وہ شدید اضطراب کا شکار ہوتا بائیک پر گھر سے ہانیہ کے ایگزامینیشن سنٹر تک دو چکر لگا چکا تھا... لیکن راستے میں کہیں بھی اسے ہانیہ دکھائ نہ دی تھی... بس اسٹاپ پر بھی رک کر تلاشتی نگاہوں سے ادھر ادھر اسے ڈھونڈا... لیکن خدا جانے وہ کہاں چلی گئ تھی... پسینے سے شرابور ہوتے ہوۓ اس نے ایک جگہ بائیک روکی... پیشانی مسلتے ہوۓ سوچنے کی کوشش کی کہ آخر وہ کہاں جا سکتی ہے... شاید اپنی اس دوست کے گھر چلی گئ ہو جس کے ساتھ وہ گھر آ رہی تھی... لیکن اگر ایسا تھا بھی تو کم از کم ایک کال کر کے اسے بتانا تو چاہیے تھا نا... اوپر سے ہانیہ کی اس دوست کے گھر کا بھی کچھ اتا پتا نہ تھا حسن کو... ورنہ اس کے گھر سے ہی معلوم کر لیتا....
حسن نے ایک بار پھر موبائیل نکال کر اس کا نمبر ملایا... لیکن ابھی بھی صورتحال وہی تھی... نمبر سے جواب ہی موصول نہ ہو رہا تھا... دوسری جانب شاید سگنلز ہی موجود نہ تھے...
وہ پریشانی میں مبتلا ہوتا بائیک پر بیٹھنے ہی والا تھا جب اچانک نگاہ روڈ کے ایک طرف کچی زمین پر پڑی... وہ ایک دم ٹھٹھک سا گیا... پہلے کچھ حیران ہوا... پھر بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر نیچے گری وہ انگوٹھی اٹھا لی... بلاشبہ وہ ہانیہ کی ہی گولڈ کی رنگ تھی جو حسن نے اسے ان کی انگیجمنٹ پر پہنائ تھی... لیکن اس انگوٹھی کا سائز ہانیہ کی انگلی سے تھوڑا سا بڑا تھا جس کی وجہ سے انگوٹھی اسے کھلی تھی... لیکن حسن کو اس کی انگلی میں وہ رِنگ دیکھ کر خوشگوار سا احساس ہوتا تھا تبھی اس کی فرمائش پر ہی ہانیہ ہر وقت وہ انگوٹھی پہنے رکھتی... لیکن آج وہی انگوٹھی یہاں نیچے گری تھی... یقیناً ہانیہ اس بات سے بے خبر ہو گی...لیکن اگر انگوٹھی یہاں تھی تو پھر ہانیہ کہاں ہو گی... حسن نے بے تابی سے ادھر ادھر نظریں گھماتے ہوۓ اسے کھوجنا چاہا... لیکن وہاں دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا... بس کبھی کبھار سڑک پر کوئ سواری آتی اور تیزی سے گزر جاتی...
اس نے الجھن ذدہ انداز میں بالوں میں ہاتھ پھیرا... پرسوچ نظریں اس جگہ جمائیں جہاں انگوٹھی ملی تھی... وہاں زمین کچی ہونے کی وجہ سے قدموں کے نشانات واضح ہو رہے تھے... حسن نے جلدی سے سیل کی ٹارچ آن کرتے ہوۓ بغور دیکھا... دو لوگوں کے قدموں کے نشانات تھے... نشانات کی ساخت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ نشان عورتوں کے جوتے کے ہیں... کیونکہ ایک جوتے کے نشان سے معلوم پڑ رہا تھا کہ وہ ہیل کا نشان ہے... ہانیہ اور اس کی دوست... وہ بھی تو دو ہی فرد تھے... تو کیا یہ جوتے کے نشانات ان دونوں کے ہیں...؟؟ اگر ہاں تو پھر وہ دونوں آخر کہاں جا سکتی ہیں... ؟؟
ان نشانات سے حسن نے اندازہ لگانے کی کوشش کی... نشانات سامنے جاتی پگڈنڈی کی طرف مڑ رہے تھے... حسن نے سامنے نظر آتی اس عمارت کو بھی دیکھا... جس کی حالت خاصی خستہ دکھائ دے رہی تھی... لیکن پھر سر جھٹک دیا... کہ اسے یقین تھا کہ ہانیہ اتنی بھی سرپھری نہیں کہ یوں سڑک پر اتر کر کسی بھی عمارت میں گھس جاۓ...
وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھا جب اس کا فون بجنے لگا... اسکرین کو دیکھا تو گھر سے کال آ رہی تھی... پہلے بھی کئ بار وہ لوگ فون کر چکے تھے لیکن حسن انہیں یہ بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا کہ ہانیہ کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا...تبھی کال ہی ریسیو نہیں کر رہا تھا... لیکن اب انہیں بتانا ناگزیر ہو چکا تھا... گہری سانس بھرتے ہوۓ اس نے کال ریسیو کی...
"ہاں اماں...؟؟" دوسری جانب سے ہیلو کہنے پر وہ مخاطب ہوا...لہجے میں مایوسی سی تھی...
"حسن پتر... ہانیہ کا کچھ پتا چلا...؟؟ کہاں ہے وہ...؟؟ مل گئ ہے نا تجھے...؟؟ تو ابھی تک گھر کیوں نہیں آیا اسے لے کر...؟؟" بشریٰ بیگم نے ایک ہی سانس میں کئ سوال پوچھ ڈالے... حسن لب کاٹ کر رہ گیا... سچ بتا کر انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا... اور جھوٹ اب وہ بول نہیں سکتا تھا...چند لمحوں کے لیے وہ بالکل خاموش سا ہو گیا...
"حسن... بولتا کیوں نہیں ہے...؟؟ کچھ پوچھ رہی ہوں میں تجھ سے..." بشریٰ بیگم بھی اس کی خاموشی پر پریشان سی ہو گئیں... شاید مہرالنساء بھی وہیں ان کے قریب ہی تھیں... تبھی ان کی ہلکی ہلکی ہچکیوں کی آواز سنائ دے رہی تھی...
"اماں... ہانیہ نہیں ملی ابھی تک... راستے میں کہیں بھی نظر نہیں آئ وہ... میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے... اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا ہے... دیکھتا ہوں اگر نہ ملی تو پھر پولیس میں رپورٹ درج کروانی پڑے گی... آپ پریشان مت ہوں... چچی جان کو بھی تسلی...." آخری بات ابھی اس کے منہ میں تھی جب اسے لگا جیسے کسی کی چینخ سنائ دی ہو... وہ تڑپ کر مڑا... فون کان سے ہٹا کر سامنے دور کھڑی اس بلند عمارت کو دیکھا... ہوا کا رخ حسن کی جانب ہی تھا... شاید تبھی اسے چینخ کی بازگشت سنائ دے گئ تھی... نہ جانے اس کا وہم تھا یہ... یا سچ میں کوئ چینخا تھا... لیکن اس زنانہ چینخ میں درد کی شدت واضح تھی... وہ اب بغیر کچھ سوچے سمجھے فون بند کرتا ان اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر بھاگ رہا تھا... چند دن پہلے ہانیہ کی بیان کی گئ خواہش اس کے ذہن میں گونج رہی تھی... اگر وہ پاگل لڑکی اسی خواہش کی تکمیل کی غرض سے اس عمارت کی طرف آئ تھی تو یقیناً بہت غلط کر چکی تھی وہ...
پھولے ہوۓ سانس کے ساتھ وہ یہی دعا کر رہا تھا کہ ہانیہ ٹھیک ہو بس... خیریت سے ہو... اسے کسی قسم کی کوئ تکلیف نہ پہنچے...
💝💝💝💝💝💝
ہانیہ کی چینخ سن کر ربیعہ کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئ... لاکھ ڈرپوک ہونے کے باوجود اس وقت اس کے سر پر صرف ہانیہ کی فکر سوار تھی... خود اپنے دل کا خوف بھلاۓ وہ اس گھپ اندھیرے میں ادھر ادھر دیواروں سے ٹکراتی ہانیہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی...
