نہیں! ہرگز نہیں ! حاجی خان میواتی کو جلال الدین اکبر سے کوئی محبت نہیں تھی۔ نہ ہی اسامہ حمزہ کو عمران خان یا تحریک انصاف سے محبت ہے۔ حب علی اور بغضِ معاویہ والا محاورہ جس نے بھی اردو زبان کو دیا ہے، ابلاغ کے علم پر احسان کیا ہے۔
غداری کی ہیموبقال نے عادل شاہ سوری سے‘ جس نے اسے کمانڈر ان چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی مقرر کیا تھا۔ ہمایوں کی موت کی خبر ہیمونہ ہضم کرسکا۔ ’’اب میں بادشاہ بنوں گا‘‘ اس نے اعلان کیا۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی اس لیے کہ یہ ہندو احیاء ہوتا۔ جس برق رفتاری سے وہ بنگال سے چل کر بہار، مشرقی یوپی اور مدہیہ پردیش کو تاراج کرتا آگرہ پہنچا ہے تو بعد کے مورخوں نے اسے اس مہم سے تشبیہہ دی جو نپولین نے اٹلی میں سرانجام دی۔ کیا سکندر ازبک اور کیا تردی خان جیسے کمانڈر‘ سب بے بس ہوگئے۔ وہ تو بیرم خان ڈٹ گیا کہ نہیں ہم میدان ہیمو کے لیے چھوڑ کر کابل نہیں بھاگیں گے۔ پانی پت کے میدان میں دوسری بار رونق لگی۔ تیرہ سالہ اکبر کو بوڑھے بیرم خان نے میدان جنگ سے آٹھ میل دور رکھا اور ہدایت دی کہ افتاد پڑی تو جان بچانے کے لیے سیدھا کابل جانا ہے۔
کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ افغان اپنے آپ کو ہیموکی طرح ’’ مقامی ‘‘سمجھ رہے تھے اور مغلوں کو ’’غیر ملکی‘‘ (وہ جو افغان مہاجرین کی ’’ واپسی‘‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس نکتے پرغور کرلیں) ہیمو کا پورا نام چندر وکرا ماتیہ تھا اور پانی پت کی دوسری جنگ میں جب وہ اکبر کی فوج سے لڑرہا تھا تو اس کے میمنہ کی قیادت شادی خان کاکڑ کررہا تھا! ایک تیر ہیمو کی آنکھ کے پار اترا اور مغل جیت گئے۔ لیکن بیرم خان کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا‘ اس لیے کہ اس جنگ میں حاجی خان میواتی کا باپ ہیمو کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
چھ سال گزر گئے۔ اکبر جوان ہوگیا۔ بوڑھے بیرم خان سے اسے جھلاہٹ ہونے لگی۔ ’’ بابا… اب تم محل میں رہو، امور سلطنت چھوڑ دو… یا حج پر چلے جائو …’’ بوڑھے جنگ جونے حج کو ترجیح دی۔ گجرات پہنچا تو حاجی خان میواتی کو معلوم ہوا۔ اس نے باپ کا بدلہ لینے کے لیے بیرم خان کو کعبہ کے بجائے اس دنیا میں پہنچا دیا جو نظر نہیں آتی !!
حاجی میواتی کو کیا دلچسپی تھی مغلوں میں یا ان کی سلطنت کے استحکام میں ! ہوسکتا ہے اکبر نے اس قتل کو غنیمت سمجھا ہو لیکن عمران خان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اسامہ حمزہ کی بغاوت سے دلشاد نہیں ہونا چاہیے ! ہاں اگر کوئی سرخ بلب اس کے دماغ کی دیوار پر نصب ہے تو اسے ضرور روشن کرلے!
