مجھے سیاستدان بہت پسند ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں!
کیا آپ نے ایک پرائیویٹ نجی ٹیلی ویژن کے ٹاک شو میں وہ پروگرام نہیں دیکھا جس میں ریلوے کے وفاقی وزیر اپنی ماتحت خاتون افسر کے بارے میں فرما رہے تھے کہ وہ انکی بیٹی کی طرح ہے بلکہ عمر میں انکی بیٹیوں سے بھی چھوٹی ہے۔ کیا اس سے زیادہ نرمی، شفقت اور جذبۂ رحم سیاست دانوں کے علاوہ کوئی اور جنس دکھاسکتی ہے؟ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ خاتون سی ایس پی افسر مریم گیلانی کی جگہ واقعی وفاقی وزیر کی دُختر ہوتی تو کیا وہ اسے بھی ایک فہرست دے کر یہ حکم دیتے کہ ان افراد کو ہر حال میں بھرتی کرنا ہے؟ تو یہ تو بال کی کھال اتارنے والی بات ہے
۔سیاست دان مجھے اس لئے بھی پسند ہیں کہ وہ ہمیشہ ہر حال میں سچ بولتے ہیں۔ اسی پروگرام میں محترم وفاقی وزیر نے میرٹ کا ذکر سُن کر کہا کہ کون سی میرٹ؟ لیکن کمال کی بات انہوں نے یہ کہی کہ جرنیل کا بیٹا جرنیل ہوتا ہے اور سیکرٹری کا بیٹا سیکرٹری ہوتا ہے۔ یہ معصومیت اور بے پناہ علم ہی تو سیاست دانوں کا مجھے متاثر کیے رکھتا ہے
خدا بھلا کرے فوج کے کمیشن کے طریق کار کا، بے شمار جرنیلوں کے بچے کاکول نہیں پہنچ سکتے اور کئی سپاہیوں، حوالداروں، صوبیداروں اور کسانوں کے بچے لفٹین بن جاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کاکول میں پاسنگ آئوٹ پریڈ تھی۔ کیڈٹ کمیشن لے رہے تھے۔ بڑے دروازے کے پاس ایک دیہاتی تہمد میں ملبوس کھڑا تھا اور اس کا لفٹین بیٹا اس کیساتھ لپٹا ہوا تھا! جرنیل کا بیٹا ہر حال میں جرنیل نہیں بنتا۔ لیکن اگر اُن لوگوں میں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو فوج میں افسر بنانا ہے اور کس کو نہیں، سیاستدانوں کو بھی شامل کرلیا جائے اور فوج کے پروموشن بورڈ میں بھی سیاست دانوں کو بٹھا دیا جائے تو وزیروں اور اسمبلیوں کے ممبروں کے صاحبزادگان ضرور جرنیل بن جائینگے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ جرنیل ایسے بھی تھے جن کی اولاد کو جرنیل بننا تو دور کی بات ہے فوج ہی پسند نہیں تھی۔ایوب خان جرنیل تھے۔ ان کے والد بھی فوج میں تھے لیکن ان کے بیٹے نے فوج میں رہنا اچھا نہ سمجھا اور پیشۂ آبا یعنی سپہ گری کو لات مار کر آگئے اور اسکے بعد جو کچھ کرتے رہے تاریخ کا حصہ ہے۔ کچھ جرنیل اوجھڑی کیمپ والے بھی تھے۔ اُنکے بیٹے بھی جرنیل نہ بنے لیکن اسمبلیوں میں ضرور آئے۔ کیوں آئے؟ کیسے آئے؟ کیوں کر آئے؟ آپ تو یوں پوچھ رہے ہیں جیسے واقعی آپ کو کچھ نہیں معلوم! ان میں سے ایک نے کچھ عرصہ پہلے کہا ہے کہ لال مسجد کا سانحہ جب ہوا تو انہیں وزارت سے استعفیٰ دینا چاہئے تھا۔ افسوس! انہوں نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ وہ استعفیٰ کیوں نہ دے سکے؟ اور جب انہوں نے یہ کہا کہ لال مسجد کے سانحہ پر انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا تو اس میں آخر ہنسنے کی کون سی بات تھی؟ لیکن افسوس! لوگ پھر بھی ہنسے! زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جرنیل کا بیٹا جرنیل بنے تو لوگ عش عش کرتے ہیں لیکن اگرجرنیل کا بیٹا سیاست دان بنے تو لوگ ہنستے ہیں!
رہی وفاقی وزیر کی یہ بات کہ سیکرٹری کا بیٹا سیکرٹری بنتا ہے تو یہ وہ فقط معصومیت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ ورنہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سول سروس کیلئے مقابلے کا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے جو اتنا آسان نہیںہوتا جتنی آسان وزارت ہوتی ہے اور کئی سیکرٹریوں کے بیٹے اس امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کو پسند کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ حضرات ہر کام میرٹ پر کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر کا ماتحت خاتون افسر سے تنازعہ یہ نہیں تھا کہ بھرتیاں میرٹ پر نہ ہوں۔ وہ تو بھرتیاں میرٹ پر ہی چاہتے تھے لیکن انکا حکم یہ تھا کہ میرٹ کی یہ بھرتیاں اُنکے حلقے ہی سے ہوں۔ عمر کا تقاضا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ اپنے حلقے کے نہیں پورے پاکستان کے وزیر ہیں۔ ریلوے کی بھرتی میں صوبوں کے اپنے اپنے حصے ہیں۔ اب اگر پورے صوبہ سرحد کے حصے کی بھرتیاں وزیرصاحب کے حلقے کو دے دی جائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ دھاندلی بھی تو میرٹ ہی پر ہونا تھی!
