بوٹ پالشیوں کو سیلوٹ
عمران خان کے دورہ جی ایچ کیو پر بہت کچھ دیکھ چکے ہونگے۔ دوست دشمن ہر ایک نے اپنے انداز میں ایک ہی بات کی کہ عمران خان کا استقبال غیر معمولی تھا۔ بے نظیر اور نواز شریف کو کبھی بھی اس طرح کا انداز نہیں ملا۔ اب یہ باریکیاں تو اس "فن کے ماہرین" ہی جانتے ہیں یا آپ نے چینل پر انکا آرا سن لی ہونگی، کہ ٹوپی پہن کر سیلوٹ کرنا پڑتا ہے وغیرہ۔
مگر میں جو بات آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہمارے سویلین وزراء اعظم جرنیلوں سے "بغیر ٹوپی بغیر سیلوٹ" والی مٹھی مٹھی کروا کر واپس آتے تھے تو ہم جیسوں کو جمہوریت پر لیکچر ضرور دیتے تھے۔ کہ ووٹ کو عزت دو۔ ہمیں سیلوٹ نہیں کیا گیا۔ جبکہ باقی تین سو چونسٹھ دن ہم اپنے ان سویلین وزراء اعظم کی خدمت میں رونا رویا کرتے تھے کہ حضور آپ بھی تو جمہوریت کو تھوڑی عزت دیں۔ آپ بھی پارلیمان کی عزت بحال کریں۔ آپ بھی تو اپنے کردار کے اندر زرا سی شفافیت لائیں، تاکہ ہم بھی آپ کی عزت کر سکیں اور اداروں سے بھی آپ کی عزت ہو سکے۔
مگر ہمیشہ سول فوجی کشمکش میں ہمیں یہ بتایا جاتا کہ فوج اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے، اور درپردہ مطلب یہ ہوتا کہ ہمیں اپنی من مانی نہیں کرنے دی جاتی۔ اب یہ من مانی ہم سب جانتے ہیں کہ کسی عوامی بہبود کے منصوبے پر نہیں ہوتی تھی کہ جس کو جی ایچ کیو والے روک دیتے تھے۔ یہ ان صوابدیدی، و دیگر اختیارات کو اپنے باپ کی وراثت کی طرح استعمال کرنے والے کام ہوتے تھے، جن پر تقریباً ہر محکمے کا تحفظات ہوتے تھے مگر فوج کے علاوہ باقی محکموں کا مکو ٹھپنے کا تیس سالہ تجربہ "بریف کیس" حکومت کو بخوبی رہا تھا۔ محترمہ کا کیس زرا مختلف تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انکے شوہر نامدار نے پورے ملک سے ٹین پرسنٹ کا خطاب بہت محنت کے بعد حاصل کیا۔
ہم جیسے بوٹ پالشیوں کو ہمیشہ ایک طعنہ ضرور دیا جاتا ہے کہ آپ اپنی فوج پر اس طرح "بھو بھو" نہیں کرتے جیسے ایک جمہوری ملک کے آزادی اظہار والے صحافی کو کرنا چاہیے۔ اور ہم ہمیشہ ایک ہی جواب دیتے کہ پہلے سیاسی لوگوں کو ٹھیک ہونے دو، یہ فوج خود بخود اپنے مقام پر چلی جائیگی۔ اور اگر پھر بھی نہ گئی تو ہم اپنے سیاسی لیڈران کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ تو جمہوریت کے نام پر پورے ملک کی نس نس میں کرپشن کی سوئیاں لگا کر خون چوسیں اور ہمیں اپنی حفاظت کے لیے اپنی ہی فوج سے بھڑا دیں۔
عمران خان کا حالیہ دورہ پنڈی ہم بوٹ پالشیوں کے ویژن کی پہلی جھلک ہے جس کو آج بھی اندھیرے کے بچاری ماننے سے انکار کر دیں گے۔ اس دورے میں ہر علامت، ہر انداز، ہر خفیہ و جلی حرکت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ ہماری فوج کی پوری قیادت اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام، ایک ایسے لیڈر کو پورے قد سے سیلوٹ کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے، جو اس ملک اور اسکے عوام سے مخلص ہو۔ جی ایچ کیو میں جو کچھ ہوا، جس حب الوطنی کے جذبے کی فضا میں وزیر اعظم نے ملکی افواج کے سربراہان سے آٹھ گھنٹے طویل بریفنگ لی، اس کا ایک ایک لمحہ ظاہر کر رہا ہے کہ ہماری افواج بھی اس ملک پر چھائے کرپشن کے سایوں سے اتنے ہی تنگ ہیں جتنے ہم عوام۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ جب عوام نے سیاسی کرپٹوں پر ہاتھ ڈالنا ہے تو چیخیں دور تک سنائی دینا ہیں۔ مگر جیسے جیسے ان سیاسی کرپٹوں کا پتہ صاف ہوتا جائیگا، ویسے ویسے فوجی بیرکوں کی آڑ میں چھپے کرپٹ عناصر کو بھی خبر ہوجائیگی کہ "انگور کے باغات اجاڑنے" کے دن گئے اور اب ایک ایسا بادشاہ تخت پر ہے، جو اپنی رعایا کے باغ سے ایک گچھہ انگور کا حساب بھی رکھتا ہے۔ اور ہوسکتا ہے ہم جیسوں کے لکھنے سے پہلے ہی جی ایچ کیو والے اپنی منجی تھے ڈانگ پھیرنا شروع کردیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“