"ہا...ہانیہ..." حلق سے الفاظ نکل ہی نہ رہے تھے لیکن وہ اپنی پوری ہمت مجتمع کرتی چلّا چلّا کر اسے پکار رہی تھی... دوسری جانب سے کوئ جواب نہ آ رہا تھا... اس ایک چینخ کے بعد اب بدستور خاموشی چھائ تھی...
تیزی سے آگے بڑھتے ہوۓ اچانک ربیعہ رکی... اس کے سیل فون کی ٹارچ کی روشنی دائیں جانب بنے کمرے کی سامنے کی دیوار پر پڑ رہی تھی جہاں اسے کسی وجود کا گمان ہوا تھا... خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوۓ اس نے دو قدم آگے بڑھ کر بغور دیکھنے کی کوشش کی... بلاشبہ وہ ہانیہ ہی تھی... جو دیوار سے ٹیک لگاۓ, سر گھٹنوں میں دئیے گٹھڑی سی بنی بیٹھی تھی...
"ہانیہ..." ربیعہ نے ڈرتے ڈرتے ہلکی سی آواز میں پکارا... لیکن ہانیہ نے سر نہیں اٹھایا... جواب بھی نہیں دیا... ربیعہ کو لگا شاید اس نے سنا نہیں...
"ہا...ہانیہ... کیا ہوا...؟؟ تم... تم ٹھیک ہو نا...؟؟" مزید چند قدم آگے بڑھتے ہوۓ اس نے پھر سے پکارا تھا... ٹارچ کو ہانیہ کے وجود پر ہی فوکس کر رکھا تھا... نظریں بھی اسی پر جمی تھیں... جو سر ہی نہ اٹھا رہی تھی...
"ہانیہ کچھ بولو پلیز... کیا ہوا ہے تمہیں...؟؟" وہ روہانسی ہو گئ... اب اس کے اور ہانیہ کے درمیان تین سے چار قدموں کا فاصلہ تھا بس...
"ہانیہ... تم..." وہ کچھ بولنے ہی والی تھی جب ہانیہ نے ایک دم سر گھٹنوں سے اٹھایا... اور ربیعہ کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گۓ... لبوں سے بے ساختہ چینخ برآمد ہوئ تھی... فون بھی ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا گرا تھا... ہانیہ کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں... جیسے بہت سا خون جمع ہو گیا ہو ان میں... آنکھوں کا سیاہ حصہ تو سرے سے ہی غائب تھا... سفیدی بھی نہ تھی... صرف سرخی تھی... گہرا سرخ رنگ... خون کا رنگ... ربیعہ نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ مڑ کر بھاگنا چاہا لیکن تبھی اسے محسوس ہوا جیسے اس کی گردن کسی کی سخت گرفت میں آ چکی ہے... اوندھے پڑے موبائیل کی ہلکی سی روشنی میں اسے ہانیہ نظر آئ تھی اپنے قریب... جس کے ہاتھ ربیعہ کی گردن پر تھے... اس کے چہرے پر وحشت اور جنون تھا جبکہ چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ... اور اس کی گرفت... اس کی گرفت اتنی سخت تھی کہ ربیعہ کو اپنی گردن کی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئ محسوس ہوئیں... یہ گرفت دھان پان سی ہانیہ کی تو ہرگز نہیں ہو سکتی تھی... تو کیا...؟؟ کیا اس کے اندیشے درست ثابت ہوۓ تھے...؟؟ ہانیہ پر واقعی کوئ سایہ ہو گیا تھا...؟؟ اس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہ سکی... سانس اکھڑنے لگا تھا... اسے اپنے سامنے اپنی موت دکھائ دے رہی تھی... حلق سے ایک لفظ تک برآمد نہ ہوا تھا... چہرہ تکلیف کی شدت سے سفید پڑ چکا تھا... وہ جو خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اب اس کے ہاتھ بھی ڈھیلے پڑنے لگے... ربیعہ اپنے ہوش کھونے ہی والی تھی جب ایک دم ہانیہ کی گرفت ڈھیلی ہوئ... جیسے وہ ایک دم چونکی ہو... باہر سے کسی کی آواز سنائ دے رہی تھی... کوئ مرد مسلسل ہانیہ کو پکار رہا تھا... اور شاید اسی آواز نے ہانیہ کو ربیعہ کی گردن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا... گردن آزاد ہوتے ہی ربیعہ کھانسنے لگی... عمارت میں کسی کے بھاگنے کی آہٹ سنائ دے رہی تھی... ریبعہ کھانستے کھانستے سیدھی ہوئ تو ہانیہ کو خونخوار نظروں سے اپنی جانب دیکھتا پایا... اسے ہانیہ کے ارادے ایک بار پھر خطرناک لگے تھے... ایک لمحے میں فیصلہ کرتی وہ مڑی اور اپنے وجود کی ساری ہمت جمع کرتے باہر کو بھاگی... ہانیہ بھی اس کے پیچھے لپکی تھی...
