بدھ مت کا اصل اصول ترک لذت اور روحانی ترقی تھا اس لیے ان کی کتابوں میں اعلی درجہ کے اخلاقی اصول ، دنیا کی بے ثباتی ، ظاہری جاہ و حشم کی دہوکادہی ، دنیا کی لذتوں کی بے حقیقی اور جذبات گمراہی کو ثابت کیا گیا ہے ۔ ہندوستان میں جب بدھ مت کا دور دورہ تھا تو اس مذہب کے مبلغین نے بدھ کے تعلیمات کو مختلف پیرایوں جن میں جاتکوں یا کھتاؤں کی صورت میں میں بیان کیا ہے ۔ یہ کہانیاں سنسکرت میں بدھ جاتکا کہلاتی ہیں ۔ جب بدھ مت برصغیر میں مغلوب ہوا تو ہندوؤں کے دلوں پر بدھ کی اخلاقی عظمت ان اثر کرچکی تھی ۔ اس لیے انہون نے بدھی قصوں کو اپنی کتھا کی کتابوں میں شامل کرلیا ۔ اگرچہ بوذاسف و بلوہر کی حقیقت کا انہوں نے اقرار نہیں کیا ہے مگر مشہور کتاب للت دستا میں یہ قصہ شامل ہے ۔
اس قسم کی کتابوں کی تعداد ۵۵۰ تک بیان کی گئی ہے ۔ اردو شیر بابک کے زمانے میں برصغیر سے ایران تک بدھ مت کا دورہ تھا اور اس وقت اہل ایران کو ایسے پند و نصائح کی کتابوں کی ضرورت پڑی ۔ اس لیے اس زمانہ میں بعض سنسکرت کی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی گئیں ۔ ان کتابوں میں کلیہ دمنہ اور اور بوذاسف و بلوہر زیادہ مشہور ہیں اور ان کتابوں نے مشرق و مغرب کے اخلاق پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے ۔ بوذاسف و بلوہر ان کتابوں سے ایک ہے ۔ اس کتاب کہ بارے میں یہ معلومات نہیں ہوسکی کہ یہ کب لکھی گئی تھی ۔ مگر اس کتاب میں کچھ شہادتیں ایسی ہیں کہ کچھ اندازے لگائے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً جب بوذاسف ہلوہر ایمان لایا تو بدھ کو آئے ہوئے تین سو سال گزر چکے تھے اور آخر میں اس کتاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ بوذاسف کا چچا سمتا اور اس کے بعد اس کا بیٹا سامل تخت نشین ہوا ۔ اس کے بعد اس کی اولاد میں سلطنت منتقل ہوتی رہی ہے اور اب اس کی اولاًد ملک شولایت میں حکومت کرتی ہے ۔ بوذاسف بوہر کے دو سو سال بعد یہ کتاب لکھی گئی تھی ۔ چونکہ بدھ حضرت عیسیٰ سے پانسو سال پہلے گزرا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے یہ کتاب حضرت عیسیٰ سے کچھ پہلے لکھی گئی ہے ۔
بوذا سفر و بلوہر عجیب و غریب نام ہے اور کثرت سے استعمال ہوا ہے ۔ مگر یہ نام کسی زبان میں نہیں ملتا ہے اگر اس کی اصلیت کا پتہ لگایا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بدھ مت کی کتابوں میں شہزادہ کپل دستو اور اس کے مریدوں کو بدھ ست یعنی طالب حق کے لقب مخاطب کیا گیا ہے اور بوذاسف اس کی بگڑی شکل ہے ۔ اس طرح پروہت کا کلمہ عربی رسم الخط کی وجہ سے کاتبوں یا ترجمہ کرنے والوں نے بلوہر کردیا ۔
اہل یورپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جو چیز بھی مسلمانوں میں باعث افتخار ہو اس کو خواہ مخواہ کسی عیسائی سے منسوب کر دیتے ہیں ۔ اس لیے یورپ میں پہلے یہ خیال کیا گیا تھا کہ یہ کتاب ایک عیسائی طبیب یونا (سینٹ جان) کی تصنیف ہے جو کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کا درباری تھا ۔ مگر ڈاکٹر لابیکٹ اور پروفیسر میکسلر کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ یہ کتاب سنسکرت میں لکھی گئی اور پروفیسر کہن نے تسلیم کیا کہ عربوں نے اس کتاب کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کا عربی ترجمہ کیا اور شائع کیا ۔
