بارات کا دن آن پہنچا تھا... پورے گھر میں افراتفری کا عالم تھا... سب مہمان خوشیوں سے چمکتے چہرے لیے ادھر سے ادھر اپنی اپنی تیاریوں میں مگن تھے... لیکن ایک جانب شفیق صاحب اور مہرالنساء تھیں جو کام کرتے ہوۓ کونوں میں چھپ چھپ کر آنسو بھی بہا رہے تھے... بیٹی کو بیاہ کر باعزت طور پر اس کے فرض سے سبکدوش ہونے کی خوشی اپنی جگہ تھی لیکن اتنے نازوں سے پالی گئ بیٹی کو یوں ایک ہی دن میں کسی اور کے حوالے کر دینا کوئ آسان کام تو نہیں ہوتا ماں باپ کے لیے...
دوسری جانب وہ تھی... ہانیہ... جو اپنے کمرے میں ہی قید سی ہو کر رہ گئ تھی آج... رو رو کر اس نے آنکھیں سجا رکھی تھیں... اس گھر میں آج اس کا آخری دن ہے... آج ماں باپ سے جدائ اس کے مقدر میں لکھ دی جاۓ گی یہی سوچ اسے رلا رہی تھی... صبح ناشتے کا نام پر اس نے فقط آدھا کپ چاۓ پی تھی... اس کے بعد کچھ بھی کھانے کو دل ہی نہ چاہا... دوپہر کا کھانا بھی یونہی گول کر دیا اس نے... حسن کی سنگت کا احساس دل میں خوشیوں کے سمندر میں موجزن پیدا کر رہا تھا تو دوسری جانب اپنے ماں باپ سے بچھڑنے کا احساس دل کو تڑپا رہا تھا...
بظاہر کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا... لیکن پھر بھی نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کا دل سہم سہم جا رہا تھا... سہ پہر تین بجے کے قریب اسے پارلر کے لیے روانہ کر دیا گیا... آج بھی کومل ہی اس کے ساتھ تھی...
بیوٹیشن بار بار اسے رونے سے منع کر رہی تھی کہ رونے کے باعث میک اپ کرنا مشکل ثابت ہو رہا تھا... تبھی وہ ضبط کیے بیٹھی تھی... اس کا بی پی لو ہو رہا تھا شاید... بار بار دل گھبرانے لگتا... سر میں بھی شدید درد شروع ہو چکا تھا... رات نو بجے بارات کی آمد ہونی تھی... اور پونے نو تک ہانیہ کو ہال میں برائیڈل روم میں پہنچا دیا گیا تھا...
نو بجے سے ساڑھے نو کا وقت ہوا... پھر دس بج گۓ.... لیکن بارات ابھی تک نہ آئ تھی... لڑکی والوں کی طرف سے جو مہمان بارات کے استقبال کے لیے موجود تھے ان میں بھی چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں کہ نہ جانے کیوں نہیں آئ بارات ابھی تک... شفیق صاحب بار بار رضا صاحب کو کال ملا رہے تھے لیکن کوئ فون اٹھا ہی نہ رہا تھا... مہرالنساء نے بھی کئ بار بشریٰ بیگم کو فون ملایا لیکن رزلٹ وہی رہا... سب بے تحاشا پریشان ہو چکے تھے... ہانیہ کے دل میں بھی رہ رہ کر ہول اٹھ رہے تھے... دھیان اس جن زادے کی دھمکی کی جانب ہی تھا... نہ جانے کیا ہونے والا تھا...