'"ہیلپ....ہیلپ پلیز... سم بڈی ہیلپ..." ربیعہ زاروقطار روتے ہوۓ چلّا رہی تھی... حسن جو کچھ ہی فاصلے پر ادھر ادھر انہیں تلاش رہا تھا ہیلپ, ہیلپ کی گردان سن کر رک گیا... سامنے سے اسے کوئ وجود بھاگ کر اپنی جانب آتا دکھائ دیا...
ربیعہ جو جان بچانے کو اندھا دھند بھاگ رہی تھی حسن سے زور سے ٹکرائ... ایک پل کو اسے لگا وہ پھر ہانیہ کی گرفت میں آ چکی ہے...تبھی چینخ اٹھی تھی...
"ہے... ریلیکس... ریلیکس ہو جائیں پلیز... کیا ہوا ہے...؟؟ آپ یقیناً ربیعہ ہیں...؟؟ ہانیہ کی فرینڈ...؟؟ ہانیہ کدھر ہے...؟؟ دیکھیں ڈریں نہیں... میں حسن ہوں... ہانیہ کا فیانس..." حسن نے ہانیہ کے سیل فون میں ایک دو بار ربیعہ کی تصاویر بھی دیکھی تھیں.. تبھی فوراً اسے پہچان گیا تھا... اس کی ٹوٹی بکھری حالت دیکھ کر وہ ہانیہ کی تشویش میں مبتلا ہو گیا...
دوسری جانب اپنے سامنے ایک مضبوط توانا مرد کو کھڑا دیکھ کر ربیعہ کی جان میں جان آئ... آنسو مسلسل بہہ رہے تھے اس کے... آج کا دن اس کی زندگی کا بدترین دن تھا...
"وہ... وہ... ہانیہ کو پپ...پتا نہیں کیا ہو گیا ہے... اس نے مم...میری جان لینے کی....کوشش کی..." ہچکیوں سے روتے ہوۓ ربیعہ نے اٹک اٹک کر حسن کو بتایا...
حسن نے پریشانی سے ریبعہ کو دیکھا... پھر سامنے نظر دوڑائ جہاں سے ربیعہ بھاگتی ہوئ آئ تھی...
"آپ چلیں میرے ساتھ... کہاں ہے ہانیہ...بتائیں مجھے..." وہ اسے ہمت دلاتا آگے بڑھنے لگا...
"مم...مجھے نہیں جانا... آپ بھی مت جائیں پلیز..." اس نے حسن کو روکنے کی کوشش کی تھی کہ ہانیہ کی حالت وہ دیکھ چکی تھی...حسن نہیں...
"دیکھیں مس ربیعہ... آپ یہاں اکیلی رہیں گی تو زیادہ خوف محسوس ہو گا آپ کو... بہتر ہے میرے ساتھ رہیں... ہانیہ کو تنہا تو نہیں چھوڑ سکتے نا ہم... گھر میں سب بہت پریشان ہیں... مجھے اس کو اپنے ساتھ گھر لے کر جانا ہے... " حسن نے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوۓ اسے سمجھانا چاہا...
ربیعہ کچھ حد تک بات سمجھ چکی تھی تبھی ہمت کرتی حسن کو لیے اس کمرے کی جانب بڑھ گئ جہاں ہانیہ تھی... دونوں بغیر آہٹ پیدا کیے اس کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے... دلوں میں خوف لیے...کہ نہ جانے کیا ہونے والا تھا...
ربیعہ کے اشارہ کرنے پر حسن نے ہانیہ کو آواز دئیے بغیر کمرے میں ٹارچ کی روشنی ادھر ادھر گھمائ... سامنے زمین پر کوئ وجود لیٹا ہوا نظر آ رہا تھا... وہ چوکنّا سا آگے بڑھا... اس سے چند قدموں کے فاصلے پر رک کر غور سے اس کی جانب دیکھا... روشنی چہرے پر پڑنے کے باوجود وہ کسمسائ نہ تھی... شاید بے ہوش ہو گئ تھی...
"ہانیہ..." حسن نے محتاط انداز میں اسے پکارا... جبکہ دروازے میں کھڑی ربیعہ منہ پر ہاتھ رکھے ہچکیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی...
حسن کو جب اندازہ ہوا کہ وہ واقعی ہوش میں نہیں ہے تو اس نے ربیعہ کو آگے آنے کا اشارہ کیا... اپنا سیل اسے تھمایا... اور آگے بڑھ کر ہانیہ کے گال تھپتھپاۓ...
"ہانیہ..." اس کی نبض چیک کی... سانسیں چل رہی تھیں... چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد حسن نے آگے بڑھ کر اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا اور ربیعہ کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا کمرے سے نکل گیا... ربیعہ نے جلدی سے ایک جانب گرا ہانیہ کا بیگ, اس کا موبائیل اور اپنا موبائیل اٹھایا اور مڑ کر پیچھے دیکھے بغیر تیزی سے حسن کے ساتھ باہر نکل گئ...
💝💝💝💝💝
وہ ہانیہ کو بازوؤں میں اٹھاۓ تیز قدموں سے عمارت سے نکلا تھا... انہیں جلد سے جلد اس خوفناک عمارت سے دور ہونا تھا... ربیعہ بھی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اس کے قدم سے قدم ملانے کی... ابھی تک وہ بے تحاشا ڈری سہمی ہوئ تھی... یقین ہی نہ ہو رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ حقیقت تھی...
پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوۓ وہ روڈ تک پہنچ گۓ... ہانیہ ابھی تک ہوش میں نہ آئ تھی... وہاں روڈ پر ایک جانب حسن نے ہانیہ کو لٹایا... ربیعہ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا... وہ ہانیہ کی اس حالت کو دیکھ کر مسلسل رو رہی تھی... حسن نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائ... ایک تو یہ جگہ ہی بالکل ویران سنسان تھی کہ مدد کے لیے بھی کوئ نہ تھا... حسن کے پاس پانی بھی نہیں تھا کہ جس کے چھینٹے ہانیہ کے چہرے پر مار کر اسے ہوش میں لایا جا سکتا...
"ایکسکیوزمی... پانی ہو گا آپ کے پاس...؟؟" اس نے جھجھکتے ہوۓ ربیعہ کو مخاطب کیا... ربیعہ نے کچھ سوچتے ہوۓ بیگ کی زپ کھولی... اندر سے واٹر بوتل نکالی...لیکن بدقسمتی سے وہ بھی خالی تھی... تھک کر ربیعہ نے نفی میں سر ہلا دیا... حسن ہانیہ کے چہرے کو دیکھے گیا... صورتحال ایسی تھی کہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کیا کرنا چاہیے... اسے اس حالت میں گھر لے جا نہیں سکتا تھا کہ گھر والے سو سوال کرتے... اور اگر اصل بات کا پتا چل جاتا انہیں تو ہانیہ کی کلاس لگ جاتی... چچا جان سے تو کچھ بعید بھی نہ تھا کہ اسے دو چار تھپڑ جڑ دیتے آج کی اس حرکت پر... اور ہانیہ کو کوئ ڈانٹے یہ حسن کو برداشت نہ تھا... اس لیے بہتر تھا کہ یہ بات گھر والوں کے علم میں نہ ہی لائ جاتی...