مسلم لیگ نون کے سینیٹر (سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی) ایم حمزہ نے مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا اصولی فیصلہ کیا ہے! پالیسیوں سے اختلاف… اور اصولی فیصلہ !! ہا ہا ہا ! وہ جو بابے ظفر اقبال نے ایک شعر میں کہا ہے کہ مجھے کبڑا نہ سمجھو… میں تو دنیا کو دیکھ کر اس قدر ہنس رہا ہوں کہ ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں ! تو’’ اصولی فیصلہ ‘‘ اور پالیسیوں سے ’’ اختلاف ‘‘… دو ایسی اخباری اصطلاحات ہیں کہ جس نے بھی ایجاد کیں ریا کاری کے باغ میں گویا پھول کھلا دیے اور مخملیں سبزہ دور دور تک بچھا دیا ! کیا ایم حمزہ کو اور ان کے فرزند گرامی کو ان پالیسیوں کا علم دو دن پیشتر ہوا؟ معمر سیاستدان نے بیٹے کو نون لیگ کا ٹکٹ دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بات نہ بنی۔ چودھری سرور انگلستانی ثم لاہوری نے کہ گورنر ہائوس میں زینت تخت ہیں، گوجرہ کے خالد جاوید وڑائچ کو ٹکٹ دلوا دیا اور یوں نون لیگ کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ وجود میں آیا ! یہ اختلاف کی وہی قسم ہے جو حنیف عباسی کو ’’ اپنی ‘‘ جماعت ، جماعت اسلامی سے اس وقت پیدا ہوا جب جماعت نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ بائی کاٹ حنیف عباسی کو راس نہیں آسکتا تھا اور یہ موقع محل یہ بتانے کا نہیں کہ مسلم لیگ نون بھی عباسی صاحب کے لیے ع
چراغ راہ ہے! منزل نہیں ہے
نہیں معلوم عمران خان اور اس کی جماعت مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ کرنے والے عناصر کے ’’اصولی‘‘ فیصلے کو کس نظر سے دیکھے گی لیکن مخالفین کے اس اعتراض میں خاصا وزن ہے کہ سٹیٹس کو کے علم بردار تو خود عمران خان کے دائیں بائیں بھی موجود ہیں۔ یہ حضرات … الاماشاء اللہ … اتنے ہی مخلص ہوتے ہیں جتنے جاوید ہاشمی تھے۔ اگرچہ ان میں سے کم ہی اتنے لا ابالی اور جذباتی ہوں گے جتنے جاوید ہاشمی ہیں۔ سرتاپا سٹوڈنٹ لیڈر… اشتعال کی جھیل میں ہر وقت کشتی چلانے والے نہیں بلکہ براہ راست تیرنے والے ۔ اب تو انہیں یہ بھی نظر آنے لگا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ عمران خان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہیں۔ اس نوع کے اسلوب بیان کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ صاحب بیان کو ماہر نفسیات کی فوری اور اشد ضرورت ہے! کوئی پوچھے کہ عمران خان کون سی توہین کا مرتکب ہوا ہے کہ اس کی بوٹیاں نوچ لی جائیں ! کبھی نہ پوری ہونے والی آرزوئیں بھی کیا کیا دن سپنے (Hallucination) دکھاتی ہیں ! فاعتبروا یا اولی الابصار!! لے دے کر زنبیل میں ایک ہی سرمایہ ہے کہ جیل میں رہے اور یہ کہ میں تو جیل میں رہا جب کہ میاں صاحب جدہ چلے گئے۔ جیل میں جانا کارنامہ ہوتا تو یہ ’’ کارنامہ ‘‘ قائداعظم نہ سرانجام دے سکے ! گاندھی جی سرانجام دیتے۔ یہ قومی فوج کے خلاف کنفیوژن بھرے بیانات دیں گے اور عجیب و غریب تقریریں کریں گے تو جیل ہی میں جائیں گے‘ ہار تو کوئی نہیں پہنائے گا۔ رہا میاں صاحب کا جدہ جانا تو حاضر دماغی اور Pragmatismکا یہی تقاضا تھا۔ جیل بھٹی ضرور ہے لیکن ہر کوئی یہاں سے کندن بن کر نہیں نکلتا۔ مثال خود ہاشمی صاحب ہیں !!
عمران خان جن نوجوانوں کو بیدار کررہا ہے انہی کو اپنے یمین ویسار پر کھڑا کرے۔ عادل شاہ سوری کی غلطی نہ دہرائے اور ہیموبقالوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ آج ہی جناب نذیر ناجی نے بھٹو صاحب کے کھمبوں کا ذکر کیا ہے جنہیں عوام نے بھٹو صاحب کے نام پر ووٹ دیے تھے ! اگر روشنی نظر آرہی ہے تو عمران خان کے کھمبوں کو بھی ضرور ووٹ ملیں گے۔ لیکن جو اپنی اپنی جماعتوں سے بے وفائی کرکے آرہے ہیں، کہیں وہ سب جاوید ہاشمی نہ ثابت ہوں !!