تقریباً ساڑھے دس بجے رضا صاحب کی کال آئ... دلہے کی گاڑی کا زبردست ایکسیڈنٹ ہوا تھا... جس میں گاڑی کا ڈرائیور تو سر پر چوٹ لگنے سے موقع پر ہی دم توڑ گیا... البتہ حسن کی قسمت اچھی تھی کہ اسے چند خراشیں آئ تھیں بس... لیکن سب میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئ... رضا صاحب نے تسلی دی تھی کہ پولیس آئ ہے... اور چند فارمیلیٹیز پوری کرنے کے بعد آدھے گھنٹے تک بارات ہال پہنچ جاۓ گی... ہانیہ کو یہ بات نہیں بتائ گئ تھی... البتہ مہرالنساء کو شفیق صاحب نے مختصراً سب بتا دیا... بہر حال عین بارات کے دن یہ حادثہ پیش آنا کچھ اچھی بات ہرگز نہ تھی... کئ مہمانوں نے تو دبے لفظوں میں ہانیہ کو منحوس قرار دے دیا... بشریٰ بیگم نے بھی ایک دو بار رضا صاحب سے یہ بات کہی کہ وہ ہانیہ اور حسن کی شادی کے لیے دل سے رضامند نہیں ہیں... لیکن رضا صاحب نے بے وقت کے اس راگ پر انہیں سختی سے جھڑک کر رکھ دیا... ایک تو وہ پہلے ہی حد درجہ پریشان تھے... اوپر سے بشریٰ بیگم کی یہ فضول باتیں... دماغ گھما کر رکھ دیا تھا اس صورتحال نے... ہاسپٹل سے نکلتے ہی انہوں نے حسن اور ہانیہ کے نام صدقہ دیا...
گیارہ بجے کے قریب بارات ہال پہنچی تو سب کی جان میں جان آئ... مہمانوں کی دبی دبی سرگوشیوں سے ہانیہ قدرے چونک سے گئ تھی... اسے یہ اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے... لیکن کیا... یہ وہ کسی سے پوچھ نہیں سکتی تھی فی الوقت...
نکاح کا فریضہ تو پہلے ہی سر انجام دیا جا چکا تھا... ہال سے رخصتی کے بعد ہانیہ کو گھر لایا گیا... اور اس کے بعد بے شمار رسموں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا... شرم اور جھجھک کے باعث ہانیہ ابھی تک حسن کے چہرے کو نہیں دیکھ پائ تھی....ورنہ اس کی پیشانی پر موجود بینڈیج اور دائیں رخسار پر موجود ہلکے سے زخم کے نشان پر چونکتی ضرور... اب وہ کچھ حد تک مطمئین ہو چکی تھی کہ وہ جن زادہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا... اور اس کی سب باتیں دھمکی کے سوا کچھ نہیں... دل سے تمام ڈر اور خوف دور ہوۓ تو اسے حسن کے ساتھ بننے والے اس خوبصورت رشتے کا احساس ہوا... دل میں جذبات بیدار ہونے لگے...
رات کے دو بجے جب اسے حسن کے کمرے میں پہنچایا گیا تب تھکن کے باعث اس کی کمر میں شدید درد تھا لیکن حسن کا انتظار کرتے ہوۓ دلی جذبات کا عکس اس کی مسکراہٹ سے جھلک رہا تھا... چہرے پر دلکش رنگ لیے وہ خوبصورتی سے سجے اس کمرے کو دیکھ رہی تھی جس میں گلاب اور موتیے کے پھولوں کی مہک چہار سو پھیلی تھی...
وہ آج پور پور سجی تھی تو صرف حسن کے لیے... اور اب اس کا دل بےتابی سے دھڑک رہا تھا... وہ حسن کے منہ سے اپنے لیے تعریفی جملے سننا چاہتی تھی...
کچھ ہی دیر بعد دروازے پر کھٹکا سا ہوا تو وہ فوراً گھونگھٹ گرا کر نظریں جھکاۓ بیٹھ گئ... دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آۓ گا... حسن کمرے میں داخل ہوا... دروازہ لاک کرتا وہ دھیمے قدموں سے بیڈ کی طرف چلا آیا...
"السلام علیکم..." نرم سی آواز میں سلام کیا تھا... ہانیہ نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا...زبان تو گویا تالو سے چپک کر رہ گئ تھی... اس کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگنے لگیں...
حسن کچھ پریشان سا تھا لیکن اس وقت اس نے اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ جانتا تھا ہانیہ فوراً بات دل پر لے لیتی ہے... ہانیہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوۓ حسن نے اس کے جھکے سر کو دیکھا... آج ہانیہ کے لیے نہ جانے کون کونسی باتیں سنی تھیں اس نے... بہت سے لوگوں سے یہ جملہ سننے کو ملا کہ یہ لڑکی اس گھر کے لیے اور حسن کے لیے منحوس ثابت ہوئ ہے... اس کے آنے کے بعد گھر میں کبھی سکون نہیں رہ سکے گا... وہ تو غیر تھے ان کی باتیں تو برداشت کی جا سکتی تھیں... لیکن حسن کی اپنی ماں, بشریٰ بیگم نے اس کے سامنے اس شادی کو لے کر آج جو واویلا کیا حسن وہ کبھی بھول نہیں سکتا تھا... ایک تو اس ایکسیڈنٹ کی ٹیبشن... اوپر سے اماں کی دل دکھاتی باتیں... ہانیہ کے خلاف ان کے دل میں جو زہر تھا اس میں کئ گنا اضافہ ہو چکا تھا... رضا صاحب سے پڑنے والی ڈانٹ کا غصہ بھی انہوں نے حسن پر اپنی بھڑاس نکال کر ختم کیا... یہ جانے بغیر کے ان کی باتوں نے ان کے بیٹے کے دل کو کتنا بوجھل کر کے رکھ دیا ہے...
بہت دیر تک جب وہ اپنی ہی سوچوں میں گم رہا... لیکن پھر گہری سانس بھرتا ہانیہ کی جانب متوجہ ہوا جو اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی...
"گھونگھٹ اٹھانے کی اجازت ہے...؟؟" حن نے کچھ توقف کرنے کے بعد اسے مخاطب کیا... ہانیہ نے شرارت بھرے انداز میں لب دانتوں تلے دباتے ہوۓ نفی میں سر ہلا دیا... حسن حیران ہوا.. ہاتھ بڑھا کر گھونگھٹ اٹھانا چاہا لیکن ہانیہ نے فوراً اپنا سر پیچھے کی جانب کر لیا...
"تو مطلب آج دیدار نہیں کرنے دو گی...؟؟" حسن کے انداز پر وہ کچھ چونک سی گئ... اس شرارت کے بدلے وہ بھی حسن سے کسی شرارت کی توقع کر رہی تھی کہ وہ زبردستی گھونگھٹ الٹنے کی کوشش کرے گا... لیکن حسن مزید کوشش ترک کرتے ہوۓ پیچھے ہٹ چکا تھا...
وہ خاموش سی ہو گئ... البتہ دل میں وسوسے سر اٹھانے لگے تھے...
"جاؤ ہانی... چینج کر لو... تھک گئ ہو گی تم بھی..." اس کا چہرہ دیکھے بغیر حسن نے کہا... تو ہانیہ کو حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا... کہاں تو وہ ہر وقت اپنی بے تابیوں کی داستانیں سناتا رہتا تھا.. اور کہاں آج یہ سرد اور خاموش سا رویہ...
چند لمحوں بعد ہی وہ اٹھ گئ... بھاری بھرکم لہنگا سنبھالتے ہوۓ اس نے واشروم کا رخ کیا... حسن بیڈ پر نیم دراز سا ہو گیا...
ہانیہ جب واشروم سے نکلی تو وہ میک اپ بھی صاف کر چکی تھی... سادگی بھرا وجود... سادہ سا لباس... چہرے پر سے خوشی کے رنگ بھی ماند پڑ چکے تھے...
"یہاں آؤ ہانی..." حسن کے پکارنے پر وہ نظریں جھکاۓ اس کی طرف چلی آئ... بیڈ پر بیٹھی تو حسن نے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے کچھ نکالا... وہ گولڈ کی خوبصورت چین تھی... ساتھ منفرد اور باریک ڈیزائن کا خوبصورت سا لاکٹ...
بغیر کچھ کہے حسن نے چین کی ہک کھول کر ہانیہ کی گردن میں چین پہنا دی...
"میں جانتا ہوں میرا رویہ تمہیں الجھا رہا ہو گا... لیکن ہانی... آج جو کچھ ہوا اس کے بعد سے میں خود کو نارمل نہیں کر پا رہا... مجھے معلوم ہے کہ آج کے حوالے سے بہت سے خواب ہوتے ہیں لڑکیوں کے... لیکن... میں کیسے بتاؤں تمہیں... بہت عجیب سا محسوس ہو رہا ہے مجھے... سمجھ نہیں آ رہا کہ کسی کے دکھ کو بھول کر کیسے اپنی خوشیوں بھری زندگی کا آغاز کروں... " وہ بے بس سے لہجے میں کہہ رہا تھا... ہانیہ نے الجھتے ہوۓ پہلی بار نگاہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا... کچھ کہنے کے لیے لب کھولے لیکن حسن کی پیشانی پر موجود بینڈیج اور گال پر موجود زخم نے جیسے اس کی بولتی ہی بند کر دی چند لمحوں کے لیے...
"حسن... یہ... یہ کیا ہوا آپ کو...؟؟" وہ بوکھلا سی گئ تھی حسن کے چہرے پر زخم دیکھ کر... حسن جو یہ سمجھ رہا تھا کہ ہانیہ کو اس ایکسیڈنٹ کی خبر ہو گی وہ اس کے اس ردِعمل پر چونکا... تو گویا ہانیہ کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا... تبھی وہ اتنی مطمئین سی بیٹھی تھی پہلے...
"حسن... میں کچھ پوچھ رہی ہوں...یہ چہرے پر... یہ کیسے زخم ہیں حسن... کب ہوا یہ...؟؟ رات کو تو آپ بالکل ٹھیک تھے...ایسا کوئ زخم نہ تھا..." وہ رونے والی ہو گئ تھی ایک دم...کچھ دیر پہلے دل میں جو نرم گرم جذبات ابھر رہے تھے وہ اپنی بے قدری کو رو رہے تھے...
"کچھ نہیں ہوا ہانی... ٹینشن مت لو یار... ایک معمولی سا ایکسیڈنٹ ہوا ہے بس.. ریلیکس..." حسن اس کی حالت دیکھ کر مزید پریشان ہو گیا... تبھی اسے تسلی دینے کی کوشش کی...
"کک... کب ہوا ایکسیڈنٹ... مجھے کیوں نہیں بتایا کسی نے...حسن آپ تکلیف سے گزرے اور مجھے اس سب سے بے خبر رکھا گیا... کیوں...؟؟" وہ تڑپتی ہوئ اب حسن کی پیشانی کو چھو رہی تھی... جبکہ آنکھون سے آنسو بہہ رہے تھے...
"ہانی... ریلیکس ہو جاؤ... میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں... مزید پریشان مت کرو مجھے... صبر رکھو... سب بتا دوں گا تمہیں..." حسن نے اس کا ہاتھ تھاما...
"پریشان...؟؟ حسن... آپ پریشان ہیں... کک کیوں... آپ تو بڑے سے بڑے معاملات پر بھی پریشان نہیں ہوتے... پھر آج کیوں...؟؟ ایسی کونسی بات ہے جس نے آپ جیسے مضبوط ہمت اور حوصلہ والے شخص کو پریشان کر دیا..." حسن کا رویہ اسے اس بات کا احساس دلا رہا تھا کہ ایکسیڈنٹ اتنا بھی معمولی نہ تھا جتنا وہ کہہ رہا تھا...
"اپنی چوٹ پر پریشان نہیں ہوں میں ہانی... دکھ مجھے ڈرائیور کی موت پر ہو رہا ہے... نہ جانے اس کے گھر میں کیا حالات ہوں گے اس وقت... کیا گزر رہی ہو گی اس کی فیملی پر... " وہ افسردہ لہجے میں کہہ رہا تھا... جبکہ ہانیہ چونکی تھی اس کی بات پر...
"ڈرائیور کی موت...؟؟ یہ... یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ حسن...؟؟" وہ نا سمجھی سے اسے دیکھے گئ....