سیاست دانوں کی ’’میرٹ پسندی‘‘ کے اور واقعات بھی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سیاست دان تھے۔ انہوں نے ’’میرٹ‘‘ پر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا۔ انہیں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو ’’میرٹ‘‘ پر پھانسی دے دی۔ پھر میاں نوازشریف نے خالص ’’میرٹ‘‘ پرجنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ میاں صاحب آخر وزیراعظم تھے۔ انہیں یہ رپورٹیں تو ضرور ملی ہونگی کہ جنرل مشرف کس قماش کے انسان ہیں اُنکے شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔ وہ کیوں مشہور ہیں اور انکے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں۔ لیکن ’’میرٹ‘‘ کا حملہ اتنا شدید تھا کہ ان رپورٹوں کے باوجود میاں صاحب نے جنرل مشرف ہی کو فوج کاسربراہ بنایا! ایسے مواقع ہی کیلئے تو فارسی کا یہ مصرع ایجاد ہوا ہے…
ع ۔ رموزِ مملکتِ خویش خسرو اں دانند
پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ جو بھی اقتدار پر بیٹھتا ہے اپنے آپکو خسرو سمجھتا ہے اور ملک کو اپنی مملکت گردانتا ہے!
بات اہل سیاست کی میرٹ پسندی کی ہو رہی تھی۔ ایک سیاست دان ظفراللہ جمالی جب وزیراعظم بنے تو ایک اور سیاست دان قاضی حسین احمد نے اُنہیں نصیحت کی کہ اب میرٹ پر فیصلے کرنا، تو پہلے سیاست دان نے دوسرے سیاست دان کو جو جواب دیا وہ فرشتوں کو چاہئے کہ آسمان پر نور سے اس طرح لکھیں کہ رہتی دنیا تک لوگ اُسے دیکھتے اور پڑھتے رہیں۔ اس نے جواب دیا کہ میں خود کون سا میرٹ پر آیا ہوں! دوسرے سیاست دان سے یاد آیا کہ وہ اب جماعت کے سربراہ نہیں رہے اس لئے عید انہوں نے مسجد قاسم خان کے فتویٰ کیمطابق کی ہے جبکہ منصورہ والوں نے اُسکے ایک دن بعد کی ہوگی! اب یا تو قاضی حسین احمد صاحب کی عید درست تھی یا منصورہ والوں کی! ظاہر ہے کہ دونوں تودرست نہیں ہوسکتیں لیکن اہل سیاست کا کمال یہ ہے کہ وہ دونوں کودرست ثابت کر دینگے اور ایک وجہ انہیں ازحد پسند کرنے کی۔ یہ کمال بھی ہے۔ یوں بھی سابق امیر کیلئے موجودہ (حاضر سروس) امیر کی اطاعت ضروری نہیں! اطاعتِ امیر کا سبق عوام کیلئے ہے خواص کیلئے نہیں رہا، ان کا منصورہ کے بجائے مسجد قاسم خان کو ترجیح دینے کا معاملہ تو انگریزی نے ایسے مواقع کیلئے ایک محاورہ ایجاد کیا ہے۔
BLOOD IS THICKER THAN WATERیعنی خون کا رشتہ دوسرے سب
روابط پر بھاری ہوتا ہے!!
ایک اور خوبی سیاست دانوں میں یہ ہے کہ وہ ہر کام حساب کتاب سے کرتے ہیں۔ اسکی مثال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دو ایسی خواتین کو وزیر بنایا جو جنرل مشرف کے زمانے میں بھی وزیر رہیں۔ اسکے مقابلے میں مسلم لیگ نون نے ایک ایسے مرد کو سینے سے لگایا جو جنرل مشرف کیساتھ سارا عرصہ وزیر رہا۔ اب حساب کتاب کا حیرت انگیز پہلو دیکھئے کہ اہل سیاست نے ثابت کردیا کہ وہ ایک مرد وزیر کو دو خواتین وزیروں کے برابر…یا ایک وزیر مرد کو دو وزیر خواتین کا ہم پلّہ سمجھتے ہیں۔
اور آخری وجہ سیاست دانوں پر فدا ہونے کی یہ ہے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انگریز ایسے شخص کو PRAGMATIC کہتے ہیں یعنی وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے والا۔ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق سیاسی وفاداریاں بدل لیتے ہیں۔ سول کو طلاق دیکر مارشل لاء کے ہم نوا ہو جاتے ہیں اور حالات پلٹیں تو ایک بار پھر جمہوریت کو خدا مان لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے جو سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے۔ وفاداری…جو اصل ایماں ہے، برہمنوں کی خوبی ہے۔ مسلمان کو زیبا نہیں…
؎وفا داری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو