دل کہیں پر ہے اور دماغ کہیں
اپنا ملتا نہیں سراغ کہیں
وصل کی شب کہیں پہ اُتری ہے
بجھ گیا ہجر کا چراغ کہیں
مئے رُخسار و چشم و لب اتنی
چھوٹا پڑ جائے نہ ایاغ کہیں
لَو لپکتی، نہ دُود سا کچھ تھا
عشق کا جل رہا تھا داغ کہیں
خواب مجھ سا ہی دیکھ کر کوئی
ہو رہا ہوگا باغ باغ کہیں
نقطۂ علم کے سمجھنے کو
دل سا، لائے کوئی دماغ کہیں
اک تصور میں کھو گئے ایسے
اب میسر نہیں فراغ کہیں
جتنا ممکن تھا، اُتنا وعدہ تھا
کب دکھائے تھے سبز باغ کہیں
محوِ پرواز ہے ابھی حیدر
رہ گئے راستے میں زاغ کہیں
٭٭٭