلاک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مجھے اس کی آنکھوں میں ایک قاتل کا خون نظر آرہا ہے۔”
ایک طنزیہ قہقہے کے ساتھ ایلس بولا۔ “معاف کیجئے ۔ انسان کو اتنا بزدل بھی نہیں ہونا چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ ارادہ رکھتا ہے۔ مجھے اس کی آنکھوں میں ایک قاتل کا خون نظر آرہا ہے۔”
ایک طنزیہ قہقہے کے ساتھ ایلس بولا۔ “معاف کیجئے ۔ انسان کو اتنا بزدل بھی نہیں ہونا چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ ایک آدمی اور مجھ جیسا کرنل بلّی کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے۔”
“خدا حافظ! میری جنگلی بلّی! مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمھارے جذبات مجروح کیے۔” ایلس یہ کہتے ہوئے سیڑھیاں اترا اور ساتھ ہی ہم بھی اتر گئے۔ اب ہمارے اور شیر کی خالہ کے درمیان ایک اونچی دیوار حائل ہوچکی تھی۔
ہم نے قلعے کی خوب خوب سیر کی اور اس کا ہر کونا چھان مارا۔ شاہی کمرے، شاہی باغ اور دیگر عجائبات دیکھنے کے بعد ہمارا ارادہ ہوا کہ اس خونی برج کو اندر سے دیکھا جائے جس میں کسی زمانے میں دشمنوں کو اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ یہ علاقہ ممنوعہ تھا لیکن گائیڈ جو ہمارے ساتھ تھا، پیسوں کے لالچ میں آگیا اور چابی سے اس کا دروازہ کھول دیا۔ یہ نیم تاریک جگہ تھی جہاں صرف یہی ایک دروازہ تھا جس سے ہم داخل ہوئے تھے۔ دروازہ کھلا ہونے کے باعث ہلکی ہلکی روشنی در آئی تھی اور ہمیں کچھ چیزیں نظر آرہی تھیں۔
گائیڈ ہمیں مختلف ہتھیار اور جگہیں دکھا رہا تھا۔ “یہ لوہے کا کرا ہے جس میں ملزموں کو الٹا لٹکا کر پھانسی دی جاتی تھی ۔ یہ لوہے کے دو دروازے ہیں جن کے درمیان دشمن کو پیس دیا جاتا تھا۔”
“وہ کیسے؟” ایلس حیرانی سے پوچھنے لگا۔
“یہ جو لوہے کی چارپائی سی نظر آرہی ہے اس پر ملزم کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے اردگرد لگے ہوئے لوہے کے کڑوں سے ملزم کے بازؤں اور بدن کو اس طرح جکڑدیا جاتا تھا کہ وہ سرِ موحرکت نہ کر سکے ۔۔۔ اور وہ جو لوہے کا بھاری تختہ چارپائی کے عین اوپر لٹکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس کا تعلق ایک موٹے رسّے سے ہے جسے ایک آدمی دور کھڑا ہوکر آہستہ آہستہ ڈھیل دیتا ۔ جب لوہے کا موٹا اور وزنی ٹکڑا چارپائی سے تین یا چار فٹ کے فاصلے پر رہ جاتا تو فوراً رسی چھوڑ دی جاتی ۔ یہ تختہ چار پائی پر گرتا اور ملزم کا گوشت ان دونوں کے درمیان قیمہ ہوجاتا۔”
“کیا میں اس پر لیٹ سکتا ہوں۔” ایلس نے میری بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے گائیڈ سے پوچھا۔ وہ دراصل میری بیوی کو مرعوب کرنا چاہتا تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جو عورت پر اپنی مردانگی کا رعب جمانے کے لیے اس قسم کے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔
میری بیوی گائیڈ کے جواب سے پہلے بول اٹھی۔ “نہیں ایلس یہ بہت خطرناک ہے۔”
ایلس نے جواب دیا۔ “اس میں خطرے والی کون سی بات ہے۔ میں فوجی کرنل ہوں اور بارہا اس سے زیادہ خطرناک مرحلوں سے گزر چکا ہوں۔” وہ خوب جانتا تھا کہ عورت خواہ کتنی ہی بزدل کیوں نہ ہو بہادر مرد کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
میں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ایلس پوری طرح اس تجربہ کے لیے تیار ہوچکا ہے۔ کہا “چلو ! جلدی کرو اور چارپائی پر لیٹ جاؤ۔”
