بزرجمہر اور بختک نامراد
مجھ پہ خدا کی مار ہے۔ ہفتے کی چھٹی کی صبح ہے۔ مگر میں 16° C کی خوشگوار گرمی میں گھر سے باہر نکلنے کی بجائے پاکستان میں دھنسا ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف ہوں۔
بہت اچھا ہوا کہ اس انٹرویو کے خلاف احتجاج ہوا۔ بحث مباحثہ ہوا۔ کہ اس کا مقصد کیا تھا۔ کہا گیا کہ زیرِ حراست دہشت گرد کا انٹرویو نشر کرنے کا مقصد طالبان کی صفوں میں شکست خوردگی کو تقویت دینا ہے۔
اشتہار میں سلیم صافی کو ’’آپ، جناب‘‘ کرتے دیکھ کر مجھ جیسے بزدل سہم گئے تھے تو یہ تقاضاءِبشری تھا۔ دودھ کے جلے ہیں۔ یقین نہیں تھا کہ یہ چھاچھ ہو گی۔
بہت دل تھام کے دیکھا۔ پروگرام کا اشتہار دیکھ کر دل ڈر رہا تھا کہ وہی دو تین سال پہلے کی طرح محسود ٹولے کے نوجوان بندوقیں تھامے، ترانے گاتے اور سرسبز پہاڑوں میں خوش باش چہلیں کرتے دیکھنے کو ملیں گے۔ جیسے مسلمان چی گویرے ہوں جو طاغوت کے خلاف مصروفِ جہاد تھے۔
ہر کسی کی طرح میرا بھی اپنی رائے کا حق ہے۔ میں نے متجسس ہو کر سنا۔ کسی اندر کے بندے سے یہ باتیں سننا کہ یہ لوگ کام کیسے کرتے تھے۔ وہ تو کچھ خاص پلے نہیں پڑا۔
ماسوائے صرف ایک سوال کے کہ خودکش بچے کیسے تیار ہوتے تھے۔ جس کا جواب اس نے دیا کہ یہ کام مذہبی اتھارٹی والوں سے لیا جاتا تھا۔ وہ ان کو تیار کرتے تھے۔ یہ وہ واحد (اگرچہ بنیادی) کام تھا جو را نہیں کرتی تھی ۔ اس پہ اگلی بات نہیں ہوئی۔ باقی ۔ ۔ ۔
اس گفتگو کا اصل مقصد (edgee) طالبان اور را کا تعلق اجاگر کرنا تھا۔
چلیں ٹھیک ہے اب ماضی کی حقیقتیں دہرائے چلے جانے سے کیا فائدہ کہ را کے ہتھے چڑھنے سے پہلے ان کے گھر لسی کہاں سے جاتی تھی۔ (یہ محاوراتی لسی بہت پاک ’چاٹیوں‘ میں بلوئی جاتی تھی)
آپ کہتے ہیں کہ صبح کے بھولےکو شام کو گھر لوٹ آنے دیں۔ حساب کتاب کی بات (ابھی) نہ کریں۔
بہت ڈرتے ڈرتے امید کی جرات کرتے ہیں کہ آپ خود بھی گھر لوٹ آئے ہوں گے۔ اور بالآخر اپنا ’’گھر‘‘ بھی پہچان لیں گے۔
بہت اچھا ہوا کہ اس انٹرویو کے خلاف احتجاج ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