بوٹیاں اور کھمبے
نہیں! ہرگز نہیں ! حاجی خان میواتی کو جلال الدین اکبر سے کوئی محبت نہیں تھی۔ نہ ہی اسامہ حمزہ کو عمران خان یا تحریک انصاف سے محبت ہے۔ حب علی اور بغضِ معاویہ والا محاورہ جس نے بھی اردو زبان کو دیا ہے، ابلاغ کے علم پر احسان کیا ہے۔
غداری کی ہیموبقال نے عادل شاہ سوری سے‘ جس نے اسے کمانڈر ان چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی مقرر کیا تھا۔ ہمایوں کی موت کی خبر ہیمونہ ہضم کرسکا۔ ’’اب میں بادشاہ بنوں گا‘‘ اس نے اعلان کیا۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی اس لیے کہ یہ ہندو احیاء ہوتا۔ جس برق رفتاری سے وہ بنگال سے چل کر بہار، مشرقی یوپی اور مدہیہ پردیش کو تاراج کرتا آگرہ پہنچا ہے تو بعد کے مورخوں نے اسے اس مہم سے تشبیہہ دی جو نپولین نے اٹلی میں سرانجام دی۔ کیا سکندر ازبک اور کیا تردی خان جیسے کمانڈر‘ سب بے بس ہوگئے۔ وہ تو بیرم خان ڈٹ گیا کہ نہیں ہم میدان ہیمو کے لیے چھوڑ کر کابل نہیں بھاگیں گے۔ پانی پت کے میدان میں دوسری بار رونق لگی۔ تیرہ سالہ اکبر کو بوڑھے بیرم خان نے میدان جنگ سے آٹھ میل دور رکھا اور ہدایت دی کہ افتاد پڑی تو جان بچانے کے لیے سیدھا کابل جانا ہے۔
کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ افغان اپنے آپ کو ہیموکی طرح ’’ مقامی ‘‘سمجھ رہے تھے اور مغلوں کو ’’غیر ملکی‘‘ (وہ جو افغان مہاجرین کی ’’ واپسی‘‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس نکتے پرغور کرلیں) ہیمو کا پورا نام چندر وکرا ماتیہ تھا اور پانی پت کی دوسری جنگ میں جب وہ اکبر کی فوج سے لڑرہا تھا تو اس کے میمنہ کی قیادت شادی خان کاکڑ کررہا تھا! ایک تیر ہیمو کی آنکھ کے پار اترا اور مغل جیت گئے۔ لیکن بیرم خان کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا‘ اس لیے کہ اس جنگ میں حاجی خان میواتی کا باپ ہیمو کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
چھ سال گزر گئے۔ اکبر جوان ہوگیا۔ بوڑھے بیرم خان سے اسے جھلاہٹ ہونے لگی۔ ’’ بابا… اب تم محل میں رہو، امور سلطنت چھوڑ دو… یا حج پر چلے جائو …’’ بوڑھے جنگ جونے حج کو ترجیح دی۔ گجرات پہنچا تو حاجی خان میواتی کو معلوم ہوا۔ اس نے باپ کا بدلہ لینے کے لیے بیرم خان کو کعبہ کے بجائے اس دنیا میں پہنچا دیا جو نظر نہیں آتی !!
حاجی میواتی کو کیا دلچسپی تھی مغلوں میں یا ان کی سلطنت کے استحکام میں ! ہوسکتا ہے اکبر نے اس قتل کو غنیمت سمجھا ہو لیکن عمران خان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اسامہ حمزہ کی بغاوت سے دلشاد نہیں ہونا چاہیے ! ہاں اگر کوئی سرخ بلب اس کے دماغ کی دیوار پر نصب ہے تو اسے ضرور روشن کرلے!
