وہ دونوں مرر ڈور دھکیلتے ہوۓ اندر داخل ہوۓ... آہٹ کی آواز پر سامنے ٹیبل کے پیچھے بیٹھی کراچی کی مشہور سائیکاٹرسٹ مسز نادیہ اجمل نے سامنے کھلی فائل سے توجہ ہٹائ اور سر اٹھا کر آنے والوں کو دیکھا...
"آئیے آئیے مسٹر حسن..." ڈاکٹر نادیہ اجمل نے ہاتھ میں پکڑے پین پر کیپ لگا کر رکھتے ہوۓ آنے والے مرد کو مخاطب کیا... چونکہ مسز نادیہ اجمل کے بھائ حسن رضا کے دوست تھے تو اسی توسط سے حسن رضا کو آسانی سے اپائنمنٹ مل گئ تھی ان سے...
حسن نے ایک نظر اپنے پیچھے ڈری سہمی, آنکھوں میں نمی لیے کھڑی اپنی بیوی پر ڈالی...
"آؤ ہانی..." نرمی سے اسے مخاطب کر کے اس کا ہاتھ تھامتے ہوۓ گویا اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی تھی...
"حس...حسن... مم...میں پاگل... نہیں ہوں... " ہانیہ سفید پڑتے چہرے کے ساتھ آنکھوں میں پانی لیے بے بسی سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی... اس کی آواز کی کپکپاہٹ سے ہی اس کے اندرونی خلفشار کا پتا چل رہا تھا... یقیناً وہ دروازے کے باہر لگا بورڈ پڑھ چکی تھی... اس کی ٹوٹی بکھری حالت پر ایک بار پھر حسن کا دل خون ہونے لگا... دل چاہا تھا ضبط کی ساری حدیں توڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دے... لیکن اسے خود پر جبر کرنا تھا... خود پر قابو رکھنا تھا... کہ اگر وہ بھی ہمت چھوڑ بیٹھتا تو ہانیہ کو کون سنبھالتا...
"ہانی... میری جان... کس نے کہا ہے کہ تم پاگل ہو...؟؟ دیکھو... میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو... یہاں پاگل لوگوں کو نہیں لایا جاتا... بلکہ انہیں تو پاگل خانے بھیجا جاتا ہے... یہاں ذہنی الجھنوں کو سلجھایا جاتا ہے... اور صرف چند دن کی بات ہے... تمہارا علاج ہو گا تو تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی... پہلے کی طرح ہنستی کھیلتی... زندہ دل ہانیہ بن جاؤ گی..." حسن نے کسی بچے کی طرح ٹریٹ کرتے ہوۓ اسے بہلانے کی کوشش کی...
"لل...لیکن حسن... مم...مجھے نہیں کروانا علاج... پپ... پلیز مجھے واپس لے چلیں..." وہ منت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی... حسن نے پریشانی کے عالم میں اس کی طرف دیکھا...
"اچھا ٹھیک ہے... آج تو اتنا سفر طے کر کے آۓ ہیں... آج تم ڈاکٹر سے مل لو... پھر نہیں آئیں گے... پلیز... میری خاطر..." حسن نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر التجا کی... ساتھ ہی اس کے کندھے کے گرد بازو پھیلاتا اسے لیے آگے بڑھ گیا...
سلام دعا کے بعد اس نے ڈاکٹر نادیہ اجمل سے ہانیہ کا تعارف کروایا... ہانیہ کی ساری صورتحال وہ پہلے ہی ان سے ڈسکس کر چکا تھا... اب ہانیہ کے چند سیشن ہونے تھے ان کے ساتھ... اور انہوں نے کافی امید دلائ تھی حسن کو ہانیہ کی حالت میں بہتری کی...
کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر نادیہ اجمل کے اشارہ کرنے پر حسن کرسی سے اٹھا اور باہر جانے کو قدم بڑھاۓ جب اس کا ہاتھ ایک بار پھر برابر بیٹھی ہانیہ کی گرفت میں آیا تھا... وہ خود بھی اٹھ کھڑی ہوئ تھی...
"کہاں جا رہے ہیں حسن... مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے..." وہ نہ جانے کیوں اکیلی دنیا کا سامنا کرنے سے ڈرنے لگی تھی... تبھی چھوٹے بچے کی طرح حسن کے بازو سے چمٹ گئ... جیسے اس کے جاتے ہی وہ دنیا کی اس بھیڑ میں کہیں گم ہو جاۓ گی...
"ہانی...تم یہیں بیٹھو... میں بس ابھی آتا ہوں... فکر مت کرو... یہ ڈاکٹر ہیں نہ تمہارے ساتھ... "حسن نے نرمی سے اپنا بازو چھڑایا اور ہانیہ کی اس حالت کی وجہ سے اپنی آنکھوں میں آئ نمی چھپاتا تیزی سے باہر نکل گیا...
💝💝💝💝💝
"بیٹھیے مسز حسن..." ڈاکٹر نادیہ اجمل نے نرمی اور حلاوت بھرے لہجے میں اسے مخاطب کیا... وہ جو ابھی تک لب کاٹتی خالی خالی نظروں سے دروازے کی جانب دیکھے جا رہی تھی, قدرے چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوئ...جیسے کسی خواب سے جاگی ہو...
"بیٹھیے..." اسے مسلسل اپنی جانب تکتے پا کر ڈاکٹر نادیہ اجمل نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا... وہ قدرے جھجھکتی ہوئ کرسی پر بیٹھ گئ... سر اٹھا ہوا تھا...لیکن نظریں میز پر جھکی ہوئ تھیں.... جیسے کسی نادیدہ شے کو تلاش کر رہی ہوں... یقیناً وہ ایک خوبصورت لڑکی رہی ہو گی...لیکن اب بجھی بجھی آنکھیں اور ان کے گرد پڑتے سیاہ ہلکے اس کے چہرے کی ساری رونق چھین چکے تھے... ہونٹ کسی بھی قسم کی لپ اسٹک سے بے نیاز تھے... سفید پڑتے ہونٹ...جیسے اس کے جسم سے خون کی آخری بوند تک نچوڑ لی گئ ہو... جب وہ بار بار لب کاٹتی تو گال میں پڑتا ڈمپل اپنی جھلک دکھلا جاتا... اس کے مضمحل سے وجود پر ویرانی سی چھائ تھی... اور سب سے بڑھ کر اس کی آنکھوں کا خوف و ہراس ڈاکٹر نادیہ اجمل کو دکھی کر گیا تھا...
اس کے بیٹھتے ہی ڈاکٹر نادیہ اجمل نے میز کے ایک دراز کو کھولا اور اس میں سے ایک ٹیپ ریکارڈر برآمد کیا... اس ٹیپ ریکارڈر کو آن کر کے میز پر رکھتے ہوۓ وہ ہانیہ کی طرف متوجہ ہوئیں...
"کیا نام ہے آپ کا...؟؟" دوستانہ انداز میں ہانیہ سے پوچھا...
ہانیہ جو سر جھکاۓ بیٹھی تھی ان کے مخاطب ہونے پر ان کی جانب دیکھنے لگی... ایک ہاتھ کی انگلی سی اضطرابی کیفیت میں وہ میز کی سطح کو کھرچ رہی تھی...
"گھبرائیں مت... مجھے اپنی دوست ہی سمجھیں... بس چند سوالات پوچھنے ہیں آپ سے... اس کے بعد آپ جا سکتی ہیں..." انتہائ نرم لہجے میں کہتے ہوۓ ڈاکٹر نادیہ اجمل نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا... وہ اسے ریلیکس کرنا چاہ رہی تھیں تا کہ ہانیہ کھل کر بول سکے...اور اس کی اس حالت کی کوئ وجہ پتا چل سکے...
ہانیہ نے ایک نظر اپنے صاف شفاف ہاتھ پر دھرے ان کے ہاتھ کی طرف دیکھا... پھر لب کاٹتے ہوۓ اپنا ہاتھ کھینچ کر گود میں رکھ لیا...
"میرا نام... ہانیہ ہے... مسز... ہانیہ حسن..."اٹک اٹک کر ان کے کچھ دیر قبل پوچھے گۓ سوال کا جواب دیا تھا...