"ہاں ہانی... میری کار کا جو ڈرائیور تھا وہ اس ایکسیڈنٹ میں مارا گیا... ایکسیڈنٹ اتنا شدید تھا کہ ساری گاڑی بھی ٹوٹ پھوٹ گئ... سب کچھ ٹھیک تھا... ہم بھی اپنی ڈائریکشن میں جا رہے تھے ہال کی جانب... لیکن پتا نہیں کیسے گاڑی کے اسٹیئرنگ پر ڈرائیور کا قابو نہ رہا... پتا ہی نہیں چلا کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا... وہ بریک لگانے کی کوشش کرتا رہا لیکن ناکام رہا... اسٹیرنگ خودبخود حرکت کرتا رہا اور ہمارے گاڑی ایک ٹرک سے جا ٹکرائ... ڈرائیور کے سر پر شدید چوٹ آئ جس کے باعث وہ فوراً دم توڑ گیا... میرا بچنا کسی معجزے سے کم نہیں... میں خود حیران ہوں کہ اتنے برے ایکسیڈنٹ میں میں کیسے بچ گیا... وہ بھی کسی شدید چوٹ کے بغیر... لیکن موت کے اتنے قریب دیکھ کر کچھ وقت کے لیے ہی سہی میرا دماغ چکرا کر رہ گیا تھا... وہ منظر ابھی تک نگاہون سے ہٹ ہی نہیں رہا... " حسن نے دونوں ہاتھوں میں سر تھاما... جبکہ ہانیہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھے جا رہی تھی... کانوں میں دور کہیں کوئ آواز ابھر رہی تھی...
"تمہیں حاصل کرنے کے لیے اگر مجھے کسی کی جان بھی لینی پڑی تو میں یہ بھی کر جاؤں گا... پھر چاہے مرنے والا تمہارا شوہر ہی کیوں نا ہو..." سنگین لہجے میں دی گئ یہ دھمکی فقط دھمکی نہ تھی... مطلب اس نے جو کہا وہ کرنے کی کوشش بھی کی... لیکن یہ ہانیہ کی خوش قسمتی تھی یا حسن کا مقدر... کہ حسن بچ گیا لیکن ڈرائیور جان سے چلا گیا...
"حسن... مم... میں نے کہا تھا نا.. کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا... آپ نے میری بات نہیں سنی... دیکھا... میں نے آپ کو بتایا بھی تھا کہ وہ بہت خطرناک ہے..." وہ رو دی تھی اس بار... حسن نے الجھ کر اسے دیکھا...
"وہ... وہ کون...؟؟" شاید کل رات کی باتیں اس کے ذہن سے نکل چکی تھیں تبھی وہ پوچھ رہا تھا...
"وہی... جن زادہ... جس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ وہ آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرے گا..." ہانیہ نے جیسے اسے یاد دلانا چاہا... حسن چند پل اسے دیکھے گیا.. پھر ایک دم اس کے چہرے پر بیزاریت چھانے لگی...
"پلیز ہانی... اب تم یہ مت کہنا کہ اسی نے یہ سب کرنے کی کوشش کی... کوئ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا... یہ ایکسیڈنٹ ہونا اور آج کے دن ہی ہونا میری قسمت میں لکھا تھا... اور قسمت کا لکھا ہو کر ہی رہتا ہے..." حسن تلخی سے گویا ہوا...
"حسن آپ اس بات کو اتنا ہلکا کیوں لے رہے ہیں... کیوں جھٹلانے کی کوشش کر رہے ہیں... آپ کسی عامل سے رجوع کر کے دیکھیے... اور کچھ نہیں تو وہ آپ کو آپ کی حفاظت کے لیے کوئ تعویذ تو دے گا نا... " ہانیہ جانے کیوں بے چین سی ہو کر رہ گئ تھی... اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ سب کیا دھرا اس جن ذادے کا ہی ہے...
