حضرت محمد کو خوشبو۔ بہت ہسند تھی – آپ کے پاس کپڑوں کے جوڑے۔ زیادہ نہیں تھے۔ شاید۔ دو یا تین ہونگے۔ ان میں۔ بھی پیوند لگے ہوتے تھے مگر اپ۔ ہر روز۔ ان میں سے کسی کو دھوتے اور پہن لیتے تھے – مگر یہ جوڑے صاف۔ شفاف۔ اور بے داغ ہوتے
آپ نہا کر۔ دھولا ہوا جوڑا پہن کر اور اپنی پسندیدہ۔ خوشبو لگا کر نکلتے
آپ ہی کے محلےمیں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی جو سارا۔ دن محلے کی گلیوں سے کوڑا کرکٹ اور گند آیک ٹو کری میں اکٹھا کرتی رہتی۔ اور اپنی چھت پہ بیٹھ کر آپ کے آنے کا انتظار کرتی رہتی
آپ جب گلی سے گزرتے عین اس کی چھت کے نیچے سے گزرنے لگتے تو وہ بوڑھی مائی گندگی کی ٹو کری۔ آپ کے اوپر پھینک دیتی – آپ سر اوپر آُتھا تے مسکرا کر اس بوڑھی مائی کو دیکھتے۔ اور واپس گھر کی طرف۔ دوبارہ نہانے اور کپڑے بدلنے کے لیے۔ چلے جاتے (اگر یہ روایت درست ہیے تو)
ایک دن آپ گلی سے گزرے اس بوڑھی مائی کی چھٹ کے نیچے پہنچ۔ گئے تو کوئی گندگی کی ٹو کری آپ۔ پہ نہ گری۔ اپ نے اس بوڑھی مائی کی چھت کی طرف دیکھا۔ تو اس مائی کو۔ نہ دیکھ کر اپ کو حیرانگی ہو ئی — لوگوں نے بتا حضور وہ عورت بیمار۔ ہے – آپ اُسی وقت اس بوڑھی مائی کے گھر گے اوراُسکی تیمارداری کی
دنیا بھر میں لوگ اپنے۔ پیاروں۔ کی برسیاُ ں اور
ولادت کا دن اپنے اپنے طریقے کے مطابق۔ مناتے ہیں۔ کچھ لوگ اُن کے نام کا کیک۔ کاٹتے ہیں۔ کچھ کھانے پکا کر بھوکے لوگوں۔ کا کھلاتے ہیں
کل بارہ ربیع و الاؤل تھا پوری دنیا میں۔ حضور کی ولادت کا دن جوش و خروش۔ سے منایا گیا۔ مگر پاکستان۔ کے شہر چکوال کے گاؤُں دولیمال کے کچھ لوگ۔ اس بوڑھی مائی سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں لہذا ۔ چکوال کے کچھ لوگوں نے اس بوڑھی ماہی سے اپنی محبت۔ کی وجہ سے اس بوڑھی ماہی کا جنم دن منایا – وہ بوڑھی مائی اب بہت زیادہ بوڑھی ہو گئی ہے اب اس کے پاتھوں۔ میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ۔ وہ کسی پہ گندگی پھینک سکے۔ لہذا چکوال کے کچھ لوگوں نے اس بوڑھی ماہی کی گندگی کی ٹوکریاں اُٹھائیں۔ اور ایک۔ فرقے کی عبادت گاہ پہ جاکے پھینک۔ دیں – ٹوکریاں۔ میں اتنا بدبو دار گند تھا۔ کہ ایک آدمی اس میں دب کر ہی مر گیا
ویسے تو پاکستان کے دوسرے شہروں۔ میں۔ بھی اس بوڑھی مائی سے محبت کرنے والے ہیں۔ – ہزارہ۔ میں۔ اس بوڑھی مائی سے کچھ محبت کرنے والوں۔ نے ان گندگی کی ٹوکریوں کو ایک فرقے کر سروں پہ پھینک دیا تھا وہ تو یہودی اور ہُندوں نے سازش کے تحت ان ٹوکریوں۔ میں ببم رکھ دئیے تھے۔ جس سے اس فرقے کی لوگوں کے کپڑے پی خراب نہیں ہوئے تھے وہ خود بھی ہلاک ہو گئے تھے –
اس بوڑھی مائی سے محبت کرنے والوں نے لاہور میں۔ بھی ایک عبادت گاہ میں۔ اس وقت لوگوں پہ گندگی کی ٹوکریاں۔ پھینک دی تھیں۔ جب وہ اپنی عبادت کرنے میں مصروف تھے۔ اس دفعہ بھی یہودیوں اور ہُندوں نے سازش۔ کے تحت ان ٹوکریوں میں ببم رکھ دئیے تھے جس سے عبادت کرنے والوں کے سر اور دھڑ الگ الگ ہو کر عبادت کرتے رہے —
اس بوڑھی مائی سے محبت کرنے والے پشاور میں بچو ں پہ بھی یہ گندگی سے بھری ٹو کریا ں پھنک چکے ہیں۔ یہ بچارے تو صرف۔ گندگی کی
ٹوکریاں ہی پھینکتے ہیں۔ نہ جانے یہودی اور ہُندوں ان میں ببم کیسے رکھ دیتے ہیں اور۔ بچے ہلاک ہلاک ہو جاتے
– اگر کوئی اس بوڑھی ماہی سے محبت کرتے اس کی گندگی کی ٹو کریاں کسی کی عبادت۔ گاہ پہ۔ پھینکتا ہے اور اس کی
بد بو سے کوئی مرتا ہے تو مرے میں اورآپ کون ہوتے ہیں ان کی مذمت کرنے والے
ریاست کے جن لوگوں پہ اس کی مذمت کرنا بنتی ہے وہ اپنے سروں پہ پاناما شور کمپنیوں۔ کی گندگی کی ٹوکریاں اُٹھاے ایک دوسرے کے اوپر۔ پھینکنے میں مصروف ہیں
——————————-
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154822093528390
“