"کہاں سے ہیں آپ...؟؟ میرا مطلب... آپ کی جاۓ پیدائش...؟؟" اگرچہ ڈاکٹر نادیہ اجمل حسن سے ساری تفصیل جان چکی تھیں... لیکن یہ ابتدائ گفتگو ضروری تھی تاکہ آہستہ آہستہ وہ اپنے مطلب کی بات کی طرف آ سکیں...
دوسری جانب چند لمحے خاموشی چھائ رہی....البتہ ہانیہ کے چہرے پر جو بے چینی اور اضطراب تھا اور آنکھوں میں جو خوف پنہاں تھا وہ کافی حد تک زائل ہو چکا تھا... وہ قدرے مطمئین نظر آنے لگی تھی...
"لاہور سے تعلق ہے میرا... میرے پیرنٹس وہاں رہتے ہیں..." سر جھکاۓ دھیمی آواز میں بتایا گیا تھا...
"تو کراچی کیسے آئیں آپ...؟؟ آپ کے علاوہ گھر میں کون کون ہے...؟؟" ڈاکٹر نادیہ اجمل بغور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھیں...
"میرے شوہر حسن کا تبادلہ یہاں ہوا تھا... تو اسی لیے یہاں آنا پڑا... گھر میں اور کوئ نہیں ہے... بس میں اور حسن ہوتے ہیں..." ہانیہ نے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی مسلی... ساتھ ہی دروازے کی طرف دیکھا... شاید وہ حسن کی منتظر تھی... ڈاکٹر نادیہ اجمل نے اس کی تمام حرکات کو نوٹ کیا...
"آپ کے سسرال والے نہیں رہتے آپ کے ساتھ...؟؟ مجھے مسٹر حسن رضا نے بتایا تھا کہ ان کے والدین حیات ہیں... اور ایک بھائ بھی ہیں... تو وہ اب کہاں ہوتے ہیں...؟؟" ڈاکٹر نادیہ نے دائیں ہاتھ کی مٹھی بند کر کے اپنے لبوں پر رکھی جبکہ کہنی میز پر ٹکا رکھی تھی...
"وہ...وہ سب بھی لاہور ہی رہتے ہیں... حسن میرے تایا جی کے بیٹے ہیں اسی لیے ہمارے گھر بھی ساتھ ساتھ ہی ہیں... " وہ شاید اکتانے لگی تھی اس سوال و جواب کے سلسلے سے... تبھی پہلو بدل کر رہ گئ...
ڈاکٹر نادیہ اجمل نے چند سرسری سے سوالات مزید پوچھے... اس کے بعد اسے جانے کی اجازت دے دی... ہانیہ تیزی سے اٹھی جیسے صدیوں بعد کسی قید سے رسائ ملی ہو... وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو حسن کو باہر ویٹنگ روم میں بیٹھے پایا... وہ بھی ہانیہ کو باہر آتے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا...
"حسن... گھر چلیں...؟؟" وہ اس کے قریب آتے ہی پوچھنے لگی... حسن نے نرم سی نگاہ اس پر ڈالی... پھر اسے کندھوں سے تھام کر ایک جانب پڑے صوفہ پر بٹھایا... خود اس کے سامنے نیچے بیٹھ گیا... ساتھ ہی اس کی گود میں دھرے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا...
"تم یہیں بیٹھو... میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں... صرف دو منٹ... پھر گھر چلتے ہیں... ٹھیک...؟؟ اور دیکھو...یہیں رہنا... یہاں سے ہلنا نہیں... ٹھیک ہے نا...؟؟" اس کے ہاتھوں کو دباتے ہوۓ وہ اسے ہدایت کر رہا تھا... ہانیہ نے چند لمحے اس کی جانب دیکھنے کے بعد اثبات میں سر ہلا دیا... حسن ایک ہاتھ سے اس کے گال کو تھپتھپاتے ہوۓ اٹھا... ہانیہ کی نگاہیں اس کی پشت پر ٹکی تھیں...