"ہانیہ پلیز اسٹاپ دس نان سینس... تم اچھی طرح جانتی ہو مجھے ان تعویذ گنڈوں پر بالکل یقین نہیں... ہماری ذندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ صرف اللّہ کی مرضی سے ہوتا ہے... کوئ تیسرا بندہ نہ تو ہمیں تکلیف پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی کسی تکلیف کا مداوا کر سکتا ہے... " حسن نے اس دیوانی لڑکی کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں ہراس لیے اسے تک رہی تھی...
"لیکن حسن..." وہ پھر کچھ کہنے جا رہی تھی... جب حسن بول اٹھا...
"ہانی... میں پہلے ہی بہت ڈپریس ہوں... فار گاڈ سیک... چھوڑ دو ان سب باتوں کو... سو جاؤ اب... صبح پھر ایک تھکا دینے والا دن ہمارا منتظر ہے..." ہاتھ اٹھا کر قطعی لہجے میں کہتا حسن لیٹ چکا تھا... ہانیہ چند لمحے بے بس نگاہوں سے اسے دیکھنے کے بعد خود بھی ایک طرف لیٹ گئ... دل کا خوف کئ گنا بڑھ گیا تھا... جس حسین ترین شادی شدہ زندگی کے خواب اس نے دیکھے تھے کیا یہ تھی شروعات اس ذندگی کی...؟؟ دل ٹوٹا تو آنکھوں سے بھی ساون کی جھڑی لگ گئ... بہت دیر تک وہ چپ چاپ آنسو بہاتی رہی... جبکہ حسن اس کی ہلکی ہلکی سسکیوں سے بے چین ہوتا کروٹیں بدلتا رہا...
💝💝💝💝💝
ولیمہ کا دن پرسکون انداز میں گزر گیا... سب کل کے واقعے کو بھول کر مطمئین سے ادھر ادھر جا رہے تھے... ایک وہی تھی جو اداس سی تھی... حسن بھی رات اس کے ساتھ اپنے بی ہیوئیر پر شرمندہ سا تھا..
ولیمہ کی تقریب کے بعد ان دونوں کو ہانیہ کے گھر لایا گیا... کچھ وقت باہر چچا چچی اور مہمانوں کے ساتھ گزارنے کے بعد جب وہ ہانیہ کے روم میں آیا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی دوپٹے کو پنوں سے آزاد کروا رہی تھی...
حسن جب کمرے میں آیا تو ہانیہ نے دوپٹے کی آخری پن نکالی... ایک خاموش نگاہ حسن پر ڈالی اور دوپٹا بیڈ پر رکھ دیا... اب وہ بالوں کا جوڑا کھولنے لگی تھی جب حسن اس کی طرف چلا آیا...جانتا تھا وہ ناراض سی ہے...
"اتنی جلدی تھی چینج کرنے کی کہ میرے آنے کا انتظار تک نہیں کیا... میرے لیے سجی ہو اور مجھے ہی دیکھنے کی اجازت نہیں..." اس کا ہاتھ تھام کر پنز اتارنے سے روکا اور اس کی پشت پر کھڑے ہوتے ہوۓ آئینے میں اس کا عکس دیکھا... ہانیہ نے نگاہیں اٹھا کر آئینے میں اپنے پیچھے موجود حسن کو دیکھا... اس کی نظریں شکوہ کناں تھیں جس سے حسن کی شرمندگی میں مزید اضافہ ہوا...
"آئم سوری..." اس کے قریب ہو ایک بازو اس کی کمر میں حمائل کرتے ہوۓ کان میں سر گوشی کی... ہانیہ لب کاٹتی آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگی... ساتھ ہی نظریں بھی جھکا لیں...
"کین آئ ہیلپ یو...؟؟" دوبارہ پنز کی طرف بڑھتا اس کا ہاتھ تھام کر اس سے سوال پوچھا... ساتھ ہی وہ خود پنز اتارنے لگا... ہانیہ خاموش کھڑی رہی...
"بہت خوبصورت لگ رہی تھی تم آج... روپ تو کل بھی آیا تھا تم پر... لیکن آج تو شہزادیوں کو بھی مات دے دی تم نے..." لہجے میں ڈھیروں جذبات سجاۓ حسن کی نگاہیں اس کی لمبی, خوبصورت صراحی دار گردن پر ٹکی تھیں... جو جوڑے کے باعث مزید نمایاں ہو رہی تھی...
