کم ہی ایسا ہوا ہوگا کہ منہ اندھیرے رو کر دعا مانگی۔ پھول ساتھ روئے۔ پھر طلوع ہونیوالے سورج کی شعائوں نے پھولوں کے رخساروں سے شبنم کے قطرے صاف کئے، ہرطرف روشنی پھیل گئی اور دعا قبول ہوگئی!… یہی تو میرے ساتھ ہوا!
پانچ فروری کی ٹھٹھرتی صبح تھی، میں منہ اندھیرے اٹھا، آج یوم یک جہتی کشمیر تھا۔ نیم سرد پانی سے وضو کرتے ہوئے میں مسلسل اُس جنت نظیر خطے کے بارے میں سوچ رہا تھا جس پر بھوتوں چڑیلوں چمگادڑوں اور اُلوئوں کا قبضہ ہے‘ جسکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر فردوس بر روئی زمین است۔ ہمیں است وہمیں است وہمیں است۔یہ خطہ کب آزاد ہو گا؟ رخساروں پر آنسو گرتے رہے اور ڈھلک ڈھلک کر سفید بالوں میں جذب ہوتے رہے۔
دَھم کی آواز آئی اور پورچ میں اخباروں کا بنڈل گرا۔ میں باہر نکلا۔ دھوپ کا ہر اول دستہ سردی کو پسپائی پر مجبور کررہا تھا۔ میں نے اخبارات کھولے۔ غنچۂ دل وا ہوا، یوں لگا کچھ دیر پہلے میں نے جو آنسو بہائے تھے، قبولیت کا شرف حاصل کرگئے! وزارتوں نے کشمیر کے حوالے سے اخبارات میں پورے پورے صفحوں کے ایڈیشن نکلوائے تھے۔ ان رنگین صفحات پر چھ تصویریں تھیں۔ صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان ، صدر آزاد جموں و کشمیر، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر۔ یہ تصویریں تو چھپنی ہی تھیں۔ ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہوں کی تصویریں، پروٹوکول کے حوالے سے، آداب مملکت کے حوالے سے ان مواقع پر شائع ہوتی ہی ہیں، لیکن مرے دل کی کلی تو بقیہ دو تصویریں دیکھ کر کھلی اور مجھ نابکار کو پہلی بار محسوس ہوا کہ ہم الحمد للہ کشمیر کیلئے سنجیدہ ہیں اوراب زنجیروں میں جکڑی اس جنت کی آزادی کے دن اتنے قریب ہیں کہ اپنے بختِ نارسا پر یقین نہیں آرہا۔
جناب وزیراعظم نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اور آزادیٔ کشمیر کے مستقبل پر طویل بحث و تمحیص اور سوچ بچار کے بعد ہی جناب میاں منظور احمد وٹو کو وفاقی وزیر برائے امور کشمیر مقرر کیا ہوگا۔ میاں صاحب امور کشمیر کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی صفت جسکا انکے دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں اُنکی نظریاتی سیاست ہے۔ استقامت کے اس قدر پکے کہ آج تک میاں صاحب نے پارٹی نہیں بدلی۔ کچھ کوتاہ اندیش یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی میں حال ہی میں شمولیت اختیار کی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔ وہ تو ہمیشہ سے پیپلز پارٹی میں تھے۔ چند دن پہلے ایک ساتھی کالم نگار نے ایک وزیر کے بارے میں کمال کا فقرہ لکھا کہ فلاں صاحب کو سیاحت کے طویل تجربے کی بنا پر وزیر سیاحت بنایاگیا ہے۔ اس کالم نگار ساتھی کی اجازت سے ہم بھی اسی وزن پر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ میاں صاحب کو امورِ کشمیر میں طویل تجربے کی بنا پر اور کشمیر کی آزادی کیلئے طویل جدوجہد کرنے کی وجہ سے امورِ کشمیر کا وزیر بنایا گیا ہے اور پانچ جنوری کے اخبارات کے اشتہارات میں یہی حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے۔
لیکن کشمیر کے بارے میں ہماری سنجیدگی کی یہ واحد تابناک مثال نہیں۔ اُسی دن سارے اخبارات میں رنگین ایڈیشنوں پر چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے طور پر جناب مولانا فضل الرحمن کی تصویر بھی شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں صاحب کے وزیر امورِ کشمیر اور مولانا صاحب کے کشمیر پارلیمانی کمیٹی کے صدر بننے سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے گھی کے چراغ جلائے ہیں اور ہندوئوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ مولانا بطلِ حریت ہیں اور حق گوئی ہمیشہ ان کی عادت ثانیہ رہی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوارِ حکومت میں اور پھر جنرل مشرف کے پورے زمانے میں مولانا صاحب حزبِ اختلاف کی سیاست کرتے رہے اور حکومتوں پر کوڑے کی طرح برستے رہے۔ مولانا صاحب کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر سچی بات شمشیرِ برہنہ کی طرح کرتے ہیں اور یہ کبھی نہیں ہوا کہ انکے کسی بیان سے کئی معانی اور کئی مفاہیم نکالے گئے ہوں۔ اسی حق گوئی کے پیش نظر وہ کشمیر کمیٹی کے صدر بنے ہیں اور رات دن کشمیر ہی کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکی شبانہ روز مساعی جمیلہ کی بنا پر آزادیٔ کشمیر کی منزل بالکل صاف سامنے نظر آنے لگ پڑی ہے۔ آپ پروٹوکول یا مراعات وغیرہ پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ اگر انہیں وفاقی وزیر کی مراعات حاصل ہیں تو یہ یقینا ان کی مرضی کیخلاف اُن پر مسلط کی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے رائے ونڈ کے اجتماع میں جانا ہوتا تھا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ انہیں جبراً ہیلی کاپٹر پر بٹھا کر لے جاتے تھے۔ دیوبند تشریف لے گئے تو تب بھی حکومت نے انہیں سخت مجبور کرکے سرکاری ہیلی کاپٹر پر بھیجا۔ انہوں نے ہر گز یہ نہیں کہا تھا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے جرم میں شامل نہیں!‘‘ خدا ستیاناس کرے انگریزوں کا، کیسے کیسے محاورے بناتے ہیں۔ مثلاً LETHAL COMBINATION
، یعنی مہلک مرکب، ہلاک کرنیوالا مجموعہ، میاں صاحب اور
مولانا صاحب ایسا
LETHAL COMBINATION
ہیں کہ اس سے غاصبانِ کشمیر کی ہلاکت قریب آگئی ہے۔ اب بھی اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کیلئے سنجیدہ نہیں ہے تو انہیں اپنا دماغی علاج کرانا چاہئے!! کاتبِ تقدیر نے ان دونوں رہنمائوں کی قسمت میں لکھ دیا ہے کہ سری نگر پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم یہ اپنے مقدس ہاتھوں سے لہرائیں گے!!
یہ تو ہماری قومی خوش قسمتی کا صرف ایک ثبوت ہے۔ کیا آپ کو کوئی شک ہے کہ بطور قوم ہم قسمت کے دھنی ہیں؟ ہمیں تو ہر میدان میں اتنی کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں کہ…ع ہر روز روزِ عید ہے ہر شب شبِ برات۔ صاحبزادہ محمد شاہد خان آفریدی نے کرکٹ کے بال کو دانتوں سے کاٹنے کی کوشش کی اور دشمنانِ اسلام ہماری جان کو آگئے حالانکہ صاحبزادہ صاحب نے یہ کہہ کر صفائی بھی پیش کی ہے کہ’’میں تو بال کو سونگھ رہا تھا‘‘! یہ کالم نگار اُس حقیر اقلیت سے تعلق رکھتا ہے جو کرکٹ کو اس ملک کیلئے اسلام کے عروج کا حوالہ سمجھتی ہے! اندازہ لگایئے! بھارت ہر میدان میں ہم سے آگے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جمہوریت، جمہوری ادارے، قانون کی حکمرانی، آئی ٹی کے لحاظ سے پوری دنیا پر غلبہ، پی ایچ ڈی کرنیوالوں کی تعداد، غرض ہر شعبے میں بھارت ہمیں شکست دے رہا ہے لیکن ہمیں سب کچھ منظور ہے۔ ہمارے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی، شرم آنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مگر جیسے ہی کرکٹ کے میدان میں بھارت سے مقابلہ ہوتا ہے تو ہماری جان پر بن جاتی ہے۔ پوری قوم کارخانے کھیت دفتر سکول کالج ہسپتال بند کرکے ٹیلی ویژن کے سامنے سربسجود ہو جاتی ہے نہ جانے کیوں مسدسِ حالی کے اشعار یاد آرہے ہیں…؎
شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے
تباہ اُن کی حالت، بُری ان کی گت ہے
کسی کو کبوتر اُڑانے کی لَت ہے
کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے
کتاب اور معلم سے پھرتے ہیں بھاگے
مگر ناچ گانے میں ہیں سب سے آگے
رہے شاہد آفریدی، تو ہم انکے اسی دن سے قائل ہوگئے تھے جب وہ بال دھونے والے شیمپو اور پیپسی کولا کے اشتہار میں ’’ماڈل‘‘ بن کر آئے۔ یہی تو وہ سنجیدگی اور شائستگی ہے جو کرکٹ کی وجہ سے پوری قوم پر طاری ہے! غلط ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سو سال میں مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کچھ نہیں کیا۔ کیا ہم نے پوری دنیا میں بُوم بُوم آفریدی کا نعرہ لگا کر گزشتہ پانچ سو سال کا قرض بمعہ سُود نہیںادا کردیا؟؟
http://columns.izharulhaq.net/2010_02_01_archive.html
“