💝💝💝💝💝
"مسٹر حسن... یہ کچھ میڈیسنز لکھ کر دے رہی ہوں میں... یہ اپنی بیوی کو استعمال کروائیے... وہ کسی ڈپرشن کا شکار ہیں شاید... ان دواؤں کے استعمال سے ان کی حالت میں بہتری آۓ گی... اور ہاں...انہیں آپ کی توجہ کی ضرورت ہے... زیادہ سے زیادہ وقت دیں انہیں... کوشش کریں کہ وہ زیادہ دیر اکیلی نہ رہیں... جیسا کہ آپ نے بتایا کہ ابھی تک آپ کا کوئ بے بی بھی نہیں ہے... اولاد کا بڑا سہارا ہوتا ہے ایک عورت کو... شادی کے بعد ماں بننے کی خواہش ہر عورت کے دل میں ہوتی ہے... اور دیر ہونے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خواہش شدت اختیار کرتی جاتی ہے... ایسے میں عورت نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے... تنہائ کسی کو بھی راس نہیں آتی... شاید آپ کی وائف بھی تنہا رہتے رہتے سپلٹ پرسنیلٹی کا شکار ہو چکی ہیں... جس میں ایک انسان دو شخصیات میں بٹ جاتا ہے... اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئ اور بھی ہے... وہ اکیلے میں خود سے ہی باتیں کرتا ہے... من گھڑت کہانیاں گھڑتا ہے... اور اسے سچ سمجھ لیتا ہے... بعض اوقات اسے خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کر رہا ہے... اسی لیے انہیں تنہائ کا شکار مت ہونے دیجیے... زیادہ سے زیادہ ٹائم سپینڈ کریں ان کے ساتھ... اور نیکسٹ ویک پھر انہیں لے کر آئیے گا میرے پاس... اگلے سیشن کے لیے... تاکہ ان کی ان الجھنوں کو سلجھایا جا سکے... انہیں نارمل لائف کی طرف لے کر آ سکیں ہم..." ڈاکٹر نے ہانیہ کی حالت کے بارے میں تفصیل سے اسے آگاہ کیا... حسن پریشانی کے عالم میں انہیں سنتا چلا گیا... پھر وہ پرچی جس پر میڈیسنز لکھی تھیں وہ ان سے لے کر الوداعی کلمات کہتا باہر آ گیا...
💝💝💝💝💝
"ہانیہ..." وہ باہر آیا تو ہانیہ ویٹنگ روم میں نہیں تھی... اس کے تو حواس ہی مختل ہو کر رہ گۓ... "ہانی..." ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے اس نے بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا... پھر ویٹنگ روم کے دروازے سے نکل کر راہداری میں جھانکا... لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھی... دوسری جانب کی راہداری میں سامنے مین گیٹ تھا... وہ تیزی سے مین گیٹ کی طرف آیا... باہر نکل کر دیکھا تو ہانیہ کہیں دکھائ نہ دی... وہ پریشانی کے عالم میں پھر اندر آیا... ویٹنگ روم میں ایک بزرگ صوفے پر نیم دراز سے تھے... حسن نے انہیں مخاطب کیا...
"ایکسکیوزمی... یہاں ایک لڑکی بیٹھی تھی ابھی کچھ دیر پہلے... کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں گئ ہے...؟؟ ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اس نے... " اضطرابی کیفیت میں وہ تیز تیز بول رہا تھا... اس بوڑھے آدمی کو چند لمحے لگے اس کی بات سمجھنے میں... پھر انہوں نے ایک طرف جاتی راہداری کی جانب انگلی سے اشارہ کیا... حسن ان کے بولنے کا انتظار کیے بغیر تیزی سے بھاگتا ہوا اس راہداری کی جانب بڑھ گیا...
"ہانی..." اسے آوازیں دیتے ہوۓ وہ مسلسل چلتا جا رہا تھا.... راہداریاں ہی راہداریاں تھیں... لیکن ہانیہ کہیں نہ تھی...اسے لگا جیسے اس کے دماغ کی کوئ نس پھٹ جاۓ گی... تیزی سے بھاگتے ہوۓ اسے ایک جگہ رکنا پڑا... وہ راہداری کافی لمبی تھی... اور اس کے آخری سرے پر ایک موڑ تھا جو شاید اگلی راہداری میں مڑتا تھا... جبکہ اس راہداری کی درمیان میں سیڑھیاں تھیں جو اوپر کی منزل پر جاتی تھیں... حسن اسی کشمکش میں تھا کہ اوپر جاۓ یا سیدھا... تبھی اس کی نگاہ اوپر سیڑھیوں کے پاس لہراتے آنچل پر پڑی... بغیر کچھ سوچے وہ سیڑھیاں پھلانگتا اوپر جانے لگا... ایک جگہ سیڑھیوں پر خون کے چند قطرے لگے تھے... اور ہانیہ کا ایک جوتا بھی وہیں پڑا تھا... وہ حواس باختہ سا مزید آگے بڑھا... تمام سیڑھیاں عبور کرتے ہوۓ وہ اوپر آیا تو وہاں ہانیہ کا دوپٹہ اور ساتھ ہی دوسرا جوتا موجود تھا... ان چیزوں ہر توجہ دئیے بغیر وہ ٹیرس کی طرف آیا... سامنے ہانیہ نظر آئ تھی... جو کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں ٹیرس کے آخری سرے کی جانب چلتی جا رہی تھی... یوں جیسے اسے اپنی خبر تک نہ ہو...