مسلمانوں نے جب علم و فنون کی طرف توجہ دی اور اس کی ابتدا خالد بن یزید بن معاویہ کے دور میں ہوئی اور عروج عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے زمانے میں شروع ہوا اور بیرونی علوم سے فائدہ اٹھانے کے لیے فارسی ، سریانی ، قطبی اور یونانی کتب کا ترجمہ کرانا شروع کیا ۔ ابن الندیم کی کتاب الفہرست میں اس کتاب کا نام ہندی کتب میں داخل ہے ۔ خلیفہ منصور کے زمانے مین سندھ کی سفارتی وفد کے ساتھ ہندو پنڈت آیا تھا تھا وہ اس کتاب کو یقیناًتعصب کی وجہ سے اس بدھی کتاب کو ساتھ نہیں لایا ہوگا ۔ غالباً اس کتاب کا ترجمہ کلیہ دمنہ کی طرح پہلوی سے عربی میں ہوا ہے ۔ ہوسکتا ہے اس کو ترجمہ کرنے والا عبداللہ ابن المقفع ہو جس نے کلیہ دمنہ کا ترجمہ کیا تھا ۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فارسی ، حبشی ، جارجین ارمنی اور یونانی میں زبان کے علاوہ یورپ کی ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔
پروفیسر کہن کے مطابق اس کتاب کے تین عربی ترجمہ ہوئے ہیں ۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور عربی ادب پر بھی اس کتاب کا بہت اثر ہوا ۔
بوذاسف و بوہر اپنی اخلاقی عظمت و مقبولیت کی وجہ سے اہل تشیع پر بھی اثر انداز ہوئی اور شیعوں کی مشہور کتاب اکمال الدین و اتمام النعمہ میں شامل ہے اور انہوں نے اسے علی بن حسین بن علیؓ سے منسوب کردیا ۔ ابی جعفر محمد بن علی بابویہ القمی نے اس کو احادیث میں درج کیا ہے ۔ محمد ابن بایویہ جو قصہ نقل کیا ہے وہ اس کتاب کا خلاصہ ہے ۔ اس میں اور اصل قصہ میں بہت کم فرق ہے ۔ لیکن آخر میں اس قصہ میں تبدیلی کردی گئی اور بہت سی نئی حکایتں درج کی گئی ہیں ۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنی مشہور کتاب عوارف و المعارف میں اس کی مثالیں درج کیں ہیں ۔
یہ کتاب مشرق سے زیادہ مغرب میں مقبول ہوئی ۔ یونا دمقشی نے جو ابو جعفر المنصور کا طبیب اور راسخ القیدہ عیسائی تھا اور آخر عمر میں راہب بن گیا تھا اس کا ترجمہ یونانی زبان میں کیا تھا ۔ مگر اس نے اس ترجمہ میں عیسایت کا روغن چڑھادیا اور بوذاسف و بلوہر کو عیسائی اولیا بنا دیا ۔ شمس العما مولوی سید علی بلگرامی نے اپنے مضمون کلمیہ دمنہ میں اسے یوحنا کا ترجمہ بتایا ہے ۔ پرفیسر کہن کا خیال ہے یونانی ترجمہ عربی سے نہیں بلکہ پہلوی سے ہوا ہے ۔ لیکن یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یوحنا پہلوی جانتا تھا یا وہ کبھی ایران گیا تھا ۔ البتہ وہ عربی جانتا تھا اور اس نے عربی ترجمہ سے یونانی زبان میں کیا ۔ اس ترجمہ میں عیسائی مبلغ ارسٹائیڈیز کے خط کو جو اس نے تو رومی شہنشاہ ہیڈرین کو ۱۲۵ء میں مذہب عیسوی کے اثبات کے لیے لکھا تھا شامل کرلیا اور اس خط کا عربی ترجمہ میں ذکر نہیں ہے ۔
عیسائی دنیا اس قصہ سے معارف سائمون میٹا فراسٹ (۱۱۵۰ء) کی کتاب تذکرہ اولیا سے معارف ہوئی ۔ جس نے اس کتاب میں اس قصہ کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کیا تھا ۔ اس قصہ کو اتنی مقبولیت ہوئی کہ تذکرہ اولیا کے انتخاب میں اس قصہ کو لوگوں کی ہدایت کے لیے شائع کیا جاتا رہا ہے ۔ تیرویں صدی عیسویں میں ونسنٹ نے اس قصہ کو اپنی کتاب اسپکیولم ہسٹوریال میں درج کیا اور جیکوبس ڈی ڈورین نے کس قدر اختصار کے ساتھ اپنی کتاب گولڈن لیجنڈ میں اس کا اعادہ کیا ۔ ان مصنفین کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بوذا سف و بلوہر کا نام سینٹ جوزف اور سینٹ بارلم کے نام سے یونانی و رومی کلسیا کے اولیا کی فہرستوں میں داخل ہوا ۔ سینٹ جوزف اور سینٹ بارلم اس قدر مقبول ہوے کہ ایک گرجا سینٹ جوزف کے نام سے پالرمو اٹلی میں آج بھی موجود ہے ۔ یہاں تک یورپ کی کوئی زبان ایسی نہ رہی جس میں اس کتاب کا ترجمہ نہیں کیا گیا ہو ۔ یورپ کے لٹریچر کا اس کتاب کے مضامین کا بہت اثر ہوا ۔ اٹلی کے مشہور افسانہ نگار بوکاچیو شکپیر اور دوسرے ادیبوں نے اس کتاب کے قصوں سے مدد لی ہے
اس قصہ پر اگر نظر ڈالی جائے تو کوئی مافوق العات بات نہیں ہے اور اس کتاب میں ساکیا منی کے ابتدائی حالات اور بدھ مت کے اخلاقی نصائج کو سیدھے سادھے طور پر بیان کیا ہے ۔ یہ ساکیہ منی کی نمایاں فتح تھی کہ اس نے عیسایت کو اپنی اعلیٰ اخلاقی قوت سے مسخر کیا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...