ربیعہ نے دھیرے دھیرے حسن کو ساری بات بتا دی کہ کس طرح اس نے ہانیہ کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے ربیعہ کی ایک نہ سنی اور اپنی ضدی طبیعت سے مجبور اسے بھی ساتھ لے کر ہی گئ...
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ روڈ پر ایک رکشہ آتا دکھائ دیا... حسن نے ہاتھ دے کر رکشہ روکا... اور ان سے پانی طلب کیا... رکشہ پر موجود سواریوں میں سے کچھ لوگ انہیں مشکوک نگاہوں سے تک رہے تھے تو کچھ ہمدردی سے, کچھ کی نگاہوں میں دلچسپی تھی تو کچھ میں ترحم... خیر ایک شخص کے پاس سے پانی کی بوتل مل ہی گئ... حسن نے جلدی سے ہانیہ کے منہ پر پانی کے چھپاکے مارے... اس کے گال تھپتھپاۓ... وہ چند ہی لمحوں بعد کسمساتی ہوئ اٹھ بیٹھی... ربیعہ نے سہمی ہوئ سی نگاہوں سے اسے دیکھا لیکن اس کی حالت ٹھیک دیکھ کر قدرے مطمئین ہوئ...
"حسن... تم... یہاں...؟؟" ہانیہ نے اٹھتے ہوۓ حسن کو مخاطب کیا... وہ شاید حیران ہو رہی تھی حسن کو اپنے سامنے دیکھ کر...
اٹھ کر بیٹھتے ہی اس نے ایک دم دونوں ہاتھوں میں سر تھاما... یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا دماغ انجانی زنجیروں میں جکڑ ا گیا ہو...
"ہاں میں... طبیعت ٹھیک ہے اب تمہاری...؟؟" حسن نے تشویش سے پوچھا...
"میں ٹھیک ہوں... تم کب آۓ... اور ہم یہاں روڈ پر کیا کر رہے ہیں...؟؟ ربیعہ تم... تم رو کیوں رہی ہو...؟؟" وہ ربیعہ کے نم اور ستے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر تڑپ اٹھی تھی.... ربیعہ کی آنکھوں میں پھر سے نمی جمع ہونے لگی اس سین کو سوچ کر... اس وقت ہانیہ کا روپ یاد کر کے...
"نہیں کچھ نہیں...ایسے ہی بس... آنکھ میں کچھ چلا گیا تھا..." یقیناً ہانیہ سب کچھ بھول چکی تھی... ربیعہ نے بھی اسے بتانا مناسب نہیں سمجھا... کہ وہ خوامخواہ پریشان ہو جاتی... حسن نے بھی اسے خاموش رہنے کا ہی اشارہ کیا تھا...
"ہانیہ...گھر چلیں... سب گھر والے ویٹ کر رہے ہوں گے..." حسن نے نرم لہجے میں اسے مخاطب کیا... جبکہ ربیعہ نے دوپٹہ سر پر جماتے ہوۓ گردن پر پڑے ہانیہ کے ہاتھوں کے نشانات چھپانے چاہے تھے...
ہانیہ نقاہت محسوس کر رہی تھی جیسے پورا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو... لیکن پھر بھی سر ہلاتی حسن کا سہارا لیے گھر جانے کو اٹھ گئ... ربیعہ نے اس کی چیزیں اسے تھمائیں... اور حسن نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوۓ بیٹھنے کا اشارہ کیا... انہوں نے پہلے ربیعہ کو اس کے گھر ڈراپ کیا...پھر حسن ہانیہ کو لیے اپنے گھر کی جانب چل دیا... جبکہ ہانیہ جو پہلے ہر وقت چہکتی رہتی تھی آج نہ جانے کہوں گم صم اور خاموش سی تھی....