"ہانیہ... " حسن چلّایا... لیکن اس نےحسن کی آواز تو جیسے سنی ہی نہیں... حسن جلدی سے آگے بڑھا... بھاگ کر اس کا بازو تھام کر اسے اپنی جانب کھینچا... وہ کچی ڈور سے کھنچتی ہوئ اس کے طرف چلی آئ... اس کا وجود حسن کے سینے سے ٹکرایا تھا... اور یوں جیسے وہ گہری نیند سے جاگی ہو... ایک لمحے کی بھی دیر ہو جاتی تو ہانیہ چھت سے نیچے گر چکی ہوتی... حسن نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں جکڑتے ہوۓ اس کے بالوں میں چہرہ چھپایا... اس کے آنسو ہانیہ کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے...
"حسن... کک... کیا ہوا آپ کو...؟؟ آپ رو کیوں رہے ہیں..." چند لمحے اس کے سینے میں منہ چھپاۓ رہنے کے بعد جب ہانیہ کو اس کے رونے کی خبر ہوئ تو وہ تڑپ اٹھی تھی...
"کیوں تنگ کرتی ہو مجھے اتنا... کیوں ستاتی ہو... اگر ابھی تمہیں کچھ ہو جاتا تو...." وہ بھیگی آواز میں کہہ گیا... ساتھ ہی اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کی پیشانی چومی... اس کی کنپٹی پر ایک جانب زخم سا بنا تھا... جہاں خون بھی جما ہوا نظر آ رہا تھا... شاید سیڑھیوں پر گر گئ تھی وہ... تبھی سیڑھیوں پر بھی حسن کو خون دکھائ دیا تھا...
"یہ آپ...کیا کہہ رہے ہیں حسن... مم...میں نے کیا کیا ہے...؟؟ اور میں یہاں کیسے آئ... میں تو ویٹنگ روم میں آپ کا انتظار کر رہی تھی... پھر... وہاں ایک بچہ آیا مجھے بلانے... اس نے مجھ سے کہا کہ....اس نے کہا مجھے آپ بلا رہے ہیں... اور میں اس کے کہنے پر اٹھی... اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ یہاں تک کیسے پہنچی میں... اور وہ... وہ بچہ کہاں گیا... وہ یہیں تو تھا ابھی... اسی طرف گیا تھا... شاید وہ نیچے گر گیا... حسن... وہ بچہ نیچے گر گیا... اسے چوٹ لگی ہو گی... وہ رو رہا ہو گا.... اس کا...اس کا خون بہہ رہا ہو گا... " ہانیہ خود سے ہی الجھتے ہوۓ پھر آگے کی جانب بڑھی... جب حسن نے اسے بازو سے تھام کر اپنی طرف کھینچا...
"وہاں کوئ نہیں ہے ہانی... کوئ بچہ نہیں ہے ادھر... چلو میرے ساتھ... تمہیں چوٹ لگی ہے... ڈاکٹر سے بینڈیج کروا کے گھر چلتے ہیں..." حسن نے ضبط کرتے ہوۓ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اسے سمجھایا... پھر زبردستی اسے اپنے ساتھ جانے لگا... سیڑھیوں کے اختتام پر پڑا اس کا دوپٹہ اٹھا کر اس کے کندھوں پر پھیلایا... اس کا جوتا لا کر اس کے قریب رکھا... پھر اسے سہارا دیتے ہوۓ سیڑھیاں اترنے لگا...