مزید بہادری اور بے خوفی کے جوہر دکھانے کے لیے ایلس نے گائیڈ سے کہا ۔ “لو اب میں چارپائی پر لیٹتا ہوں۔ تم مجھے اس میں جکڑ دو اور دور کھڑے ہوکر لوہے کی رسّی کو آہستہ آہستہ ڈھیل دو تاکہ اوپر والا تحتہ میری طرف بڑھے۔ میں اس منظر سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں۔ میں خود پر وہی کیفیت طاری ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں جو اصل مجرموں پر طاری ہوتی تھی۔”
ایلس میری بیوی کے چہرے پر پھیلے ہوئے خوف کے تأثرات سے خاصا محظوظ ہورہا تھا۔ گائیڈ پہلے تو ہچکچایا لیکن میری رضامندی اور پیسوں کے لالچ نے اسے ترغیب دی اور اس نے ایلس کو چار پائی پر جکڑ دیا۔۔۔ ہم تینوں دروازے کے قریب کھڑے ہوگئے۔ گائیڈ کے ہاتھ میں رسی تھی ، جو وہ آہستہ آہستہ چھوڑ رہا تھا ۔ نہایت احتیاط کے ساتھ ایک انچ فی منٹ کی رفتار سے۔۔۔ اس کا چہرہ خوف سے کپکپارہا تھا کیونکہ یہ انتہائی مشکل اور خوفناک کام تھا۔
“مصنوعی موت کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر کتنا لطف آرہا ہے۔” ایلس بولا اور ساتھ ہی گائیڈ کو تنبیہ کی کہ جب یہ اوپر والا تختہ فٹ کے فاصلے پر رہ جائے تو ایمیلیا کو کہنا کہ وہ آکر میری زنجیریں کھول دے۔
میری بیوی حیرت سے یہ سب تماشا دیکھ رہی تھی۔ گائیڈ کی جگہ میں نے جواب دیا۔ “فکر مت کرو ایلس میں یہاں ہوں۔ جب تمہیں خوف محسوس ہونے لگے، بتا دینا۔”
جوں جوں لوہے کا تختہ ایلس کی طرف بڑھ رہا تھا میری بیوی ایمیلیا کا رنگ سفید ہوا جارہا تھا۔ اچانک میں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا جو مڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھیں۔
“بلّی! وہی سیاہ بلّی” میرے منہ سے چیخ سی نکلی لیکن اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے میں نے ایلس کی طرف دیکھا۔ ایلس نے بھی نگاہیں ٹیڑھی کرکے بلّی کو دیکھ لیا تھا اور ایمیلیا کے چہرے پر نظریں گاڑے مسکرا رہا تھا۔
بلّی اس وقت ایک خونی دیو کی صورت اختیار کیے کھڑی تھی لیکن وہ ہم تینوں کے ہوتے ہوئے ایلس تک کس طرح پہنچ سکتی تھی۔ میں ایمیلیا کو دیکھ رہا تھا جس کے لیے اب کھڑا رہنا دشوار تھا۔ وہ بیٹھ گئی اور اس کے ساتھ ہی میں بھی بیٹھ گیا تاکہ اسے سہارا دے سکوں۔
عین اسی لمحے بلّی نے جست بھری لیکن ایلس کی طرف نہیں بلکہ گائیڈ کے منہ کی طرف۔ اس کے پنجے گائیڈ کے چہرے پر تھے۔ گائیڈ گرا اور رسّا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں نے جلدی سے رسّے اور گائیڈ کو پکڑ نے کی کوشش کی لیکن وقت گزر چکا تھا۔ ایک دھماکے کی آواز آئی۔۔۔ ایک چیخ فضا میں بلند ہوئی اور زمین خون سے تر ہوگئی۔
ایلس ختم ہوچکا تھا اور ایمیلیا خوف سے بے ہوش ہوچکی تھی ۔ میں نے اُسے اٹھایا اور برج سے باہر لاکر لٹا دیا۔ پھر واپس ایلس کی طرف پلٹا تاکہ اس بچارے کے بچے کھچے ٹکڑے اکٹھے کرسکوں۔ خوف بُری طرح میرے اعصاب کوشل کررہا تھا لیکن جب میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ بوڑھا گائیڈ آنکھوں پر رومال رکھّے بیٹھا ہے اور بلّی اُس لوہے کے تختے پر فاتحانہ انداز میں بیٹھی ہے جس کے نیچے ایلس کا مُردہ اور بے جان جسم رہزہ رہزہ ہوچکا ہے۔
میرا خیال ہے آپ مجھے ظالم نہیں سمجھیں گے اگر میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے دیوار پر لٹکی ہوئی پرانی تلوار اٹھا کر بلّی کے جسم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ دراصل اس وقت میں غم اور غصّے سے پاگل ہورہا تھا۔
Original Title: The Squaw
Written by:
Bram Stoker, Abraham Stoker (8 November 1847 – 20 April 1912) was an Irish author.
For Original Text:
http://www.bramstoker.org/txt/stories/03guest/03squaw.txt