مسلم لیگ نون کے سینیٹر (سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی) ایم حمزہ نے مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا اصولی فیصلہ کیا ہے! پالیسیوں سے اختلاف… اور اصولی فیصلہ !! ہا ہا ہا ! وہ جو بابے ظفر اقبال نے ایک شعر میں کہا ہے کہ مجھے کبڑا نہ سمجھو… میں تو دنیا کو دیکھ کر اس قدر ہنس رہا ہوں کہ ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں ! تو’’ اصولی فیصلہ ‘‘ اور پالیسیوں سے ’’ اختلاف ‘‘… دو ایسی اخباری اصطلاحات ہیں کہ جس نے بھی ایجاد کیں ریا کاری کے باغ میں گویا پھول کھلا دیے اور مخملیں سبزہ دور دور تک بچھا دیا ! کیا ایم حمزہ کو اور ان کے فرزند گرامی کو ان پالیسیوں کا علم دو دن پیشتر ہوا؟ معمر سیاستدان نے بیٹے کو نون لیگ کا ٹکٹ دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بات نہ بنی۔ چودھری سرور انگلستانی ثم لاہوری نے کہ گورنر ہائوس میں زینت تخت ہیں، گوجرہ کے خالد جاوید وڑائچ کو ٹکٹ دلوا دیا اور یوں نون لیگ کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ وجود میں آیا ! یہ اختلاف کی وہی قسم ہے جو حنیف عباسی کو ’’ اپنی ‘‘ جماعت ، جماعت اسلامی سے اس وقت پیدا ہوا جب جماعت نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ بائی کاٹ حنیف عباسی کو راس نہیں آسکتا تھا اور یہ موقع محل یہ بتانے کا نہیں کہ مسلم لیگ نون بھی عباسی صاحب کے لیے ع
چراغ راہ ہے! منزل نہیں ہے
نہیں معلوم عمران خان اور اس کی جماعت مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ کرنے والے عناصر کے ’’اصولی‘‘ فیصلے کو کس نظر سے دیکھے گی لیکن مخالفین کے اس اعتراض میں خاصا وزن ہے کہ سٹیٹس کو کے علم بردار تو خود عمران خان کے دائیں بائیں بھی موجود ہیں۔ یہ حضرات … الاماشاء اللہ … اتنے ہی مخلص ہوتے ہیں جتنے جاوید ہاشمی تھے۔ اگرچہ ان میں سے کم ہی اتنے لا ابالی اور جذباتی ہوں گے جتنے جاوید ہاشمی ہیں۔ سرتاپا سٹوڈنٹ لیڈر… اشتعال کی جھیل میں ہر وقت کشتی چلانے والے نہیں بلکہ براہ راست تیرنے والے ۔ اب تو انہیں یہ بھی نظر آنے لگا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ عمران خان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہیں۔ اس نوع کے اسلوب بیان کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ صاحب بیان کو ماہر نفسیات کی فوری اور اشد ضرورت ہے! کوئی پوچھے کہ عمران خان کون سی توہین کا مرتکب ہوا ہے کہ اس کی بوٹیاں نوچ لی جائیں ! کبھی نہ پوری ہونے والی آرزوئیں بھی کیا کیا دن سپنے (Hallucination) دکھاتی ہیں ! فاعتبروا یا اولی الابصار!! لے دے کر زنبیل میں ایک ہی سرمایہ ہے کہ جیل میں رہے اور یہ کہ میں تو جیل میں رہا جب کہ میاں صاحب جدہ چلے گئے۔ جیل میں جانا کارنامہ ہوتا تو یہ ’’ کارنامہ ‘‘ قائداعظم نہ سرانجام دے سکے ! گاندھی جی سرانجام دیتے۔ یہ قومی فوج کے خلاف کنفیوژن بھرے بیانات دیں گے اور عجیب و غریب تقریریں کریں گے تو جیل ہی میں جائیں گے‘ ہار تو کوئی نہیں پہنائے گا۔ رہا میاں صاحب کا جدہ جانا تو حاضر دماغی اور Pragmatismکا یہی تقاضا تھا۔ جیل بھٹی ضرور ہے لیکن ہر کوئی یہاں سے کندن بن کر نہیں نکلتا۔ مثال خود ہاشمی صاحب ہیں !!
عمران خان جن نوجوانوں کو بیدار کررہا ہے انہی کو اپنے یمین ویسار پر کھڑا کرے۔ عادل شاہ سوری کی غلطی نہ دہرائے اور ہیموبقالوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ آج ہی جناب نذیر ناجی نے بھٹو صاحب کے کھمبوں کا ذکر کیا ہے جنہیں عوام نے بھٹو صاحب کے نام پر ووٹ دیے تھے ! اگر روشنی نظر آرہی ہے تو عمران خان کے کھمبوں کو بھی ضرور ووٹ ملیں گے۔ لیکن جو اپنی اپنی جماعتوں سے بے وفائی کرکے آرہے ہیں، کہیں وہ سب جاوید ہاشمی نہ ثابت ہوں !!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“