"کیا فائدہ اس تعریف کا... جب کرنی چاہیے تھی تب تو کی نہیں..." وہ جس نے خاموش رہنے کا وعدہ کیا تھا خود سے, وہ شکوہ کر ہی گئ تھی آخر... حسن ہنس دیا اس کی بات پر...
"کوئ بات نہیں سویٹ ہارٹ... تم یہ سمجھ لو آج ہماری فرسٹ نائٹ ہے...اور آج ہی سب تعریفیں وصول کرنے کا حق ہے تمہارا...." شرارت سے آنکھ دبا کر کہا گیا تھا... ہانیہ کا چہرہ سرخ پڑنے لگا... مزید ہمت نہ رہی تھی اس کی طرف دیکھنے کی...
حسن نے اس کا رخ اپنی جانب کیا... محبت بھری نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکائیں...
"سوری یار... کل کے لیے... کل میں ڈپریشن کا شکار تھا... اسی لیے بس... اتنا اچھا اور قیمتی وقت مس کر دیا میں نے اپنی لائف کا... " اس کے دائیں کان کے جھمکے کو انگلی سے چھوتے ہوۓ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا... ہانیہ اس بار بھی خاموش ہی رہی...
" ویسے یہ کمرہ ادھورا سا ہے... مطلب... سجا ہوا نہیں ہے... ہمارا روم تو ابھی بھی ڈیکوریٹڈ ہے...کیا خیال ہے... وہاں چلیں... فرسٹ نائٹ نہ سہی... سیکنڈ نائٹ تو وہاں منا سکتے ہیں ہم.... " وہ ابھی بھی شرارت سے بھرپور لہجے میں کہہ رہا تھا... ہانیہ نے خفگی سے بھرپور نگاہیں لیے اسے گھورا..... چہرے کے زاویے بھی بگاڑے...
حسن پھر سے ہنسنے لگا...
"اچھا اچھا ایسے گھورو تو مت... مذاق کر رہا تھا میں... کل کی رات جیسی بھی گزری اسے بھول جاؤ... لیکن ہم اپنی اس نئ ذندگی اور اس نۓ رشتے کا آغاز ہمارے کمرے سے ہی کریں گے... تاکہ وہاں ان انمول لمحات کی بہت سی یادیں ہوں ہمارے پاس... اور رہی بات تمہاری تعریف میں کنجوسی کی... تو فکر مت کرو... کل کی رات تمہاری تعریفوں کے پل باندھنے کو ہی مختص کر رکھی ہے میں نے... اور اس کے بعد تم کبھی ڈیمانڈ نہیں کرو گی اپنی تعریفیں کروانے کی... " وہ پھر سے شرارت پر آمادہ ہوا... ہانیہ جو اس کی باتوں میں اور خوبصورت لہجے میں کھوئ ہوئ تھی اس کی آخری بات پر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی... اور جب بات سمجھ آئ تو ڈھیر ساری شرم نے اسے آن گھیرا...
"بہت برے ہیں آپ حسن..." اس کے سینے پر مکا رسید کرتے ہوۓ کہا گیا تھا... رشتے کی نوعیت بدلتے ہی وہ حسن کو تم سے آپ کہنے لگی تھی... اور حسن کو یہ تبدیلی اچھی لگی تھی...
"اچھا ہوں یا برا... لیکن اب تو صرف تمہارا ہوں... مکمل طور پر تمہارا... اور ہمیشہ تمہارا ہی رہوں گا... بس مجھ پر یقین رکھنا..." حسن نے نرمی سے اسے تھام کر اپنے ساتھ لگایا تھا... ہانیہ نے اس کے سینے پر سر رکھتے ہوۓ طمانیت سے آنکھیں موند لیں... جبکہ دور کہیں کھڑکی کے اس پار دو سرخ نگاہوں نے انہیں اپنے حصار میں لیا تھا... نفرت سے, غصے سے, اذیت سے بھرپور آنکھیں...