دیارِ دل میں کسی نے ورُود کرتے ہوئے
بجھا دیا، ہمیں روشن وجود کرتے ہوئے
یہ میرے جسم نے کیا کھیل مجھ سے کر ڈالا
مجھے نکال دیا بے وجود کرتے ہوئے
پہنچ گئے جو کنارے کبھی تباہی کے
تو بچ کے آ گئے وردِ درُود کرتے ہوئے
کھڑے تھے شاہ کئی جھولیوں کو پھیلائے
فقیر گزرے تھے جس رہ سے جود کرتے ہوئے
کئی برس کی جدائی بھی کچھ بدل نہ سکی
وہ زُودرنج ملا، رنج زُود کرتے ہوئے
کسی کی یاد جلائی تھی جس گھڑی حیدر
فضا مہک اُٹھی صندل کو دُود کرتے ہوئے
٭٭٭